الٰہی یہ تیرے مولوی بندے

مضمون نگار نے اس چھوٹے سے مضمون میں پورے مسلم قوم کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور علماء امت کے تئیں ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویہ کی منظر کشی کی ہے ۔ علماء کرام کے قدر و منزلت کے متعلق قرآن و حدیث میں بیشمار آیات و احادیث موجود ہیں، نبء اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے علماء کو اپنا وارث قرار دیا ہے، اس دار فانی میں اگر کوئی کسی صاحب ثروت کا حقیقی وارث ہو تو لوگ اس کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں، اس کی جھوٹی خوشی کی خاطر ہر جائز و ناجائز کام کر نے کیلئے تیار رہتے ہیں، اسکی ہر بات کی اس طرح تصدیق کی جاتی ہے گویا کہ موصوف کے کلام منزل من اللہ ہے جس میں غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہو سکتا ہے، ی ان لوگوں کے وارثین کا حال ہے جنہیں اللہ نے دنیاوی مال و دولت سے کچھ حصہ عطا فرمایا ہے، لیکن وہ ذات گرامی جس کے صدقہ میں اس پوری کائنات کے نظام کو ترتیب دیا گیا ہے، جنہیں دونوں جہاں کا سردار بناکر مبعوث کیا گیا، جو خدا کی خدائی میں سب سے مکرم ہیں، جن کی اطاعت ومحبت کے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی ہے ان کے ورثاء4 کے ساتھ ہمارا کیا ردعمل ہے ۔ مولوی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ملامتی فرقہ ہے، یہ کوئی بھی کام کرے ناقدین اس میں اعتراض و ملامت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے ہیں، چہار جانب سے طعن و تشنیع کے تیر اس پر حملہ آور رہتے ہیں، قوم کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مولوی ہی سمجھے جاتے ہیں، یہ مولوی بڑے قدامت پسند ہے جو ماڈرن زمانے کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں، یہ معاشرہ پر بوجھ ہے اس سے کسی کا بھلا ہو نے والا نہیں ہے، دنیا چاند پر پہونچ گئے اور یہ مولوی اب بھی مسجد ہی جانے کی بات کر تا ہے، دنیا کو اب ایک ماڈرن اور ماڈریٹ اسلام کی ضرورت ہے لیکن یہ مولوی اب بھی بوسیدہ اور پرانی کتابوں کی ہی تعلیم دیتا ہے، لیکن اللہ نے اس مولوی کو بڑا سخت جان بنا یا ہے، جہاں بڑے بڑے سورماؤں کے پیر اکھڑ گئے یہ مولوی اپنے انہیں اسلامی شعار کے ساتھ کھڑا اپنے کام میں مشغول رہا، مغربی تہذیب کے تیز ہواؤں کے جھونکے میں بڑے بڑے اسکالرز اور سندیافتہ حضرات کی پگڑیاں اور لباس اتر گئے لیکن اس مولوی کا لباس بدلا نہ تہذیب بدلی فکر بدلی نہ سوچ بدلی، اسی تہذیب، اسی لاٹھی، اسی عمامہ اور اسی کرتا پائجامہ میں آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ 
فرنگی دور حکومت میں جب گورنمنٹ کی پشت پناہی کی بدولت عیسائی پادریوں نے اسلام اور اہل اسلام پر اعتراض کئے، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھ کر بائبل کی حقانیت کا ڈھول پیٹا جانے لگا اور ہر طرف سے گھیر کر مسلمانوں کو صلیبی جھنڈے کے نیچے کھڑا کر نے کی تیاری ہونے لگی تو یہ مولوی ہی تھے جو حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور دلائل و براہین کی روشنی میں اسلام کی صداقت کا اعلان کیا، اگر یہ مولوی نہیں ہوتے تو یہ ہندوستان بھی خطہ ارضی کا دوسرا اسپین بن گیا ہوتا، آج جو پورے ہندوستان اور برصغیر میں اسلام کی شناخت برقرار ہے یہ انہیں مولویوں کی قربانی کا نتیجہ ہے، آج بھی مسلمانوں کے ٹمٹماتے دئے کیلئے لہو کا تیل مولوی ہی فراہم کر رہا ہے، جب بستیاں نیند کی آغوش میں پناہ لے لیتی ہے، برق و باراں کی گھٹائیں سناٹے کا سینہ چیر تی ہے اور خون کو منجمد کر دینے والی سردی انسان کو گرم کپڑوں میں ڈھانپ لیتی ہے یہ ایک مولوی ہی ہے جو رات کے آخری پہر رضائے الہی کیلئے لحاف چھوڑ کر مسجد کی جانب روانہ ہوتا ہے اور صبح کی بو پھٹتے ہی خدا کی کبریائی بیان کر تا ہے، موسم گرما میں دوپہر کی چلچلاتی دھوپ سے بے پرواہ گھر کے سائبان کو چھوڑ کر مسجد آباد کر تا ہے، گاؤں دیہات، پہاڑی علاقے جو روز مرہ کے وسائل سے یکسر محروم ہیں، ریگستانی خطہ جہاں انسانی وجود کا تصور بھی محال ہے ایسے پسماندہ علاقوں میں اسلام کی شمع جلائے اور توحید کے پیغام کو عام کرنے کی ذمہ داری لئے ایک مولوی ہی بیٹھا رہتا ہے۔ 
ان تمام قربانیوں کے باوجود مولوی کو کہیں سکون نہیں ہے، مسجد کا امام ہے تو متولی کے زیر عتاب، مدرسہ کا استاد ہے تو ناظم سے پریشان، معاشی مسائل سے دوچار یہ مولوی پھر بھی محض دین کی بقا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار بیٹھا ہے، بہار کے مغربی چمپارن میں راقم کی ملاقات ایک امام صاحب سے ہوئی دوران گفتگو کمر توڑ مہنگائی کا تذکرہ چھڑ گیا، معاش کے متعلق دریافت کر نے پر امام صاحب نے جو جواب دئیے وہ کسی بھی ذی ہوش کے ہوش اڑانے کیلئے کافی تھا، پانچ وقت کی نماز اور بعد نماز فجر اور مغرب ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ کے مکتب کے نظام کے ساتھ امام صاحب کی تنخواہ صرف چار ہزار روپے ماہانہ تھی ذی حیثیت اور صاحب ثروت لوگوں کا علاقہ تھا، محلہ کے دو دو تین تین منزلہ مکان مکین کی مالی حالت بیان کر رہے تھے لیکن مادیت کے ان پرستاروں کے پاس ایک مولوی کو معقول تنخواہ دینے کی گنجائش نہیں تھی، جس کی اقتداء میں ہم نماز پنجگانہ ادا کر تے ہیں۔ 
کیا وہ اس لائق نہیں کہ ہم اسے معاشی مسائل سے بے پرواہ رکھیں، کیا یہ ایک عالم دین کا کھلا ہوا مذاق نہیں ہے؟ کیا یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے لاپرواہی نہیں ہے؟ ہم اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا کر لاکھوں کی مقدار میں اس کی سالانہ فیس ادا کرتے ہیں، محض چند روزہ دنیا کی خوشی کی خاطر ہر طرح کا سودا کرتے ہیں، شادی اور دیگر مواقع پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں مگر بات جب مولوی کے تنخواہ کی آتی ہے تو ہم کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، یہ صریح طور پر اسلامی تعلیمات سے دوری اور اسے کمتر سمجھنے کی وجہ سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک صحابی آئے اور سوال کیا یا رسول اللہ! ایک آدمی کسی قوم سے محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں رکھتا ہے ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔’’ آدمی جس سے محبت کرتا ہے آخرت میں اسی کے ساتھ ہوگا‘‘۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا ہم اسلامی تعلیمات سے آراستہ سنت نبوی کے مطیع و فرمانبردار مولوی حضرات سے محبت کرتے ہیں یا پھر ہم میں کچھ کمی ہے، یہ مولوی حضرات کا احسان عظیم ہے کہ ان تنگدستیوں کے باوجود خاموشی سے دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ من عاد لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب‘‘ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ’’ جس نے میرے معاملہ میں میرے کسی دوست سے عناد رکھا میں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ آج پورے عالم میں ہر طرف مسلمان پریشان حال ہے، جان و مال، عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے، وسائل کی بہتات کے باوجود عالم اسلام کی پریشانیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، کیا ان وجوہات کا سبب علماء امت سے دوری نہیں ہوسکتی ہے؟ اس ممکنہ پہلو سے نظر اندازی ہمارے دین و دنیا کے خسارے کا باعث بن سکتی ہے، آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم علماء کرام کو ان کا وہ حق دیں جو احادیث شریفہ میں بکثرت وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں، یہ مولوی حضرات ہمارے راہنما ہیں، ہمیں دین و دنیا دونوں میں ان کی اتباع کرنے کی ضرورت ہے۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے