علاج کے نام پہ مچی ہے لوٹ، ڈاکٹروں کے بھیس میں چھپے ہیں ڈاکو اور لٹیرے!!!

 

احساس نایاب (شیموگہ، کرناٹک)

 

ایک دور تھا جب ڈاکٹر کو مسیحا سمجھا جاتا تھا، محض ان کی موجودگی سے ہی بیمار کو اطمینان ہوجاتا، کیونکہ اُس وقت ڈاکٹر کے ہاتھوں میں غیبی شفاء ہوا کرتی تھی ۔۔۔۔ لیکن افسوس آج انہیں ڈاکٹر کے نام سے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں، امیر ہو یا غریب ہر ایک کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کی وجہ علاج کے نام میں دی جانے والی مہنگی دوائیاں، بےجا ٹیسٹ اور آسمان چھوتی فیس، جس کے بعد مریض کے ساتھ ساتھ اُس کے اہل خانہ کا بھی بلڈ پریشرہائی اور شوگر لیول لو ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔ ایسے میں بیچارا انسان کرے بھی تو کیا کرے مجبوراً خود کو اور اپنے عزیز و اقارب کو ان سفید پوش قصاب کے حوالے کردیتا ہے بھلے جیب کٹے یا گلا ۔۔۔۔

دراصل چھوٹی ڈسپنسریاں اور کلینکس سے لے کر بڑے سے بڑے مشہور ہسپتالوں میں بھی کھُلے عام لوٹ مچی ہوئی ہے، نت نئی، عجیب و غریب بیماریوں کا ڈر دکھاکر مریضوں کی جیب پر دن دھاڑے ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔

افسوس کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہمارے یہاں سوال کرنےاور اس دھاندلی کو روکنے کے لئے نہ سرکار کچھ کرتی ہے نہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی موثر اقدام کیا جاتا ہے نہ ہی کوئی تنظیم ، این جی او اس کے خلاف حرکت میں آتی ہے اور نہ ہی تعلیم یافتہ کہلانے والے باشعور اور متاثرہ افراد اس لوٹ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ حالات کسی مخصوص طبقہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہرعام و خاص اس کی لپیٹ میں ہے ، چاہے وہ پولس ہوں ، وکیل ہوں یا صحافی

ہر کسی کی علاج کے بہانے کبھی نہ کبھی جیب ضرور کٹی ہے ۔۔۔۔۔

ایسے میں غریب و یتیم اور بے بس و مجبور لوگوں کو دھوکہ دے کر آئے دن ان کی کڈنی نکال لی جاتی ہے ۔۔۔۔۔

 یوں تو 99 فیصد مریض بیماری سے مکمل صحت یابی کی تمنا لئے ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں اور ڈاکٹر سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ بہتر علاج کے ذریعہ ان کے درد ، تکلیف کو دور کرینگے ۔۔۔۔۔ جبکہ یہاں پہ چند ڈاکٹر کے بھیس میں پیشہ ور دلال بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔ جو لیب سے لے کر میڈیکل تک ہر جگہ اپنا کمیشن طئے کئیے ہوتے ہیں ، ایک دن میں اتنے مریضوں ( پیشنٹس ) کو فلاں فلاں ٹیسٹ اور دوائیوں کے عوض یہ ضمیر فروش اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول ہیں ۔۔۔۔ کئی ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی کرتے ہوئے اپنی الگ سے ذاتی کلینک چلاتے ہیں تاکہ وہاں پہ وہ مریضوں سے اور زیادہ رقم وصول کر سکیں، ایک تو سرکاری نوکری میں رہ کر لاکھوں کی تنخواہ، دوسری طرف ذاتی کلینک کی آمدنی ، یوں لگتا ہے مانو ہندوستان کی خستہ حالی کے باوجود اگر کسی کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں تو وہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان لالچی ڈاکٹر کے ہاتھوں میں ہیں ۔۔۔۔۔

دراصل ان ضمیر فروش ڈاکٹروں نے اپنے اس مقدس پیشے کو محض تجارت اور پیسہ کمانے کا ذریعہ بنارکھا ہے ، ان کے ہاتھوں میں مریض محض اے ٹی ایم کارڈ بن چکا ہے ، جسے جب چاہو خودی سے ایجاد شدہ بیماری کا ڈر دکھا کر کیش کرلو ، بھلے یہ مجبور اتنی زیادہ رقوم کی ادائیگی کی خاطر اپنا گھر اور جائداد بیچ دیں یا صحت مند زندگی کی چاہت لئے قرض کے بوجھ میں دب کر مرجائیں ، ان ظالموں کو تو ان کے حال پہ ذرہ برابر بھی ترس نہیں آتا ۔۔۔۔۔

یہ تو اپنا ایمان ، دھرم ، انسانیت سب کچھ بھول چکے ہیں نہ انہیں اپنے پیشہ کا فرض یاد ہے نہ ہی ذمہ داری ۔۔۔۔۔ یہ تو ڈاکٹری پیشے پہ بدنما داغ ہیں ۔۔۔۔ ان کی نظر میں مریض کسی شکار سے کم نہیں اس لئے یہ ہمیشہ ایک نئے شکار کے انتظار میں گدھ کی طرح نظریں جمائے رہتے ہیں اور جب کوئی بدنصیب معمولی سی تکلیف لے کر بھی ان کے پاس آتا ہے تو یہ اُس کو بلاوجہ غیر ضروری ٹیسٹ کرواکر، ہزاروں کی دوائیں کھلاکر طویل علاج کے دوران اس سے لاکھوں کا پیسہ لے سکیں ، آج ایک 3 اسٹار ہوٹل کا کمرہ بھی 3 سے 4 ہزار روپیہ میں باآسانی مل جاتا ہے لیکن ہسپتالوں میں 2 ہاتھ جتنے کمرے کا کرایا 2 سے 5 ہزار ہے ، یہاں تک کہ راستے کے کنارے بیڈس لگاکر، بیڈ کے آس پاس پردے باندھ کر اس کو آئی سی یو کا نام دے دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔

کمینے پن کی انتہاء تو تب ہوتی ہے جب زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ مردہ جسموں کو بھی نہیں بخشا جاتا، انہیں بھی دو دنوں تک وینٹلیٹر پہ لیٹا کر آکسیجن ماسک لگانے کا ڈرامہ کرتے ہوئے اہل خانہ کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں ان میں چند ایسے کم ظرف جلاد قسم کے ڈاکٹر بھی موجود ہیں جو جسمانی اعضاء کی اسمگلنگ کرتے ہیں ، نوزائیدہ بچوں کو بھی غائب کروادیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ انہیں نہ اُس ماں پہ ترس آتا ہے نہ معصوم بچوں پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کیسے پیروں پہ چل کر آئے انسان کا جنازہ نکلتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جس کا ثبوت 12 ماہ کا وہ معصوم ہے جس کو آج ہم سے چھین لیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ آج سے دو ڈھائی سال قبل جب واکر میں کھیلتے ہوئے 12 ماہ کے فرحان ( نام تبدیل ) کو پیر میں معمولی سی موچ آگئی، پریشان والدین اپنے لاڈلے کو لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے ، یہاں سے بہانہ بناکر علاج کا کھیل کھیلا گیا ، پہلے تو مہنگے اسکینگس نکلوائے گئے، کئی طرح کے ٹیسٹ کروائے گئے اور آخر میں ڈرے سہمے مجبور والدین کی آنکھوں کے آگے اُس ننھی سی جان اُن کے لخت جگر کا آپریشن کیا گیا یہ کہہ کر کہ آپریشن نہ کیا گیا تو بچہ زندگی بھر کے لئے مفلوج ہوجائے گا ، بیچارے ماں باپ اپنے لخت جگر کو تندرست دیکھنے کی چاہت میں ڈاکٹروں کے حوالے کردیا لیکن افسوس آپریشن کے درمیان ہی وہ معصوم پھول ہمیشہ کے لئے مُرجھا گیا، جس کے بعد ان ظالم جلادوں نے اُس معصوم کے جسم کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ، والدین سے بچے کے مرنے کی بات چھپاکر مزید دو دنوں تک اُس ننھے بےجان جسم کو وینٹلیٹر پہ لیٹاکر آکسیجن ماسک لگاکر علاج کا ڈرامہ کیا گیا ۔۔۔۔۔ لیکن جب بچے کے اہل خانہ کو شک ہونے لگا تو ماں باپ سے موٹی رقم وصول کر بچے کے بےجان جسم کو اُن کے حوالے کیا گیا ۔۔۔۔ اُس وقت تک اُن بدنصیب ماں باپ کے پاس نہ ان کا سرمایہ بچا تھا نہ ہی اُن کی دولت اُن کی اولاد ۔۔۔۔۔ آج بھی وہ بدنصیب ماں خالی آنچل پھیلائے اپنے لخت جگر کے لئے ترستی ہے ، بلک بلک کر آنسو بہاتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔

آج کچھ یہی کیفیت 3 ننھے پھولوں کی ہے جن کی ماں تقریبا 20، 25 دنوں سے ہاسپٹل کی آئی سی یو میں بمشکل سانسیں لے رہی ہے ۔۔۔۔۔۔

جی ہاں 26 سالہ مہناز ( نام تبدیل ) جن کے شوہر غریب مزدور ہیں، غربت بھری زندگی ، اُس پہ بیوی کی بیماری ، 3 معصوم بچوں کی ذمہ داری ، جن میں بڑا بچہ 4 سال ، منجھلا 2 سال اور سب سے چھوٹا محض دیڑھ ماہ کا ہے ۔۔۔۔۔۔

شہر کے میگھن ہاسپٹل یعنی ( گورنمنٹ ہاسپٹل ) میں تیسرے بچے کی پہدائش ( ڈلیوری ) کے بعد اچانک مہناز کی طبیعت بگڑ گئی، جلد میگھن ہاسپٹل لے جایا گیا لیکن وہاں مریض کو داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا، گھبرائے ہوئے اہل خانہ مریضہ کو ننجپا ہاسپٹل لے گئے وہاں بھی ایڈمٹ کرنے سے انکار کردیا گیا ، اُس وقت انہیں مجبورا شہر کے مشہور ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا جہاں مریضہ کے شوہر سے دن میں کم از کم 15 سے 20 ہزار کی دوائی منگوائی جارہی ہے، جس کی وجہ سے 15 دنوں میں تقریباً 3 لاکھ صرف دوائیوں کے ہوچکے ہیں، اُس پہ نومبر 19 تک کا 2 لاکھ 50 ہزار یعنی ڈھائی لاکھ کا بل بن چکا ہے، جبکہ انہوں نے قرضہ ، چندہ وغیرہ مانگ کر پہلے ہی 90 ہزار جمع کرواچکے ہیں

«
»

بے باک صحافی حفیظ نعمانی

کیا دِنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ بلیک ڈے ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے