آئس لینڈ…….دنیاکی سب سے قدیم جمہوریہ

شاید اسی وجہ سے آئس لینڈ کی تہذیب پر یورپیوں کے بہت گہرے اثرات ہیں۔آئیس لینڈ کے شمال میں گرین لینڈ کا سمندر ہے،مشرق میں ناروے کا سمندر ہے،جبکہ جنوب اور مغرب میں بحراوقیانوس کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجیں ہیں۔برفانی گلیشیرز نے یہاں کے رقبے کا دس فیصد گھیررکھاہے۔بہت زیادہ بارشیں جہاں اس ملک کے دریاؤں جھیلوں اور ندی نالوں کو بھرے رکھتی ہیں وہاں گلیشئرز کے حجم میں بھی اضافے کاباعث بنتی رہتی ہیں۔موسم کے لحاظ سے یہ ایک سرد ملک ہے جہاں سردیوں کادرجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے رہتا ہے تاہم گرمیوں میں برف پگھلنے لگتی ہے لیکن پھر بھی سردی کا ہاتھ اوپر رہتاہے کیونکہ بارشوں کے باعث دن بھی یہاں بعض اوقات اندھیرے میں ہی گزرتاہے۔۔’’رکجاوک‘‘یہاں کا دارالحکومت ہے جو سیاسی اہمیت کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی اور معاشی اہمیت کے لحاظ سے بھی بھی پورے ملک پر فوقیت رکھتاہے۔موسم کی شدت کے باعث ملک کاصرف ایک چوتھائی رقبہ قابک کاشت ہے جہاں سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔تاہم باقی زمین کے اکثر حصوں پر بہت گھنے جنگلات دکھائی دیتے ہیں۔یہاں کی اصل مقامی جانورصرف ’’لومڑی ہے‘‘لیکن انسانی آبادی اپنے ساتھ پالتو جانور بھی لائی ہے اور چوہے وغیرہ باقی دنیاکی طرح یہاں کے گھروں میں نقب لگاتے رہتے ہیں۔
آئس لینڈ کی انسانی تاریخ کچھ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے ،بمشکل ایک ہزار سالوں سے کچھ زائد مدت قبل یہاں پر کلٹی قوم اور ناروے کے باشندوں نے سب سے پہلے اپنے قدم جمائے ،یہ لوگ نئی دنیاؤں کی تلاش میں بحری راستوں کے ذریعے مہم جوئی کرنے یہاں پہنچے تھے اورپھر اس حسین سرزمین کی کشش نے انہیں یہیں کاکرلیا۔دوسری جنگ عظیم سے قبل ڈنمارک اور آئس لینڈمتحد تھے،لیکن 1940ء کے دوران جب جرمنوں کے قبضے کے باعث آئس لینڈاور ڈنمارک کے درمیان اتحادختم ہوگیاتوایک ماہ بعد ہی برطانوی افواج نے آئس لینڈپر قبضہ کرلیااور1941ء میں اقوام متحدہ نے یہاں اپنی افواج اتار دیں۔جنگ کے باعث ڈنمارک اورآئس لینڈکا اتحادمزید نہ پنپ سکااور آئس لینڈنے ڈنمارک سے مکمل علیحدگی کا فیصلہ کرلیاجس کے نتیجے میں17جون1944ء کوآئس لینڈکی باقائدہ آزادی کاعلان کردیاگیا،اب یہ تاریخ آئس لینڈمیں قومی دن کے طور پرمنائی جاتی ہے۔
آئس لینڈکے لوگ ایک قوم کی مانند ہیں،یہ لوگ انہیں لوگوں کی نسلوں سے ہیں جو871ء میں پہلی دفعہ یہاں پہنچے اور پھر کم و بیش نصف صدی تک ان لوگوں کی آمداس پرکشش سرزمین پر جاری رہی ۔ناروے اور ڈنمارک کے لوگوں کی ملی جلی نسل آج آئس لینڈمیں بستی ہے،نئے دنیاؤں سے آنے والے لوگ ان مقامیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکے۔ابتدائی زمانے میں ناروے کی زبان یہاں پر عام بولی اور سمجھی جاتی تھی جسے اب قدیم ناروے کی زبان کہاجاتاہے،صدیاں گزرجانے کے بعد اب آئس لینڈکی اپنی مقامی زبان ترقی کرچکی ہے لیکن یہ اسی پرانی زبان کی کوکھ سے ہی نکلی ہوئی زبان ہے اور ملک کی اکثریت پرانی زبان بھی آسانی یا مشکل سے سمجھ لیتی ہے۔سولھویں صدی سے اس سرزمین کی اکثریت مذہب عیسائیت کی پیروکار ہے۔اس وقت بھی لگ بھگ نوے فیصد آبادی عیسائی ہے۔سرکاری طور پر اگرچہ مذہبی آزادی میسر ہے لیکن حکومت خود بھی مذہب عیسائیت کی کھل کر سرپرستی کرتی ہے۔دسویں صدی عیسوی کے آخر میں وہاں کے بادشاہ نے زبردستی سب کو عیسائی بنالیاتھا اور قوم کی مذہبی تربیت کے لیے باہر سے مذہبی پادری بھی بلوائے تھے۔اس زبردست تحریک کے نتیجے میں 999ء میں یہاں کی پارلیمنٹ نے متفقہ فیصلہ دیاکہ ساری قوم کو عیسائی ہو جانا چاہیے،جس کے نتیجے میں آج تک وہاں پر اس مذہب کی بہت گہری جڑیں موجود ہیں۔
ایک زمانے تک یہاں پر آبادی کاانحصارزراعت پر رہاہے،چنانچہ انیسویں صدی کے آخر تک لوگ زیادہ تر دوردراز کے مقامات پر بستے تھے اور کھیتی باڑی سے اپنا سلسلہ روزوشب چلاتے تھے،بیسویں صدی کے آغاز تک کامرس،کارخانہ داری اورمچھلی بانی کی کثرت کے باعث زیادہ تر آبادی شہروں میں سمٹنے لگی اور اب اکیسویں صدی کے آغازتک کم از کم بھی دوسوگھرانوں پر مشتمل بستیوں سے کم کی بستی پورے ملک میں کہیں نہیں ہے۔اس تمدنی زندگی میں بڑھوتری کے باعث اب پانچ فیصد سے بھی کم لوگ زراعت سے وابسطہ ہیں اور اس شرح میں بھی دن بدن کمی واقع ہورہی ہے حالانکہ اب بھی بیس فیصد سے زائد رقبہ قابل کاشت ہے۔اب زیادہ تر ڈیری فارم اور بھیڑ بکریوں کے غلوں سے لوگوں کا روزگار وابسطہ ہوگیاہے اورانہیں آمدن کے لیے فصل کے اترنے کا لمباانتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ صبح چارہ ڈالتے ہیں اور شام کو دودھ حاصل کر لیتے ہیں۔انہیں سرگرمیوں کے باعث ڈیری کی اشیااور تازہ غذا میں آئس لینڈ خود کفیل ہے جبکہ باقی غذائی اشیا اسے درآمد کرنی پڑتی ہیں۔آئس لینڈ کی معیشیت میں ’’مچھلی‘‘کابہت بڑا کردار ہے ،مچھلی اور مچھلی کی مزید غذائی مصنوعات اس ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ملک کے چاروں طرف سمندر ہیں اور سمندر میں اﷲ تعالی نے مچھلیوں کے بے پناہ خزانے دفن کررکھے ہیں۔ایلومینیم کی مصنوعات بھی زرمبادلہ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں جو یہاں پر تیار کی جاتی ہیں۔ان کے علاوہ کھاد،سیمنٹ،کتب،کیپیوٹر سوفٹ وئرکپڑے اور کھانے کی اشیا بھی یہاں سے برآمد کی جاتی ہیں۔زیادہ تر تجارت یورپی یونین کے ملکوں سے ہی ہوتی ہے تاہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جاپان سے بھی آئس لینڈکے بڑے گہرے تجارتی تعلقات قائم ہیں۔اندرونی تجارت و صنعت زیادہ تر نجی اداروں کے ہاتھ میں ہی ہے،حکومت بھی ان کے ساتھ شریک رہتی ہے لیکن صرف منصوبہ بندی کی حد تک جبکہ یہاں پر سرمایاداری نظام معیشیت پوری قوت سے رائج ہے۔
آئس لینڈ کادستور 1944میں تیارکیاگیاجس کے مطابق صدر کو براہ منتخب کیاجاتاہے اور وہ سربراہ مملکت ہوتاہے۔صدر،پارلیمان اور شہری حکومتوں کی مدت انتخاب چار سال تک ہوتی ہے لیکن ان سب اداروں کے انتخابات ایک ہی وقت نہیں ہوتے۔اٹھارہ سال سے ووٹر کی عمر شروع ہوجاتی ہے اور انتخابی نتائج متناسب نمائندگی کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں یعنی جو سیاسی پارٹی جتنے فیصدووٹ حاصل کرے گی پارلیمان میں اتنے فیصد نمائندگی اسے حاصل ہو جائے گی۔63ارکان پر مشتمل واحد منتخب ادارہ اس ملک کی اصل قانونی قوت ہے جس میں سے کابینہ بھی چن لی جاتی ہے جو ریاست کے روزبروز کا کاروبار سلطنت چلاتی ہے۔شہری حکومتیں بنیادی طور پر تعلیم اورمعاشرتی منصوبوں سمیت نچلی سطح کے جملہ انتظامی امور کی نگرانی کرتی ہیں۔ملک کو سترہ صوبوں اور سو سے زائد چھوٹے شہری اداروں میں تقسیم کیاہواہے۔یہ شہری ادارے منتخب نمائندوں کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔’’سپریم کورٹ‘‘اعلی عدلیہ کے طور پرکام کرتی ہے اور ماتحت عدالتیں بھی اپنااپناکام بخوبی انجام دیتی ہیں،دیگر یورپی ملکوں کے برعکس یہاں پر جیوری کانظام نہیں ہے۔صحت کے میدان میںآئس لینڈ کے اندردنیاکی بہترین سہولیات میسر ہیں،کل آبادی کے لیے صحت کا بیمہ لازمی ہوچکاہے اورمریضوں کو مفت طبی تعاون حاصل ہے جبکہ بہت مہنگاعلاج بہت کم اخراجات کی ادائگی پر کر دیاجاتاہے ۔بچوں کے دانتوں کاعلاج بھی مفت ہوتاہے۔عوام کے لیے دیگر فلاحی سہولیات جن میں ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات،بچوں کی پرورش کے لیے اضافی الاوئس،بے روزگاروں کی مالی معاونت سمیت معذورافراد وغیرہ کے لیے یہاں کی ریاست نے اپنے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔اسی طرح تعلیم بھی عام ہے اور ایک حد تک مفت بھی ہے۔
مشہور مسلمان سیاح اور جغرافیہ دان محمد الادریسی پہلا مسلمان تھاجس نے 1154ء میں یہاں کا دورہ کیا اور اپنی کتاب میں یہاں کے حالات لکھے ہیں۔1997میں یہاں پر ’’ایسوسی ایشن آف مسلمز ان آئس لینڈ ‘‘کے نام سے مسلمانوں کی تنظیم بنائی گئی۔2000ء میں باقائدہ مسجد کی تعمیر کے لیے درخواست دی گئی تھی،ایک لمبے اور تھکا دینے والے ظویل مراحل کے بعد6جولائی2013کواجازت مرحمت ہو ہی گئی۔2002ء میں مسلمانوں نے ایک مسجد کی جگہ بھی بنالی،یہ جگہ ایک پلازہ نما دفتری عمارت کی چوتھی منزل پر واقع ہے۔اس جگہ پرپنج وقتہ نماز اور جمعۃ المبارک کا اہتمام بھی اب ہونے لگاہے۔یہاں پر دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کی ایک معقول تعداد موجودہے۔آئس لینڈمیں تین خواتین بڑی تیزی سے قرآن مجید کا مقامی زبان میں ترجمہ کررہی ہیں کیونکہ وہ عربی پر بھی کافی دسترس رکھتی ہیں۔یہاں پر مسلمانوں کی مقامی تعداد بہت کم ہے ،ضرورت ہے کہ یہاں کی مقامی زبان میں اسلامی کتب وسیع پیمانے پر تیار کر کے تو نور توحیدپہنچانے کا فریضہ اداکیاجائے۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے