بالفاظ دیگر مختلف ڈیزائنوں کے کپڑے پہنائے اس کو ہیں اور اس کی وسعت نظر کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے، باوجود یہ کہ یہ صرف بلندحکیمانہ تعلیمات کا نام ہے، چناں چہ وہ اسلام کے معنی میں شدید اختلاف کا شکار ہوئے، اور ان کے بچوں کے دلوں میں اسلام کی مختلف شکلیں مرتسم ہوگئیں جو رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے پیش کردہ صحیح اسلام سے میل نہیں کھاتیں۔
اس لیے لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو اسلام کو صرف ظاہری عبادتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں، اگر وہ ان کو ادا کریں یا دوسروں کو ان عبادتوں کا پابند دیکھیں تو ان کو اس پر اطمینان ہوجاتا ہے اور خوش ہوجاتے ہیں، گویاان کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ مغز تک پہنچنے کے بجائے صرف اسلام کے چھلکوں تک پہنچ جائیں، یہ مسلمانوں میں اسلام کے عام معنی ہے۔
بعض لوگ اسلام کو صرف فاضلانہ اخلاق، طاقتور روحانیت، عقل وروح کی لذت کے لیے ایک فلسفہ اوران کومادی آلائشوں سے دور رکھنا سمجھتے ہیں۔
بعض لوگ اسلام کی اس حد تک رک جاتے ہیں کہ وہ اسلام میں موجود نشاط وعمل کو پسند کرتے ہیں، ان کے علاوہ دوسرے امور کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنا ان کو اچھا نہیں لگتا۔
بعض لوگ اسلام کو اس حیثیت سے دیکھتے ہیں کہ یہ موروثی عقائد اورباپ دادوں سے رائج عادات واطوار کا مجموعہ ہے، جن میں نہ کوئی طاقت ہے نہ زندگی ہے اورنہ ان کے ساتھ ترقی کرنا ممکن ہے، چناں چہ ایسا شخص اسلام اور اس سے متعلق ہر چیز سے بیزار اوربے دلی کا شکار ہے، یہ سوچ غیراسلامی تہذیب سے آراستہ بہت سے لوگوں کی ہے، ان کو اسلام کے حقائق سے واقف ہونے کا موقع ہی نہیں ملا ہے، وہ درحقیقت اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں، یا انھوں نے اسلام کو ان لوگوں سے حاصل کیا ہے جنھوں نے مسلمانوں کی صحیح شبیہ پیش نہیں کی ہے، بلکہ اس کو مسخ کرکے بتایا ہے۔
اسی طرح اوربھی قسم کے لوگ ہیں جن کااسلام سے متعلق نظریہ دوسروں سے تھوڑا یا زیادہ مختلف ہے، بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اسلام کو واضح اور مکمل شکل میں سمجھا ہے جو ان سبھی معانی اورخوبیوں کو یکجا کرتے ہیں۔
لوگوں کے دلوں میں ایک ہی اسلام کی ان متعدد شکلوں نے اخوان المسلمون کو سمجھنے اور ان کے نظریے کو جاننے میں مشکل پیدا کردی ہے۔
بعض لوگ اخوان کو وعظ ونصیحت کرنے والی ایک جماعت تصور رکرتے ہیں، جن کا مقصد صرف یہی ہے کہ لوگوں کووعظ نصیحت کرکے دنیا سے بے رغبت کردیا جائے اور آخرت کی یاد دلائی جائے۔
بعض لوگ اخوان کو تصوف کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں جو لوگوں کو ذکر واذکار اور عبادت کے مختلف طریقوں ،زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دیتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اخوانی ایک فقہی نظریہ ہے، جن کی تمام تر توجہ اس جانب ہے کہ چند احکام ومسائل میں بحث ومباحثہ کیا جائے اور لوگوں کو ان کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دی جائے یا جو ان مسائل میں اخوان کی بات قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جھگڑا کیا جائے۔
بہت ہی کم لوگ اخوان سے ملے ہیں اور ان کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر دیکھا ہے، جنھوں نے صرف سننے پر اکتفا نہیں کیا اورنہ اپنے تصور وخیال کے مطابق اسلام کو اخوان المسلمون سے وابستہ کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے وہ اخوان کی حقیقت سے واقف ہوگئے ہیں اور ان کی دعوت کے ہر علمی اور عملی پہلو کو جانا ہے، اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ حضرات کے سامنے اخوان المسلمون کے دلوں میں موجود اسلام کے معنی اور اس کے حقیقی شکل کے بارے میں گفتگو کروں، تاکہ یہ ہماری دعوت کی بنیاد بن جائے، واضح اور نمایاں طور پر اس سے منسوب ہونے اور اس سے مدد وتعاون لینے میں عزت محسوس کریں۔
۱۔ہم اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلامی احکام وتعلیمات ہر میدان کو محیط ہے جو دنیا وآخرت میں لوگوں کے سبھی امور ومعاملات کو منظم کرتا ہے، جو لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ تعلیمات دوسرے پہلؤوں کو چھوڑ کر صرف عبادتی یا روحانی پہلو پر مشتمل ہیں تو وہ غلط گمان رکھتے ہیں، کیوں کہ اسلام عقیدہ اور عبادت ہے، وطن اور اس سے تعلق ہے، دین اور حکومت ہے، روحانیت اور عمل ہے، مصحف اور تلوار ہے، قرآن کریم ان سبھی امور کو بیان کرتا ہے اور اس کو لب لباب اور حقیقت شمار کرتا ہے، اور اس سب کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے، اس طرف یہ آیت کریمہ اشارہ کرتی ہے: ’’وابتغ فیما آتاک اللہ الدار الآخرۃ ولا تنس نصیبک من الدنیا وأحسن کما أحسن اللہ إلیک‘‘(قصص ۷۷)اور اللہ نے جو تم کو عطا کیا ہے اس میں آخرت کی خواہش کرو، اور دنیا سے اپنے حصے کو مت بھولو اور تم اسی طرح احسان کرو جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے۔
ہم عقیدہ اور عبادت کے سلسلے میں قرآن کریم میں یہ آیت پڑھتے ہیں اور نمازوں میں اس کو دہراتے ہیں: ’’وما أمروا إلا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء ویقیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکوۃ وذلک دین القیمۃ‘‘(البینۃ ۵)اور ان کو یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے یکسو ہوکر کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی درست طریقہ ہے۔
حکومت، قضا اور سیاست کے سلسلے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی أنفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘(نساء۶۵)پس نہیں ، تیرے پروردگار کی قسم! وہ اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک اپنے درمیان ہونے والے جھگڑوں میں تم کو حکم نہ بنالیں پھر آپ کی طرف سے کیے ہوئے فیصلوں کے تعلق سے اپنے دل میں کوئی تنگی نہ پائیں اور سر تسلیم خم کریں۔
قرض اور تجارت کے سلسلے میں تم اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھتے ہو: ’’یا أیھا الذین آمنوا إذا تداینتم بدین إلی أجل مسمی فاکتبوہ ویکتب کاتب بینکم بالعدل ولا یأب کاتب کما علمہ اللہ فلیکتب ولیملل الذی علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ ولایبخس منہ شیئا، فإن کان علیہ الحق سفیھا أو ضعیفا أو لایستطیع أن یمل ھو فلیملل ولیہ بالعدل، واستشھدوا شھیدین من رجالکم، فإن لم یکونا رجلین فرجل وامرتان ممن ترضون من الشھداء أن تضل إحداھما فتذکر إحداھما الأخری، ولا یأب الشھداء إذا ما دعوا، ولا تسئموا أن تکتبوہ صغیرا أو کبیرا إلی أجلہ، ذلکم أقسط عند اللہ وأقوم للشھادۃ وأدنی أن لا ترتابوا إلا أن تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بینکم فلیس علیکم جناح ألا تکتبوھا وأشھدوا إذا تبایعتم۔۔۔۔۔۔‘‘(بقرہ ۲۸۲)اے ایمان والو! جب تم کسی متعین مدت کے لیے قرض دو تو اس کو لکھو، پس تمھارے درمیان لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے، اور لکھنے والا انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے، پس وہ لکھے اور جس پر حق ہے وہ املا کرائے، اور اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے اور اسمیں سے کوئی چیز کم نہ کرے،اگر جس پر حق ہے وہ بیوقوف یا کمزور یا ایسا شخص ہے جو املا نہ کرسکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے، اور تم اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ بناؤ، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں، ان میں سے جن کے گواہ بننے پر تم راضی ہو، (دوعورتوں کو) اس لیے کہ ان میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسرے کو یاد دلائے، جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں،اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا اس کو مدت تک لکھنے سے نہ اکتاؤ، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے،اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے، اور اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ کسی شبہ میں نہ پڑو، مگر یہ کہ کوئی دست بدست تجارت ہو جس کو تم باہم لیتے ہو تو اس کے نہ لکھنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے،اور خرید فروخت کے وقت گواہ بنالیا کرو۔
جہاد، جنگ اور غزوہ کے سلسلے میں تم پڑھتے ہو: :’’ وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلَاۃَ فَلْتَقُمْ طَاءِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَعَکَ وَلِیَأْخُذُوْا أَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِن وَّرَاءِکُمْ وَلْتَأْتِ طَاءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلِیَأْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَاَسْلِحَتَھُمْ ،وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ أَسْلِحَتِکُمْ وَأَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَیْلَۃً وَّاحِدَۃً وَلَا جُنَاحَ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذیً مِن مَّطَرٍ اَوْکُنْتُمْ مَرْضٰی أَنْ تَضَعُوْا أَسْلِحَتَکُمْ وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘ اورجب آپ ان میں موجودہوں،پھرآپ نمازکھڑی کریں توان میں سے ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی رہے اوروہ اپنے ساتھ اپنے ہتھیارلے لیں، جب وہ سجدہ کریں تو ہٹ جائیں اوروہ جماعت آئے جس نے نمازنہیں پڑھی ہے اوروہ آپ کے ساتھ نماز پڑھے اوروہ چوکنارہیں اوراپنے ہتھیارساتھ لے لیں، کافرچاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اورسامانوں سے غافل ہوجاؤ،تاکہ وہ تم پریکبارگی حملہ کردیں، اورتم پرکوئی گناہ نہیں اگرتم کوبارش کی وجہ سے تکلیف ہویاتم کوبیماری لاحق ہو کہ تم اپنا ہتھیار اتارو اور اپنا بچاؤساتھ لے لو، بے شک اﷲتعالی نے کافروں کے لیے ذلت والاعذاب تیار کر رکھا ہے (نساء ۱۰۲)
ان ہی مقاصد اور ان کے علاوہ دوسرے عمومی آداب اور زندگی کے مسائل کے سلسلے میں بے شمار آیتیں ہیں۔
اس طرح اخوان المسلمون نے اللہ کی کتاب کے ساتھ تعلقات استوار کیے، اور اس سے رہنمائی حاصل کی، جس کی وجہ سے ان کو یقین ہوگیا کہ اسلام کا یہی مکمل اور جامع مطلب ہے، اور زندگی کے سبھی حالات میں اس کا غالب رہنا اور سبھی حالات کا اس میں رنگنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، اسی طرح اس کے اصول وضوابط اور تعلیمات کے مطابق چلناضروری ہے، اگر امت صحیح معنی میں مسلمان بن کر رہنا چاہتی ہے، اگر امت اپنی عبادتوں میں مسلمان رہے اور باقی امور میں غیروں کی تقلید کرے تو اس کا اسلام ناقص ہے اور اس کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جن کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: ’’أفتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض فما جزاء من یفعل ذلک منکم إلا خزی فی الحیاۃ الدنیا ویوم القیامۃ یردون إلی أشد العذاب وما اللّٰہ بغافل عما تعملون‘‘(بقرہ ۸۵)کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو، تم میں سے جو کوئی اس طرح کرتا ہے تو دنیوی زندگی میں اس کے لیے رسوائی ہے اور آخرت میں ان کو سخت ترین عذاب کی طرف لوٹا دیا جائے گا اور اللہ تمھارے کاموں سے غافل نہیں ہے۔
۲۔ اس کے ساتھ اخوان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور سر چشمہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، اگر ان دونوں کو تھام لیا جائے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے، یہ بھی عقیدہ ہے کہ بہت سے نظریات اور علوم وفنون جن کا تعلق اسلام سے ہے اور وہ اسلام کے رنگ میں رنگ گئے ہیں، یہ ان زمانوں کا رنگ اپنے ساتھ لیے ہوئے ہیں جس وقت یہ وجود میں آئے اور ان قوموں کے اثرات لیے ہوئے ہیں جن کے ساتھ یہ علوم اور نظریات رہے، اسی وجہ سے اسلامی اصول وضوابط کو اس صاف وشفاف اولین سرچشمے سے حاصل کرنا ضروری ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کو ویسے ہی سمجھیں جیسے سلفِ صالحین میں سے صحابہ کرام اور تابعین نے سمجھا تھا، اور ہم ان ربانی اور نبوی حدود پررک جائیں، تاکہ ہم خود کو اللہ کے مقرر کردہ امور کے علاوہ دوسرے امور سے مقید نہ کریں، اور ہم اپنے زمانے کو اس زمانے کے رنگ میں نہ ڈھالیں جو ہمارے ساتھ متفق نہیں ہے اور ہمارے مناسب بھی نہیں ہے۔
۳۔اخوان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اسلام اپنی خصوصیات کے اعتبار سے عمومی دین ہے، جس نے سبھی قوموں اور ملتوں میں ہرزمانے اور ہر عہد کے لیے زندگی کے سبھی امور کو منظم اور مرتب کیا ہے، اس زندگی کی جزئیات کوجھوٹی جھوٹی خبروں خصوصاً خالص دنیوی امور کو مکمل طور پر بلند انداز میں پیش کرنے کے لیے اسلام آیا ہے، چناں چہ ان میں سے ہر معاملے کے کلی اصول اور قواعد مقرر کرتا ہے اور عملی راستے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ اسی کے مطابق زندگی کو منطبق کیا جائے اور اس کے حدود میں زندگی گزاری جائے۔
صحیح انداز فکر اورصحیح طرز زندگی کی ضمانت یا کم سے کم اس کو تلاش کرنے کے لیے اسلام نے انسانی نفس کے علاج پر مکمل توجہ دی ہے جو انتظام وانصرام کا مصدر ومرجع، فکر وسوچ کی بنیادتصویرکشی کی اصل جڑہے، چناں چہ اسلام نے نفسِ انسانی کے لیے مفید دوائیں تجویز کی ہیں، جن کے ذریعے نفس کو خواہشاتِ نفسانی سے پاک کرتا ہے، نفسانی امراض کے نقصانات سے اس کو صا ف کرتا ہے، کمال اور بہتری کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے، ظلم وزیادتی اور کوتاہی سے اس کو روکتا ہے، جب نفسِ انسانی درست ہوجاتا ہے اور صاف وشفاف بن جاتا ہے تو اس سے ظاہر ہونے والی ہر چیز صالح اور خوبصورت رہتی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ عدل وانصاف قانون کے متن میں نہیں رہتا، بلکہ جج کے دل میں رہتا ہے، کبھی مکمل اور عادلانہ قانون کے ساتھ خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرنے والے جج کے پاس مقدمہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ قانون کو ظالمانہ انداز میں نافذ کرتا ہے، جس میں کوئی عدل ہی نہیں رہتا، کبھی ناقص اور ظالمانہ قانون کے ساتھ فاضل اور انصاف پسند، تمام تر خواہشات سے دور جج کے پاس مقدمہ لے جایا جاتا ہے تو اس کو پورے انصاف کے ساتھ نافذ کرے گا، جس میں خیر وبھلائی اور رحمت وانصاف پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کی کتاب میں نفسِ انسانی پر بڑی توجہ دی گئی ہے، اسلام نے جن ابتدائی نفوس کو تیار کیا ہے وہ کمالِ بشریت کی مثال ہیں، ان سب امور کی وجہ سے اسلام سبھی قوموں اور زمانوں کے لیے مناسب ہے، اور سبھی اغراض ومقاصد کو شامل ہے، اسی وجہ سے اسلام کبھی بھی کسی بھی صالح نظام سے فائدہ اٹھانے سے منع نہیں کرتا جو اس کے کلی اصولوں اور عمومی قواعد سے متعارض نہ ہو۔
میرے بھائیو! میں اس بیان کو طول دینا نہیں چاہتا،کیوں کہ یہ بڑا وسیع موضوع ہے، یہ مختصر اشارات ہی کافی ہیں جو اخوانیوں کے دلوں میں موجود اسلامی فکر ونظریے کے اس شامل وکامل مطلب پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
تحریکِ اخوان ایک مکمل وشامل اصلاحی نظریہ ہے
تحریکِ اخوان کے نزدیک اسلام کی اس عمومی اور مکمل سوچ کا نتیجہ ہے کہ ان کی سوچ امت کی اصلاح کے سبھی پہلؤوں کو شامل ہے اور اس میں دوسرے اصلاحی نظریات کے سبھی عناصر پائے جاتے ہیں، ہر مخلص اور غیرت مند مصلح اس میں اپنا مقصود پاتا ہے اور یہاں اصلاح چاہنے والوں کی وہ سبھی خواہشات اور ارادے جمع ہیں، جن کو انھوں نے سمجھا ہے اور ان کے مقاصد کو جانا ہے، یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اخوان:
۱۔ایک سلفی دعوت ہے: کیوں کہ وہ اسلام کو کتاب وسنت کے صاف ستھرے سرچشمے کی طرف لوٹانے کی دعوت دیتے ہیں۔
۲۔یہ سنت پر مشتمل ایک طریقہ ہے: کیوں کہ وہ ہر چیز میں خصوصاً عقائد اور عبادات میں حتی المقدور پاکیزہ سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۳۔صوفیانہ حقیقت ہے: کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ بھلائی کی بنیاد دل کی پاکیزگی، اس کی صفائی، عمل کی پابندی، مخلوق سے اعراض اور استغنا، اللہ کے لیے محبت اور خیر کی بنیاد پر تعلقات کی استواری پر ہے۔
۴۔ایک سیاسی تنظیم ہے: کیوں کہ وہ ملک کے اندر حکومت کی اصلاح، ملک سے باہر امت مسلمہ کے دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات میں نقطۂ نظر کی تبدیلی،قوم کی عزت وشرافت کے مطابق تربیت اور انتہائی درجے تک اپنی قومیت کی خواہش کا مطالبہ کرتے ہیں۔
۵۔ایک ورزشی گروپ ہے: کیوں کہ وہ اپنے جسم پر توجہ دیتے ہیں اور اس بات سے واقف ہیں کہ طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے، اور نبی کریم ﷺنے فرمایاہے: ’’تمھارے جسم کا تم پر حق ہے‘‘، اسلام کی ذمے داریوں کو مکمل طور پر طاقت ور جسم کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ کے لیے ایسے جسم کا ہونا ضروری ہے جو رزق کی تلاش میں جد وجہد کرسکے، وہ اس کے مطابق اپنے گروپوں اور ورزشی ٹیموں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، کبھی وہ ان کلبوں سے بھی فائق اور نمایاں بن جاتے ہیں جو صرف جسمانی ورزش پر توجہ صرف کرتے ہیں۔
۶۔ایک علمی اور ثقافتی کلب ہے: کیوں کہ اسلام نے ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض کیا ہے،اخوان کے ثقافتی کلبس در اصل تعلیم وثقافت کے اسکول اور جسم، عقل اور روح کی تربیت کے مراکز ہیں۔
۷۔ایک اقتصادی کمپنی ہے: کیوں کہ اسلام مال کے انتظام وانصرام اور اس کو صحیح طریقے سے کمانے کی ترغیب دیتا ہے،اسلام کے نبی حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں:’’صالح مال صالح آدمی کے لیے نعمت ہے‘‘۔ آپ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے تھک کر شام کرتا ہے تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے‘‘۔ یہ بھی فرمایا ہے:’’اللہ پیشہ ور مومن کو پسند کرتا ہے‘‘۔
۸۔ ایک معاشرتی نظریہ ہے: کیوں کہ وہ اسلامی معاشرے کی بیماریوں پر توجہ دیتے ہیں، اور ان کے علاج کے طریقوں کو تلاش کرتے ہیں اور امت کو ان سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی شمولیت نے ہمارے نظریے کو اصلاح کے سبھی گوشوں کا جامع بنایا ہے، اور اخوان کی سرگرمیوں کی ان پہلؤوں کی طرف رہنمائی کی ہے،جب دوسرے لوگ ان میں سے کسی ایک پہلو پر توجہ دیتے ہیں توایسے میں اخوان سبھی پہلؤوں کی طرف توجہ دیتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اسلام ان سے سبھی میدانوں پر توجہ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اسی وجہ سے اخوان کی بہت سی سرگرمیاں لوگوں کے سامنے متعارض نظر آتی ہیں جب کہ وہ حقیقتاً متعارض نہیں ہیں۔
لوگ اخوانیوں کو محراب میں خشوع وخضوع کے ساتھ روتے اور گڑگڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھرکچھ ہی دیرمیں اپنی آنکھوں سے ان کو وعظ ونصیحت کرتے اور تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر تھوڑے وقفے کے بعد لوگ ان کو ماہر کھلاڑی کے روپ میں دیکھتے ہیں،کوئی فٹ بال کھیل رہا ہے، کوئی دوڑنے کی مشق کر رہا ہے یا تیرنے کی ٹریننگ لے رہا ہے، پھر تھوڑی دیر بعد اس کو دکان یا فیکٹری میں دیکھتے ہیں کہ وہ امانت اور اخلاص کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہے، ان مظاہر کو لوگ آپس میں متصادم سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مناسب نہیں ہیں، اگر وہ یہ بات جانتے کہ اسلام ان سبھی میدانوں کو جمع کرتا ہے اور ان کو اکھٹا رکھنے کا حکم دیتا ہے اور ترغیب بھی دیتا ہے، تو یہ لوگ ان تمام باتں کے درمیان جوڑ اورمناسبت کا یقین کرلیتے، اس وسعت اورجامعیت کے باوجود اخوان ہر اس چیز سے باز رہتے ہیں جن پر اعتراض یا تنقید کیے جانے کا امکان ہو۔
اسی طرح اخوان گروپ بندی یا کسی نسبت کے تعصب سے بھی دور ہیں،کیوں کہ اسلام نے ان کو ایک نسبت کے گرد جمع کردیا ہے، اوہ وہ ہے ’’الإخوان المسلمون‘‘ یعنی مسلم بھائی۔
جواب دیں