اس نے شمالی مراکش کے ایک ’’سنی مالکی‘‘ مدرسے سے قرآن و حدیث، ادب، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی۔ اسے بچپن سے سیروسیاحت اور نئی نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ ابن بطوطہ نے 21 سال کی عمر میں اپنے والد اور چند قریبی لوگوں کے ساتھ سرزمین حجاز جانے کی منصوبہ بندی کی۔ اس زمانے میں خشکی کے راستے مراکش سے سعودی عرب کے پیدل سفر میں کل 16 ماہ لگتے تھے۔ تاہم ابن بطوطہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اگلے 24 سال تک اپنے وطن کو دوبارہ نہ دیکھ پائے گا۔
ابن بطوطہ نے جون 1325 ء میں اونٹوں، خچروں اور گھوڑوں پر مشتمل ایک قافلے کے ساتھ مراکش سے اپنے تاریخی سفر کا آغاز کیا۔ وہ شمالی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں سفر کرتا ہوا تیونس پہنچا۔ وہاں دو ماہ گزارنے کے بعد وہ 1326 ء کے موسم بہار میں مصر اور فلسطین کے علاقوں پر مشتمل سلطنت مملوک (Mamluk Empire) کی حدود میں داخل ہو۱۔ مصر میں چند روزہ قیام کے دوران ابن بطوطہ نے تاریخی شہر اسکندریہ، غزہ اور قاہرہ کی سیاحت کی۔ اس نے سعودی عرب جانے کے لیے صحرائے سینائی (Sinai Desert)کے مروجہ راستے کو اختیار کرنے کے بجائے بحیرہ احمر کے راستے جدہ جانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم مصری ساحلوں پر مقامی باغیوں کی لوٹ مار کی وجہ سے اسے واپس قاہرہ آنا پڑا۔ وہ صحرائے سینائی کو پار کر کے ایشیا (فلسطین) میں داخل ہوا۔ ابن بطوطہ نے فلسطین میں مقدس مقامات کی سیاحت کی۔ اس نے ماہ رمضان، شام میں گزارنے کے بعد عربستان کا سفر اختیار کیا اور بالاآخر اکتوبر 1326ء کے آغاز میں مدینہ منورہ پہنچ گیا۔ مدینہ منورہ میں چار دن قیام کے بعد حاجیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ روانہ ہوا۔ جہاں اس نے مناسک حج ادا کیے اور قریب ایک ماہ وہاں قیام کیا۔ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ابن بطوطہ نے مغربی ایشیا کی سیاحت کا فیصلہ کیا۔17 نومبر 1326 ء کو ابن بطوطہ اپنے والد کو لے کر حاجیوں کے ایک قافلے کے ساتھ عراق روانہ ہوا۔ انھوں نے مدینہ منورہ میں مختصر قیام کیا اور نجد (Najd) کے علاقے میں داخل ہوئے۔ اگلے 44 دن کے دوران ان کے قافلے نے لگ بھگ 1500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے جزیرہ نما عرب کو پار کیا اور دریائے فرات کے کنارے آباد عراق کے شہر نجف میں داخل ہو گئے۔ وہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا جنوب میں واقع بصرہ پہنچا۔ جہاں چند دن سیر سپاٹے کے بعد وہ ایران جانے والے قافلے سے وابستہ ہو گیا۔ یہ قافلہ مشرق کی طرف سفر کرتا ہوا جنوب مشرقی ایران میں واقع سلسلہ ہائے زاگروس (Zagros) میں داخل ہوا۔ مراکش کے خشک اور بنجر کوہ اٹلس میں زندگی گزارنے والے کسی افریقی باشندے کے لیے زاگروس کی برف پوش چوٹیوں کا نظارہ مبہوت کر دینے والا تھا۔ ابن بطوطہ نے فروری 1327 ء میں اصفہان (Esfahan) اور مارچ کے آغاز پر جنوبی ایران میں واقع شیراز کی سیاحت کی۔ وہ جون1327 ء میں ایک بار پھر عراق میں موجود تھا جہاں اس نے بغداد شہر میں 13 ویں صدی کے دوران چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان (Hulagu Khan) کے ہاتھوں ڈھائی جانے والی تباہی کا مشاہدہ کیا۔ مقامی لوگوں نے ابن بطوطہ کو بتایا کہ فتح کے نشے میں چور ہلاکو خان نے بغداد شہر کو آگ لگانے سے پہلے مقامی خلیفہ اور اس کے خاندان سمیت لگ بھگ 8 لاکھ عراقی باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بغداد کی سیر کے بعد ابن بطوطہ، شمالی ایران کے شہر تبریز اور مشرقی ترکی کے علاقوں کی سیاحت کے بعد وہ ایک بار پھر عراق پہنچا۔ جہاں وہ ایک قافلے سے وابستہ ہو کر 1329 ء میں دوبارہ مکہ معظمہ پہنچ گیا۔ اس نے اپنے والد کے ساتھ دوسری بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔مناسک حج ادا کرنے کے بعد ابن بطوطہ، یمن جانے والے ایک قافلے کے ہمراہ بحیرہ عرب کی بندرگاہ عدن پہنچا۔ اس زمانے میں عدن کی بندرگاہ خلیج سویز، بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب کی طرف آنے والے تجارتی بحری جہازوں کا اہم پڑاؤ تھی۔ چونکہ اس وقت تک راس امید (Cape of Good Hope) کا بحری راستہ دریافت نہیں ہوا تھا۔ اس لیے گرم مسالوں کے یورپین اور عرب تاجر براستہ عدن، جنوبی ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ جاتے تھے۔ ابن بطوطہ نے عدن کے بازاروں میں لونگ، دار چینی اور کالی مرچ کے ڈھیر لگے دیکھے۔ اس نے چند ہفتے یمن کی سیر کے بعد بحیرہ احمر کو پار کیا اور صومالیہ میں قدم رکھا۔ وہاں 1330 ء اور 1331 ء کے دوران صومالیہ، کینیا، تنزانیہ اور زین زی بار کے جزیرے کی سیاحت کی۔ وہ 1332ء میں ایک بار پھر مکہ معظمہ پہنچا، جہاں اس نے تیسرا حج ادا کیا۔اس بار مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ابن بطوطہ کی ہندوستان کے بادشاہ سلطان محمد بن تغلق سے ملاقات ہوئی۔ اس نے مکہ معظمہ میں قیام کے دوران سلطان کے لیے مترجم کے فرائض سرانجام دیے۔ سلطان کی ہندوستان واپسی کے بعد ابن بطوطہ نے مراکش واپس جانے کے بجائے یورپ کی سیاحت کا فیصلہ کیا۔ پھر عراق اور شام میں مختصر قیام کے دوران اپنے والد کی خواہش پر اْنھیں دمشق ہی میں چھوڑ دیا۔ ابن بطوطہ 1333 ء میں ترکی اور جنوب مشرقی یورپ (یونان، بلغاریہ، یوگوسلاویہ اور جنوبی اٹلی) پر مشتمل بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کی حدود میں داخل ہوا۔ اسی سال اس کی Constantinople (موجودہ نام استنبول) میں بازنطینی حکمران اینڈ رونی کوس سوم (Andronikos III) سے ملاقات ہوئی۔ اینڈ رونی سوم نے ابن بطوطہ سے مشرق وسطی کے سیاسی حالات معلوم کیے۔ استنبول کے بعد ابن بطوطہ کی اگلی منزل یوکرائن تھا۔ اس نے بحیرہ اسود (Black Sea) کو پار کیا اور یوکرائن کی بندرگاہ فیوڈوسیا (Feodosiya) میں قدم رکھا۔ وہ 1334 ء کے آخر میں دریائے وولگا پار کر کے بحیرہ کیسپین کے شمالی کنارے پر واقع روسی بندرگاہ استراخان (Aastrakhan) پہنچا۔ وہاں چند دن گزارنے کے بعد ابن بطوطہ، قازقستان سے ہوتا ہوا ازبکستان میں داخل ہوا جہاں اس نے بخارا اور سمر قند کے تاریخی شہروں کی سیاحت کی۔1335 ء کے اواخر میں ابن بطوطہ، افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوا۔ وہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا جنوبی پنجاب میں داخل ہوا۔ اس نے تاریخی شہر ملتان کی سیر کی اور صوبہ سندھ میں چند روز گزارنے کے بعد ہندوستان پہنچ گیا۔ اْس زمانے میں دہلی کے تخت پر مسلمان بادشاہ سلطان محمد بن تغلق براجمان تھا۔ سلطان کی ابن بطوطہ سے پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی، بادشاہ نے ابن بطوطہ کی بڑی آؤ بھگت کی اور اسے قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا۔ ابن بطوطہ نے اگلے دو سال تک ہندوستان میں نہایت شاہانہ زندگی بسر کی۔ اس دوران محمد بن تغلق نے اسے خلیج بنگال اور آبنائے ملاکا کے بحری راستے کے ذریعے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم دیا۔ ابن بطوطہ نے جنوبی ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ جانے سے پہلے گجرات کی سیاحت کی جہاں مقامی لیٹروں کے حملے میں وہ مرتے مرتے بچا۔ تقریباً ایک ماہ تک ساحل مالا بار پر بھٹکنے کے بعد وہ کالی کٹ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ خلیج بنگال کے سفر کے دوران ابن بطوطہ کا بحری جہاز سمندری طوفان کے باعث مجبوراً انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا پہنچ گیا۔ اس نے سماٹرا میں چند ہفتے قیام کے دوان چین جانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ وہ 1339ء کے آغاز پر ایک بار پھر جنوبی ہندوستان میں موجود تھا۔ چین کی ناکام سفارت سے خوف زدہ ابن بطوطہ نے اگلے چند ہفتے ایک مقامی مسلمان جمال الدین کی پناہ میں گزارے اور دہلی جانے کے بجائے مالدیپ کے جزائر پہنچ گیا۔ وہاں نو ماہ کے قیام کے دوران مقامی مسلمان حکمران عمر اول نے ابن بطوطہ کی علمیت سے متاثر ہو کر اسے اپنی ریاست کی سب سے بڑی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ 1340 ء کے موسم بہار میں ابن بطوطہ نے مالدیپ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک نو مسلم خاتون سے شادی کی۔ابن بطوطہ کی اگلی منزل سری لنکا تھی جہاں اس نے کوہ آدم (Adam’s Peak) کی سیاحت کی۔ سری لنکا میں مختصر قیام کے بعد اس نے اپنے ادھورے سفارتی مشن کی تکمیل کے لیے چین جانے کا قصد کیا اور اس بار کامیاب رہا۔ ابن بطوطہ 1342 ء میں سماٹرا، ویت نام اور فلپائن کی مختصر سیاحت کرتا ہواجنوبی چین میں داخل ہوا۔ اس زمانے میں چین پر منگول سلطنت کے تابع یوآن (Yuan) خاندان کی حکومت تھی۔ ابن بطوطہ نے دریائے ینگسی (Yangzi) کے دہانے پر واقع چین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی (Shanghai) میں چند دن گزارے۔ اس نے چین کے موجودہ دارالحکومت بیجنگ کے شمال میں واقع دیوار چین کو پار کیا اور منگول سلطنت کے دارالحکومت شانگ دو (Shangdu) پہنچا۔ پھر 1343 ء یا 1344 ء میں ابن بطوطہ مقامی منگول حکمران سے ملاقات کر کے اسے ہندوستان کے بادشاہ سلطان محمد بن تغلق کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام پہنچایا۔ اس کام سے فراغت کے بعد ابن بطوطہ نے 1346 ء میں ہندوستان واپسی کا سفر اختیار کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ سلطان محمد بن تغلق کو چین کے حالات بتانے کے بعد شام میں مقیم اپنے والد کو ساتھ لے کر مراکش روانہ ہو جائے گا۔ابن بطوطہ 1347 ء کے آغاز پر جنوبی ہندوستان پہنچا۔ اس نے یہ دیکھتے ہوئے کہ محمد بن تغلق اپنے خلاف برپا ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف تھا، ہندوستان سے روانہ ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بحیرہ عرب اور خلیج فارس سے ہوتا ہوا عراق اور پھر 1348 ء میں شام پہنچ گیا۔ دمشق میں اپنے والد کی تلاش کے دوران پتا چلا کہ اْن کا تو عرصہ پہلے (1333ء) انتقال ہو گیا تھا۔ ابن بطوطہ نے مراکش واپسی سے پہلے مکہ معطمہ پہنچ کر چوتھی بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ حج کے فوراً بعد وہ افریقا جانے والے ایک قافلے میں شامل ہو کر مصر، لیبیا اور الجزائر کی خاک چھانتا بالاآخر 1349 ء میں مراکش واپس پہنچ گیا۔ ابن بطوطہ نے لگ بھگ 24 سال بعد اپنے وطن طنجہ میں قدم رکھا۔ اسے یہ جان کر افسوس ہوا کہ چند ماہ پہلے اس کی والدہ بھی اس جہان سے کوچ کر چکی تھی۔ ابن بطوطہ کی بے چین طبیعت نے اسے چند روز بھی ٹک کر نہ بیٹھنے دیا۔ اس نے آبنائے جبل الطارق کو پار کر کے جنوبی اسپین میں واقع غرناطہ (Granada) کی اسلامی ریاست میں سیرو سیاحت کی۔ اسپین میں کچھ وقت گزارنے کے بعد وہ 1350 ء میں دوبارہ طنجہ پہنچا۔ جہاں اس نے صحرائے اعظم (Sahara Desert) کو پار کر کے سلطنت آف مالی (Mali Empire) کے تاریخی شہر ٹمبکٹو (Timbuktu) تک رسائی مہم ترتیب دی۔شمالی افریقا میں 94 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا صحرائے اعظم دنیا کا سب سے بڑا ریگستان ہے۔ آج (2011 ء) اس عظیم ویرانے میں کل 25 لاکھ افراد رہتے ہیں جن کی اکثریت مصر، لیبیا، الجزائر، ماریطانیہ اور مالی سے تعلق رکھتی ہے۔ یوں تو شمالی افریقا کے باشندے زمانہ قدیم ہی سے صحرائے اعظم کی خاک چھانتے رہے ہیں، تاہم ابن بطوطہ کو وہ پہلا مہم جو مانا جاتا ہے جس نے ایک باقاعدہ مہم کے تحت اس کے مغربی حصے کو پار کیا۔ 1351 ء کی خزاں میں شمالی مراکش کے شہر فیس (Fes) سے ابن بطوطہ کے قافلے نے اپنے دلچسپ سفر کی شروعات کی۔ قریب تین سو کلومیٹر تک جنوب میں آگے بڑھنے کے بعد وہ لوگ مشرقی مراکش میں واقع سِجلماسا (Sijilmasa) کے تاریخی قصبے میں داخل ہوئے۔ (یاد رہے کہ مراکش میں واقع فیس اور سِجلماسا وہ تاریخی شہر ہیں جہاں بالترتیب 760 ء اور 790 ء میں پہلی اسلامی کالونی کی بنیاد رکھی گئی) سِجلماسامیں چار ماہ قیام کے دوران ابن بطوطہ کے قافلے نے اونٹوں اور خچروں کی خرید و فروخت کی۔ سِجلماساسے روانہ ہونے کے بعد ابن بطوطہ کا قافلہ مغربی الجزائر کے صحرائی علاقے میں داخل ہوا۔ جنوب میں ماریطانیہ کی طرف سفر کے دوران وہ لوگ دن کی جھلستی گرمی میں آرام کرتے اور رات میں نقطہ انجماد سے کم درجہ حرارت میں ٹھٹھرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرنے کی کوشش کرتے۔ ابن بطوطہ کے قافلے نے جنوری 1352 ء کے دوران شمالی ماریطانیہ کے صحرائی علاقے الغزیب (El Gseib) کو پار کیا۔ اس کا قافلہ فروری کی شروعات میں مالی کے شمالی حصے میں واقع تغازا (Taghaza) پہنچا۔ عین خط سرطان پر واقع مالی کے اس حصے میں خشک نمکین جھیلوں کی بہتات ہے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ سلطنت مالی کی حدود میں شامل تھا اور یہاں ماسوفا (Masufa) قبائل آباد تھے۔تغازامیں قیام کے دوران ابن بطوطہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ نمک کی خشک جھیلوں سے اٹی اس سرزمین میں واقع مقامیوں کے گھر بھی نمک کی سلوں سے بنے ہوئے تھے۔تغازا میں دس روزہ قیام کے بعد ابن بطوطہ کا قافلہ تین سو کلومیٹر جنوب میں واقع ایک نخلستان (Bir al۔Ksaib) پہنچا۔ یہاں سے انھوں نے پینے کے لیے پانی جمع کیا اور اپنے اونٹوں کو بھی جی بھر کر پلایا۔ ان کی اگلی منزل مالی کے جنوب حصے میں بہنے والا دریائے نائیجر تھا۔لگ بھگ دو ماہ تک بے آب و گیاہ صحرا میں سفر کرنے کے بعد ابن بطوطہ، مئی 1353 ء میں دریائے نائیجر کے کنارے واقع مالی کے مشہور تاریخی شہر ٹمبکٹو پہنچا۔ اس نے اگلے چند ہفتے ٹمبکٹو کی سیاحت کی اور جولائی میں سلطنت مالی کے دارالحکومت بماکو (Bamako) میں داخل ہوا۔ جہاں اس کی مسلمان حکمران سلیمان مانسا سے ملاقات ہوئی۔ ابن بطوطہ نے پایا کہ مانسا ایک دولت مند حکمران تھا جس کے دربار میں موجود ہر شے سونے سے بنی تھی۔ مقامی لوگ مسلمان لیکن مذہب اور تہذیب سے کوسوں دور تھے۔ ان کی عورتیں لباس سے بے پروا معلوم ہوتی تھیں اور معاشرے میں جنسی بے راہ روی عام تھی۔ ابن بطوطہ اگلے آٹھ ماہ تک سلیمان مانسا کا مہمان بنا رہا۔ اس دوران بادشاہ نے اس کی دل بستگی کے لیے اپنی بیٹی سمیت عریاں کنیزیں تحفتاً پیش کیں جنھیں ابن بطوطہ نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔ اکتوبر میں ابن بطوطہ نے وطن واپسی کا سفر کیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مراکش واپس جانے والے اس کے قافلے میں 600 بے لباس لڑکیاں بھی شامل تھیں جنھیں فروخت کے لیے یورپ لے جایا جا رہا تھا۔
صحرائے اعظم کے تاریخی سفر کے بعد ابن بطوطہ نے 1354 ء کے آغاز میں مراکش واپس پہنچ کر مقامی حکمران سلطان ابو عنان فارس (Abu Inan Faris) سے ملاقات کی۔ اس نے سلطان کے سامنے اپنے 30 سالہ سفر سے متعلق مشاہدات بیان کیے اور اسے سلطنت مملوک، مغربی و وسطی ایشیا، یورپ کی بازنطینی سلطنت، ہندوستان اور چین کے حالات بتائے۔ ابن بطوطہ نے سلطان کو اپنے پاس موجود کاغذ کے ٹکڑوں، چمڑے کے تھیلوں، کپڑوں، لوہے کے برتنوں، جوتوں، سرپر پہنی پگڑی یہاں تک کہ اپنے جسم کے نمایاں حصوں پر بھی سفر سے متعلق لکھی تحریریں دکھائیں تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے ابن بطوطہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے طویل سفر نامے کو کتابی صورت میں شائع کرے۔ سلطان کی ہدایت پر ابن بطوطہ نے اس کے دربار میں موجود مورخ، شاعر اور قانون داں ابن جوزی الکلبی (Ibn Juzayy al۔Kalbi) کو اپنے پاس موجود تحریری مواد اور ذہن میں موجود یادداشتوں کے سہارے اپنی طویل مہماتی داستان املا کروانی شروع کی۔قریب ایک سال کی کڑی محنت اور تحقیق کے بعدابن جوزی نے ابن بطوطہ کے تاریخی سفر نامے کو مکمل کیا۔ مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات پر مبنی اس کتاب کا نام ’’تحفتہ النظارفی غرائب الامصاروعجائب الاسفار‘‘ (A Gift to those who contemplate the wonders of cities and the Marvels of (Travellingہے۔ اس کتاب کو عربی میں مختصراً ’’الرحلہ‘‘ (The Rihla) اور انگریزی میں (The Jouey) کہتے ہیں۔ اس سفر نامے کی اشاعت کے دوران ہی ابن بطوطہ کو مراکش کی سب سے بڑی عدالت کا قاضی مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس نے کوئی اور نئی مہم شروع نہیں کی یہاں تک کہ 1368 ء کے آخر یا پھر 1369 ء کے آغاز پرابنِ بطوطہ کا مراکش میں انتقال ہو گیا۔بدقسمتی سے ابن بطوطہ کے تاریخی سفر نامے کی روداد اگلی چار صدیوں تک منظر عام سے غائب رہی۔ حتیٰ کہ اس دوران کسی مسلمان حکمران نے بھی اس نادر روز گار تاریخی دستاویز کو تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یورپ میں 1800ء کے آغاز میں بعض عرب اسکالرز کی تحریروں کی بنیاد پر جرمن اور انگریزی زبان میں ابن بطوطہ کے تاریخی سفر سے متعلق اقتباسات شائع ہوئے۔ 1830ء میں فرانس کے الجزائر پر قبضے کے دوران فرانسیسیوں کو الجزیرہ شہر سے ابن بطوطہ کے اصل سفر نامے کے پانچ قدیم نسخے ملے۔ ان نسخوں کو فوری طور پر پیرس روانہ کر دیا گیا۔ جہاں فرنچ اسکالر Charles Defremery اور Beniamino Sanguinetti نے ان کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ انھوں نے تین سالہ تحقیق کے بعد ان نسخوں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔ جس کے بعد فرانس میں The Jouey کی چار جلدوں پر مبنی پہلی کتاب شائع کی گئی۔ فرانس کے بعد پوری دنیا کی قابل ذکر زبانوں (غالباً اردو کے سوا) میں ابن بطوطہ کے تاریخی سفر نامے کے ترجمے شائع ہوئے۔ابن بطوطہ کا قدرتی موازنہ اطالوی مارکو پولو ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ان دونوں مہم جوؤں کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے۔ دونوں ہی نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں مہمات کا آغاز کیا۔ مارکو پولو کے سفر کا بنیادی مقصد منگول حکمران قبلائی خان کو عیسائی یورپ کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام پہنچانا تھا جب کہ ابن بطوطہ کا طویل سفر محض اس کے شوق سیاحت کا آئینہ دار تھا۔ مارکوپولو کی یورپ واپسی کے بعد اس کے سفر نامے کی تفصیلات سرعت کے ساتھ یورپ کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔ مارکوپولو کے برعکس ابن بطوطہ نے کہیں زیادہ علاقوں کی سیاحت کی۔ اس نے اپنی 30 سالہ مہم کے دوران ایشیا، یورپ اور افریقا کے لگ بھگ ایک کروڑ مربع کلومیٹر علاقے کی خاک چھانی اور تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر طے کیا۔ دنیا کی تاریخ میں یہ کسی بھی سیلانی کی طرف سے طے کیا گیا آج تک کا سب سے طویل پیدل سفر ہے۔ ابن بطوطہ ایک زرخیز ذہن کا مالک، سیماب فطرت شخص تھا۔ اس پر ہر وقت اپنے قرب و جوار کے علاقوں کو دریافت کرنے کا جنون سوار رہتا تھا۔ اس کی بے چین طبیعت نے اسے کسی مخصوص علاقے تک محدود نہ رہنے دیا۔ نئی نئی دنیاؤں تک رسائی کی جستجو نے اسے ہمیشہ حالت سفر ہی میں رکھا۔ وہ پہلا مسلمان مہم جو کہلایا جس نے اس زمانے تک دریافت شدہ تینوں براعظموں کی سیاحت کی تھی۔ گو کہ ابن بطوطہ نے اپنی مہمات کے دوران کسی نئے علاقے کو دریافت نہیں کیا، تاہم اس کی طویل سیروسیاحت کے نتیجے میں دنیا کے تین الگ الگ خطوں میں بسنے والی اقوام کو ایک دوسرے کے حالات جاننے کا موقع ملا۔
ہم ابن بطوطہ کے سفر نامے سے متعلق پائی جانے والی دو غلط فہمیوں کو دور کرتے چلیں۔ تاریخ سے ناواقف بعض ذرائع نے لکھا ہے کہ ابن بطوطہ اپنے سفر کے آخری مرحلے میں ایران پہنچا جہاں اس نے ایرانی بادشاہ ابو عنان فارس کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات غلط ہے۔ اس نے ایران کی سیاحت ضرور کی تھی،تاہم ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ابن بطوطہ کی کسی ایرانی بادشاہ سے ملاقات ہوئی ہو۔ شاید ابوعنان کے نام سے جڑے ’’فارس‘‘ کے لفظ سے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ تھا۔ سچ یہ ہے کہ ابو عنان فارس، ایران کے بجائے مراکش کا سلطان تھا۔ وہ 1329 ء میں مراکش میں پیدا ہوا اور 1348ء اپنے والد ابوالحسن ابن اوتھان کی وفات کے بعد مراکش کا حکمران بنا۔ اسے 1358 ء میں قتل کر دیا گیا۔ ابن بطوطہ کے سفر نامے سے متعلق دوسری غلط فہمی، ابن جوزی کے نام سے متعلق ہے۔ بعض ذرائع نے مشہور عراقی عالم، شاعر اور مورخ علامہ ابن جوزی کو ابن بطوطہ کے سفر نامے Rihla کا مصنف لکھا ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ علامہ ابن جوزی، ابن بطوطہ کے دنیا میں آنے سے لگ بھگ سو سال پہلے انتقال فرما چکے تھے۔ ان کا زمانہ 1116 ء سے 1206 ء کے درمیان ہے جب کہ ابن بطوطہ کے سفر نامے کے مصنف ابن جوزی الکلبی کا زمانہ 1321 ء سے 1357ء کے درمیان ہے۔
جواب دیں