مصر کی کل آبادی 9کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اسلامی حکومت کی عمر مصر میں بمشکل ایک سال ہوپائی کہ لبرل عوام اور فوج نے مل کر اخوان حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور اخوان اس اقدام کے خلاف احتجاج کے لیے مصر کی سڑکوں پر نکل آئے۔ مصر کی موجودہ کشیدگی کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے تحریک اخوان المسلمون کے اغراض و مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے۔
پوری عرب دنیا میں اسلامی احیا اور اسلامی کلچر کے نفاذ کے لیے کوشش کرنے والی تحریک اخوان المسلمون ہے۔ اخوان المسلمون کو حسن البنا شہید نے 1928 میں قائم کیا۔ آج یہ تحریک صرف مصر میں ہی نہیں بلکہ شام، اردن، لبنان اورفلسطین میں بھی موجود ہے۔
ایک مرتبہ جب حسن البناء سے اخوان المسلمون کے بارے میں سوال کیا گیا کہ یہ اخوان المسلمون کیا ہے، تو آپ نے فرمایا:
-1 یہ دراصل سرچشموں(قرآن، سنتِ رسول ؐ)کی طرف لوٹنے کی دعوت ہے۔
-2 یہ تصوف ہے۔ ہم دل کی طہارت اور نفس کی پاکیزگی چاہتے ہیں۔
-3 یہ سیاسی تنظیم ہے۔ ہم حکومت میں اصلاح کا مطالبہ چاہتے ہیں۔
-4 یہ ورزش کی ٹیم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک نوجوان صحت مند ہو۔
-5 یہ وطنی اور ثقافتی انجمن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک کلب کا ماحول پیدا ہو۔ نوجوان یہاں آئیں اور اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں۔ کلچر میں حصہ لیں اور لکھنا بولنا سب دین کی خاطر کرنے کی عادت ڈالیں۔
-6 یہ معاشی کمیٹی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک آدمی بزنس کے اعلی ترین مقام پر ہو اور معیشت کو سیدھا راستہ دکھا سکے۔
-7 یہ ہماری معاشرتی اسکیم ہے۔ ہم معاشرے میں برائیوں کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔
جتنا اسلام جامع ہے اتنی ہی ہماری تحریک بھی جامع ہے۔ حسن البناء نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
ہماری تحریک کی 3 بنیادیں ہیں:
-1 گہرا ایمان
-2 دقیق تنظیم
-3 پیہم جدوجہد
ہم دیکھتے ہیں کہ اخوان المسلمون کی تنظیم میں گہرا ایمان پایا جاتا ہے۔ ایک مہینہ کے مستقل احتجاج نے ان کے عزم میں کمی نہیں کی ہے۔ مسلسل فوجی جارحیت کی وجہ سے عمل میں آنے والی شہادتوں کی تعداد 1000 کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ لیکن جواب میں اخوان نے ابھی تک ہتھیار نہیں اٹھائے۔ ان کا احتجاج پرامن احتجاج ہے۔ آج رابعہ العدویہ میں CNN اور BBC کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں لوگ احتجاج کررہے ہیں جو دنیا کا عظیم ترین احتجاج ہے۔ امریکا اور یورپ جمہوریت کے حامی ہیں لیکن مصر میں جس طرح جمہوریت کو پامال کیا گیا اور فوجی مداخلت کرکے مرسی حکومت کا تختہ الٹا گیا یہ عمل جمہوریت کی دنیا کا سیاہ باب ہے، اس کے باوجود جمہوریت کے علم برداروں کی خاموشی اور مصر میں فوجی حکومت کی سرپرستی کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ اخوان المسلمون کی قربانیاں مصر میں آج سے نہیں بلکہ طویل عرصے سے جاری ہیں، پھر بھی اخوان مصر میں ایک مضبوط تنظیم ہے۔ مصر میں اخوان کے اسکول گورنمنٹ کے اسکولوں سے بہتر ہیں، اخوان کے اپنے اسپتال گورنمنٹ کے اسپتالوں سے بہتر ہیں، اور اخوان کے جگہ جگہ قائم کردہ بینک گورنمنٹ کے بینکوں سے بہتر ہیں، اسی لیے لوگ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اخوان کے اسکولوں اسپتالوں اور بینکوں کی طرف آتے ہیں۔ شہرشہر اور گاؤں گاؤں اخوان کے کاموں سے مزین ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ مصر میں اخوان کا نیٹ ورک بنیادی طور پر بہت مستحکم ہے۔ یہی نہیں بلکہ اخوان کے لیڈران بہت تعلیم یافتہ رہے ہیں۔ جناب حسن البنا شہید کے بعد شیخ حسن اسماعیل حزیری نے قیادت سنبھالی جو کہ مصر کے بہترین ججوں میں سے تھے۔ ان کے بعد عمر تلمسانی آئے جو مصر کے وکیل تھے۔ اور ان کے بعد ڈاکٹر محمد بدیع ہیں جن کا شمار آج دنیا کے 4بہترین سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ غرض اخوان المسلمون عرب دنیا میں احیائے اسلام کی ایک بہترین اور مضبوط تنظیم ہے جو لبرل اور غیر مسلموں کی آنکھوں میں شروع سے کھٹکتی آئی ہے۔ جمال عبدالناصر اور حسنی مبارک جیسے لبرل حکمرانوں نے مستقل یہی کوشش کی کہ مصر میں اخوان المسلمون کو کچل دیا جائے۔ ان حکمرانوں کے اقتدار کے دوران اخوان پر مسلسل پابندیاں بھی لگائی گئیں اور ان کے عظیم کارکنان اور لیڈران کو قید و بند کی مشکلات بھی اٹھانی پڑیں۔ لیکن آج بھی اخوانیوں کا ایمان مضبوط عزم جواں اور ان میں مسلسل جدوجہد کی لگن و ہمت موجود ہے۔ آج ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر مصر میں جمہوری حکومت کی بحالی کی جدوجہد میں مددگار ہوں۔
اِن شا اللہ مصر میں اخوان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ اسلامی احیا اور اسلامی کلچر کی، دنیا میں پہچان کرانے کے لیے تمام مسلمانوں کا متحد ہونا اور کوششوں میں حصہ دار بننا ضروری ہے۔ ہماری دعائیں اخوان المسلمون کے ساتھ ہیں، خدا ان کی حفاظت فرمائے اور نیک مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کرے۔ آمین
جواب دیں