جمال عبدالناصر کی حکومت واضح طریقے سے فوجی افسروں پر مشتمل تھی ۔ (کرنل) انور السادات اور (ایر مارشل) حسنی مبارک کے زمانے میں بھی صورت حال وہی رہی ۔ نتیجتاً ملک کی معیشت کے تقریباً ۴۵ فیصد پرآج فوج کا براہ راست یا بالواسطہ قبضہ ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر سابق فوجی افسر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ’’بہار عرب‘‘ کے نتیجے میں لگا کہ اب صورت حال بدلے گی۔ ملک میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہوئے اور الاخوان المسلمون کی سیاسی جماعت (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ پارلیمنٹ اور مجلس شوری کے انتخابات میں بھی الاخوان المسلمون کو اکثریت ملی۔ اس کے زیر نگرانی بنائے ہوئے آئین کو ملک کی اکثریت نے منظور کیا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن درحقیقت وہ ’’خفیہ حکومت ‘‘ ، جسے انگریزی اصطلاح میں ’’عمیق ریاست‘‘ deep state کہتے ہیں ، پوری طرح انتظامیہ پر قابض رہی۔ عدلیہ میں بھی سب وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کو صدر حسنی مبارک نے متعین کیا تھا۔ اس خفیہ حکومت نے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو حکومت نہیں کرنے دیا۔ ان کے احکامات کو عدلیہ رد کرنے لگی ۔یہاں تک صرف کچھ ٹکنکل بنیادوں پر پارلیمنٹ کو بھی کالعدم قرار دیدیا گیا۔ اس کے بعد عدلیہ کا اگلا نشانہ مجلس شوری تھا جس کی وجہ سے ملک میں مکمل خلا پیدا ہوجاتا۔ ایسی حالت میں صدر مرسی نے صرف ایک متعینہ مدت کے لئے صدارتی فرمان جاری کیا کہ ان کے احکامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب کیا تھا پوری قیامت آگئی اور اندر وباہر ہر طرف الزامات عائد ہونے لگے کہ صدر مرسی اخوانیوں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ۱۹۵۲ سے لیکر ۲۰۱۲ تک مصر میں کسی فرد یا جج کی ہمت نہیں تھی کہ کسی صدارتی فرمان کو چیلنج کرتا۔
چونکہ صدر مرسی اور ان کی حکومت کا صحیح معنوں میں فوج، پولیس اور خفیہ محکمہ پر کنٹرول نہیں تھا، اس لئے ایسے حالات دھیرے دھیرے بنادئے گئے جسمیں فوج کی دخل اندازی قابل قبول ہوگئی ۔ اس کام میں جہاں اندرونی فوجی اور لبرل طبقے کی حمایت حاصل تھی، وہیں غیر ملکی طاقتوں خصوصاً اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب سمیت خلیج ممالک کی پوری تاییدشامل تھی۔ اسرائیل کو معلوم تھا کہ الاخوان ہی وہ واحد طاقت ہیں جو پوری طرح اسرائیل کے خلاف ہیں اورعلاقے میں اس کی غنڈہ گردی پر لگام لگائیں گے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد ۱۹۴۸ میں صرف اخوان ہی تھے جنہوں نے ثابت قدمی سے یہودی ملیشیات کا جنوبی فلسطین میں مقابلہ کیا تھا جبکہ عرب فوجی یا تو اسرائیل کی مدد کر رہے تھے یا کھڑے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔
مصر ی فوج کو خلیجی حکام نے پوری مدد کا یقین دلایا تھا ۔دراصل خلیجی حکام کو ڈر تھا کہ اگر الاخوان المسلمون کے پیر مصر میں جم جاتے ہیں تو ان کی خاندانی اور موروثی سلطنتیں بھی خطرے میں پڑجائیں گی کیونکہ عصور وسطی کے نظام پر چلنے والی یہ خلیجی سلطنتیں آج بھی پوری طرح سے مطق العنان ہیں ۔ اگر چہ عوام کو معاشی سہولتیں اور تجارتی مواقع دیکر خاموش کردیا گیا ہے لیکن سارے حکومتی اختیارات فردواحد یاایک خاندان کے قبضے میں ہیں جو ملکی دولت کا تصرف ایسے کرتا ہے جیسے وہ اس کی ذاتی یا حاکم خاندان کی ملکیت ہو۔ یہ سارے خاندان بیرون ملک کچھ اسلامی اداروں اور افراد کی بھی مدد کرتے ہیں تاکہ کوئی ان پر تنقید کرنے کی نہ سوچے حالانکہ یہ مدد چند سکوں سے زیادہ نہیں ہوتی ہے جبکہ یہی طاقتیں مغربی سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو بہت فراخدلی سے مدد کرتی ہیں۔ وہاں بھی مقصد ان کی زبانوں کو بندکر نا ہی ہوتا ہے۔
ان حالات میں مصری فوج نے منتخب صدر کا تخخہ پلٹا ، ہزاروں کا دن دھاڑے قتل کیااور نہ صرف صدر سمیت ہزاروں اخوانی لیڈروں کو جیل بھیج دیا بلکہ ان پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بھی ٹھونک دئے۔ پھر بلکہ پچھلے سال ۲۵ دسمبر کو الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم کہہ کرکالعدم بھی کردیا۔ اب اخوان کے ممبرکو نہ صرف مصر کے اندر بلکہ مصر کے باہر بالخصوص خلیجی ممالک میں بھی بغیر کیس جرم کے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر گرفتارکیا جا رہا ہے۔ مصر کی ایک عدالت نے اور بھی آگے بڑھ کر فلسطینی مزاحمتی تحریک اور غزہ پر حاکم حماس تحریک کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیدیاہے۔ اسرائیل کو ان تبدیلیوں سے بہت خوشی ہے اور اس کے اعلی لیڈران متعدد بیانات دیکرمصر اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر خوشی کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ اب اسرائیل خود کو دوبارہ محفوظ سمجھتا ہے۔
اس سب کے بعد حالیہ ۸ مارچ کو سعودی عرب پھرفورا متحدہ عرب امارات اور کویت نے الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تحریک کہہ کر کالعدم قرار دے دیا ہے حالانکہ ان خلیجی ممالک میں پہلے ہی سے اخوان کا کوئی قا نونی وجود نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ کچھ مصری ان ملکوں میں ایسے ہیں جو اخوانی فکر رکھتے ہیں یا کچھ مقامی لوگ ہیں جو اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔ الاخوان مصر کے باہر صرف اردن اور سوڈان میں باقاعدہ طور سے بحیثیت تنظیم پائے جاتے ہیں اور ان دونوں ملکوں نے الاخوان کے بارے میں اپنے موقف کو نہیں بدلا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الاخوان نے کبھی سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے خلاف نہ کچھ کہا نہ کیا، بلکہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۶۰ کے دہے میں جب جمال عبدالناصر کے عرب قومیت کے طوفان کے تحت یکے بعد دیگر عرب حکومتیں ٹوٹ رہی تھیں اور عرب قومیت کا انقلاب یمن میں کامیاب ہوچکا تھا اور جنوبی یمن ؍ عمان کے ظفار علاقے میں کافی طاقتور جنگ جاری تھی، ایسے وقت میں الاخوان نے خلیجی اور بالخصوص سعودی حکمرانوں کا پوری طرح ساتھ دیا۔ ساری دنیا میں ان کے سفیر بنے اور زبان وقلم سے ان کی تایید کی۔ ۱۹۶۷ کی شکست کے بعد جمال عبدالناصر کا زور کم ہوا اور الاخوان پر بھی شکنجہ دھیرے دھیرے کمزور ہوا۔اب بھاگے ہوئے اخوانی مصر واپس لوٹنے لگے اور چند سال میں انہیں اتنی آزادی مل گئی کہ صدر انور السادات کے زمانے میں اگرچہ باقاعدہ پارٹی بنانے کی اجازت توانہیں نہیں ملی لیکن ان کا دفتر قاہرہ میں کھل گیا، ان کا ترجمان پرچہ ’’الدعوۃ ‘‘نکلنے لگا اور وہ دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر پارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لینے لگے۔
اس پورے عرصہ میں سعودی حکومت سے الاخوان کے عمدہ تعلقات رہے اور سعودی مدد بھی الاخوان کو ملتی رہی۔ لیکن الاخوان کے سیاسی طور پر جیتنے اور حکومت پر قابض ہونے سے حالات بالکل بدل گئے۔ الاخوان بہر حال ایک جمہوری اور شوری پر قائم عوامی حکومت لانے کے پابند تھے اور یہی ڈر تھا جو خلیجی حکمرانوں کو پہلے ہی دن سے لگ گیاتھا یہاں تک کہ دبئی پولیس کے چیف ضاحی خلفان نے الاخوان کے جیتتے ہی یہ کھل کر کہا تھاکہ میں اس حکومت کو گراکر دم لوں گا۔ اخوان کے مصر میں برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے مخالفین اپنی غیر قانونی دولت کے ساتھ بھاگ کر متحدہ عرب امارات میں ہی پناہ لیتے تھے۔
سعودی سمیت خلیجی حکام کے موقف میں یہ تبدیلی نہ صرف واضح طریقے سے اسلام دشمن اور جمہوریت مخالف یے بلکہ یہ احسان فراموشی کی بھی ایک بد ترین مثال ہے۔ جب ان کوشدید ضرورت تھی تو الاخوان نے ان کی پوری دنیا میں تایید کی اور وہ ماحول پیدا کیا جس میں یہ حکومتیں متزلزل نہیں ہوئیں اور جب اخوان خود اقتدار تک پہنچے تویہی لوگ اخوان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور ان کے مخالفین کے لئے اپنی دولت کے خزانے کھول دئے۔
آج یقیناً الاخوان مشکلات میں گھرے ہیں لیکن یہ سب ایک دن بدلے گا۔ کسی عوامی تحریک کو کچلا نہیں جاسکتا۔ اپنے اس امتحان وہ اسی طرح ثابت قدم اور کھرے اتریں گے جیسے وہ جمال عبدالناصر کے ظلم کے سامنے اترے تھے اور یقیناً جب وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچیں گے تو ان کی آنکھوں کے سامنے بہت سے غبار چھٹ چکے ہوں گے۔ خطۂ عرب کے باہر بھی مسلمانوں کو اس ظلم کے خلاف واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔
اگر الاخوان جیسی شریف، معتدل،روشن خیال، انحرافات سے پاک جماعت کو ختم ہونے دیا گیا تو خود اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ اور بحران ہوگا۔ ذراسے فائدے کے لئے جو افراد اور جماعتیں آج خلیج اور سعودی عرب کا ساتھ دے رہی ہیں یا کم از کم خاموش ہی ہیں، انہیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے۔
میں ذاتی طور سے سعودی کانفرنسوں میں ۱۹۷۸ سے شریک ہوتا رہا ہوں لیکن میں نے سعودی حکومت یا سعودی حکام سے نہ کوئی امدادلی نہ کوئی ذاتی فائدہ اٹھایا۔ اب ان حالات کے بعد جب مجھے پچھلی فروری میں حالیہ مارچ کے شروع میں مکہ مکرمہ کے رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تو میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب متعدد سعودی شخصیات یکے بعد دیگرے ہمارے ملک آئیں تو بھی کئی دعوت نامے ملاقات اور عشائیہ وغیرہ کے لئے آئے لیکن میں نے سب میں شرکت سے معذرت کردی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت جب کہ الاخوان کے خلاف ظلم عظیم میں یہ طاقت ملوث ہے تو اس طرح کی کوئی بھی ملاقات ان کے ان ظالمانہ مواقف کی تایید ہی سمجھی جائے گی۔
جواب دیں