اور محو حیرت ہیں کہ عہد وسطی کے مسلم سائنسدا ن آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس نتیجہ پر کس طرح پہنچے تھے جبکہ حقیقت تدوین و مطالعہ اور جائزہ کے لئے انہیں سہولتیں بھی انہیں حاصل نہیں تھیں اور نہ ہی آلات مہیا تھے پھر بھی مسلم سائنس دانوں کا یہ کرشمہی سارے عالم اسلام کے لئے اگر عزت و فخر کا سبب ہے تو یورپی ممالک کے لئے قابل تقلید علم جس کی روشنی میں وہ ایجادات و تحقیق کے نئے منازل طے کررہے ہیں ۔
کچھ متعصب عیساقئی اور یہودی مورخوں اور سائنسدانوں نے گرچہ اپنے پیشوں کی حرمت و عزمت کو برقرار نہیں رکھا اور بہت کوشش کی کہ نئے ایجادات و تحقیق کا سہرا یورپی ممالک کے سائنسدانوں کے سر باندھا جائے لیکن وہ اپنی اس سازش میں کامیاب نہیں ہو سکے اس لئے کہ اسلام کے فروغ کے بعد عیسائی پوپ کی تنگ نظری مذہبی منافرت اور شدت پسندی کی وجہ سے یورپ نے تقریبا چھہ سو سال کا عرصہ خواب میں گزار دیا یہ دور اسلام کے عروج اور انتہا کا تھا مسلم سائنسدان اسلامی تین بڑے علمی ادبی دینی فقہی مرکزوں میں علم حاصل کررہے تھے اور یہ ادارے ساری دنیا کے طالب علموں کی تحقیق کا مرکز تھے یہاں کے سائنسدانوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ایجادات تجربات ماخذ اور تحصیل سے تمام علوم کو مالا مال کر دیا تھا اس زمانے میں ماہر علم نباتات ابن ال بیطار نے سینکڑوں نئے قسم کے پودوں انکی افادیت سے لوگوں کو روشناش کرایا تو اسی زمانے میں علم الا بدان کا ماہر فارابی بیماریاں علاج دوئیاں جڑی بوٹی ان پر تحقیق و تجربات پیش کئے اس زمانے میں پرانے نظریات کو مسترد کرکے نئے نظریوں کو قائم کیا جارہا تھا اور ان کے لئے نئے نئے مضامین کے متعلق کتابیں لکھی جارہی تھیں علم کیمیا ، فزکس ، علم الارض ، علم نجوم ، علم فلکیات ، علم اعداد ، جیومیٹری ،حساب ، متھیمیٹکس ، جغرافیہ ، سمندر ، سمندری سفر ، وقت ، زمین کا طول و ارض ان سبھی مضامین میں تحقیقی کام جاری تھا اور نئے نئے ایجاداتر و انکشافات ہو رہے تھے نئی نئی کتابیں لکھی جارہی تھیں یہ سارے کارنامے مسلم سائنسدانوں کے تھے جن کی عربی میں لکھی کتابوں کو سب سے پہلے لیٹن زبان میں ترجمہ کیا گیا کچھ کتابوں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا گیا لیکن حقیقتا چھہ سو سال گزرنے کے بعد یورپی ممالک کی آنکھ کھلی اور انہوں نے دیکھا کہ جو عرصہ انہوں نے نفرت اور محدود فکر کی وجہ سے ضائع کر دیا وہ نہایت قیمتی زمانہ تھا اور دنیاوی علوم میں نیز بہت سارے معاملات میں وہ زمانے سے بہت پیچھے رہ گئے تب یورپی ممالک میں لیٹن اور فرنچ زبان سے ان عربی میں لکھی کتابوں کے ترجمہ کا کام شروع کیا گیا بہت سارے سائنسدانوں نے مسلم سائنسدانوں کے کارناموں اور تحقیقی رسالوں کو پڑھا اور پھر یورپ کی کئی زبانوں میں ان اہم اور نایاب کتابوں کا ترجمہ کیا گیا ۔بعد میں یورپ کے ہی فراخ دل اور وسیع النظر سائنس دانوں نے مسلم سائنسدانوں کے ان کارناموں کو تہہ دل سے خراج عقیدت پیش کیا ان کے نظریوں کی تائید کی اور ان کے تحقیقی کاموں کو دل کھول کر سراہا ۔آج کسی بھی علم کا ماخذ اور بنیاد مسلم سائنسدانوں کا تحقیقی نظریہ یا ان پر لکھی گئی کتابیں ہیں جسے انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں پیش کیا ہے ۔یہی وہ زمانہ تھا جب علم نجوم اور علم فلکیات کے متعلق مسلم سائنسدانو ں نے تحقیق کرکے نئے نظریات پیش کئے اور دلائل کے ساتھ کتابیں لکھیں ۔ابوعباس الخوارزمی مامون رشید کے زمانے کے مشہور سائنسداں تھے میتھیمٹکس ، الجبرا ، جیومٹری اور علم الحساب کے ماہر خوارزمی نے جیومیٹری کے اصولوں کو ترتیب دیا ہندی اور عربی اعداد کو ملا کر نئی تھیوری سلسلہ اور ترتیب کے ساتھ پیش کیا اس کے لئے اصول و ضوابط مقرر کئے ۔ خوارزمی نے زمین کے طول و عرض کو ناپ کر پیمائش بھی پیش کی ۔ وقت کا تعین کرنے کا طریقہ بتایا اور کئی کتابیں لکھی جو مضامین کے اعتبار سے منفرد اور یکتا ہیں ۔ ان کی دو مشہور کتابیں علم فلکیات اور علم نجوم کے متعلق تھی سورج اور ستاروں کی روشنی کے انعکاس زاویوں سے وقت کے تعین کا طریقہ بھی انہوں نے پیش کیا تھا یہی زمانہ تھا کہ خوارزمی کے تقریبا دو دہائی کے بعد الفرغانی نے علم فلکیات و علم نجوم کے متعلق کتاب لکھ کر اس علم کو نئی راہ دکھائی اور اس کو وسعت عطا کی ۔
ابو العباس احمد ابن محمد ابن خطیر ال فرغانی ٹرانسوزی انا کے فرغانہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ یہ علم نجوم کے ماہرین میں نہایت اعلیٰ درجہ کا مقام رکھتے ہیں ۔انہوں نے المامون کی خلافت میں ان کے جانشینوں کے زمانے میں اپنی اعلیٰ علمی اور صلاحیتوں کی بنیا د پر نہایت شہریت پائی اور عظیم ماہر علم فلکیات و علم نجوم کا مقام حاصل کیا ۔ انہوں نے Elements Of Astronomy لکھی جو عربی میں ’’ کتاب فی ال حرکت ال سماویہ و جوادی سم ال نجوم‘ کے نام سے موسوم ہے ۔یہ کتاب نجوم اور ستاروں کی چال کے متعلق ہے یہ کتا ب اس مضمون میں جامع اور مکمل سائنس کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 12صدی عیسوی میں اس کتاب کا ترجمہ لیٹن زبان میں کیا گیا اس کتاب نے یورپی علم نجوم کو بے انتہا متاثر کیا اور اس کا اثر ریگیو مونٹا نس کے قبل تک پہت گہرا تھا ۔ انہوں نے بھی پولیمی کے نظریات کو قبول کیا اور اس بات کو تسلیم کرلیا کہ کسی بھی اجرام فلکی کا محور پر گھومنا اور کھومتے ہوئے سمت میں تبدیلی اور سلسلہ وار تبدیلی جو بتدریج ہوتی ہے لازمی ہے لیکن ساتھ ہی اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ یہ نا صرف ستاروں کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاروں کو بھی متاثر کرتا ہے انہوں نے زمین کے طولک و عرض کا تعین بھی کیا اور بتایا کی طول و عرض میں زمین 6ہزار پانچ سو میل کا رقبہ رکھتی ہے انہوں نے سیاروں کے طویل فاصلے اور ان کے طول و عرض کی تحقیق کی ۔
الفرغانی نے اپنا دائرہ عمل انجینئرنگ کے میدان تک وسیع کیا اور ابن توغری ربرری کے مطابق انہوں نے (قدیمی قاہرہ ) الفوستات کی عظیم نہر جو ٹیگرس سے ملحق تھی اس کے تعمیری کاموں کی نگہبانی بھی کی ۔ یہ نہر 861ء میں بن کر تیار ہوئی لیکن اس زمانے میں خلیفہ المتوکل جس نے اس نہر کو بنانے کا حکم دیا تھا اس کی موت ہو گئی ۔ الفرغانی کے لئے انجینئرنگ کو منزل بنانا ان کا مقصد نا تھا جیسا کہ ابن ابی اویسیا نے ایک واقوی بیان کیا ہے ۔
واقعہ یوں ہے کہ خلیفہ المتوکل نے موسیٰ ابن شاکر کے دو لڑکوں احمد اور محمد پر اعتبار کرکے الجفاری نام سے ایک نہر کی نگہبانی سونپی یہ نہر ٹگریس ندی سے ملحق ہو کر بنائی جانی تھی ۔ ان لڑکوں نے الفرغانی کی خدمات حاصل کی اور اس طرح ان لوگوں نے ایک خاص ذہن کے ساتھ سازش کے طور پر اس زمانے کے مشہور اور قابل انجینئر سند ابن علی کو نظر انداز کر دیا ۔اور تعصب و نفرت کی بنیاد پر پیشہ وارانہ چشمک کے سبب ان لوگوں نے ابن علی کو خلیفہ متوکل کے دارالخلافت سمارا سے بغداد روانہ کر دیا ۔اس نہر کو نئے شہر الجافریا سے ہوکر گزرنا تھا اس نہر کا نام متوکل نے اپنے نام سے موسوم کیا تھا اور ٹیگرس ندی کے کنارے آباد سمارا کے قریب نئے شہر الجافریا کو آباد کیا تھا ۔اس نہر کی کھدائی کے وقت الفرغانی سے ایک زبردست غلطی ہوگئی اور نہر کے اول سرے کو کافی گہرا کھود دیا گیا بلکہ باقی حصہ مقابلتا اونچائی پر تھے نتیجہ یہ ہوا پانی کی روانی پوری لمبائی سے یکساں نہیں ہو سکی اور یہ اس وقت ممکن ہونا تھا جب ٹیگرس ندی کا آبی سطح کافی اونچا ہو جاتا تھا اس واقعے کی خبر نے خلیفہ متوکل کو کافی ناراض کر دیا اور دونوں بھائیوں کو سخت سزا سے نجات اس شرط پر دی گئی کہ وہ سند ابن علی سے راضی خوشی اس بات کی دلیل دلوائیں اور ثبوت پیش کریں کہ الفرغانی کا کھدائی کے معاملہ میں طریقہ کار اور حساب درست تھا ۔ اس طرح اپنی خیر و عافیت کو داؤ ں پر لگا کر اور ممکنہ گردن زدنی کی سزا کو انہوں نے دعوت دے دی تھی لیکن اتفاق یہ ہوا کہ نجومیوں کی پیش گوئی کے مطابق جو بالکل سچی ثابت ہوئی خلیفہ متوکل کو قتل کر دیا گیا اس سے پہلے کہ یہ غلطی کھل کر سامنے آتی یہ معاملہ تقریبا ختم ہو گیا ۔
الفرغانی کے متعلق اس حقیقی واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات صاف طور پر ذہن میں آجائے کہ الفرغانی صرف ایک تھیوریٹکل آدمی تھے وہ عملی طور پر ایک انجینئر نہیں تھے اور ان کی غلطی یہ تھی کہ انجتنئرینگ کا تجربہ نہیں ہونے کے باوجود اس میدان میں بھی انہوں نے تجربہ کرنا چاہا جو ناکام رہا ۔
987میں ابن ال ندیم کی تیار کردہ فہرست کے مطابق الفرغانی نے صرف دو کتابیں لکھی ’’ کتاب ال فوسل اختیار ال مجیتی ‘‘ دوسری کتاب سن ڈائل کے بنانے کے متعلق تھی اس کتاب کا نام ’’ کتاب عمل ال رخ مات‘‘ تھی ان کتابوں کے ترجہ The Book of Chapters
جواب دیں