دور جدید کی حیرت انگیز ایجادات کے منفی استعمال کے باعث بہت سے مسلمان فسق و فجور میں اتنے مبتلاہوچکے کہ ان کے پاس عبادت و ذکر الٰہی کی فرصت بھی نہ رہی۔ اور اس سنگین صورتحال کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں رزق کی تنگی اور معاشی بد حالی عروج پر ہے، اور ہر دوسرا تیسرا شخص اخراجات پورے نہ ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ حدیث قدسی ہے خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے آدم کے بیٹے تو میری عبادت کیلئے اپنے آپ کو فارغ کرلے میں تیرے دل کو مالداری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو دور کردوں گا، اور اگر تونے ایسا نہ کیا تو تیرے دل کو دنیا کے دھندوں سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کو دور نہ کروں گا۔ (مسند احمد، الترمذی) اسی طرح صحیح ابن ماجہ میں حدیث قدسی ہے، فرمان الٰہی ہے ”ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یک سو ہو جا تو میں تیرا سینہ بے نیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کر دوں گا، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا“۔ درج بالا حدیث قدسی آنکھیں کھولنے اور بصیرت حاصل کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے ذریعہ ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ عبادت اور اعمال صالحہ کو دنیاپر ترجیح دیتے ہوئے خود کو عبادت، جو کہ مقصد تخلیق ہے اس کے لئے فارغ کرنا چاہیے۔ جو ایسا نہیں کرے گا اس کا نقصان بھی یہاں پر بتادیا گیا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا میں مزید الجھاکر بے پناہ مشغول کردے گا اور مال کی برکت سلب کرکے محتاجگی کے ایسے احساس میں مبتلا کردے گا کہ دولت ہوتے ہوئے ہمیشہ دولت کی کمی اور بھوک محسوس ہوگی۔ اسی چیز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اسطرح بیان فرمایا ”جس شخص کی نیت اور اسکا مقصد آخرت کی طلب ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ غنی ومالداری سے اس دل کو بھر دیگا اور اسکے پراگندہ حال کو درست کر دے گا اور اسکے پاس دنیا ذلیل ہوکر آئے گی اور جس کی نیت وسعی عمل دنیا طلب کرنا ہو گا تو اللہ تعالیٰ فقر ومحتاجی کو اسکے سامنے کردیگا،اسکے حال کو پراگندہ کردیگا اور دنیا سے اسکو اسی قدر ملے گا جس قدر اسکے لئے پہلے سے مقدر ہوچکی ہے“۔ (سنن الترمذی، مسند احمد) قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ المنافقون آیت 9 میں حکم الٰہی ہے ”اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں“۔ اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہرکسی کو ہرحال میں وقت نکالنا ہوگا خواہ وہ کتنا بھی مصروف اور منہمک آدمی کیوں نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ربّ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور زندگی کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ دنیا کی مختصرزندگی دراصل آخرت کی تیاری کا ایک موقع ہے، اور جو دنیاوی مشغولیت کو ہی ترجیح دیتا ہے، اپنی مصروفیات میں سے عبادت کے لئے خود کو فارغ نہیں کرتا ہے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نافرمان ہیں۔ انہیں اس نافرمانی کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ربّ کی بندگی کے علاوہ کسی کو فرصت کے اوقات نصیب ہوں تو ان کو غنیمت جان کر فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ انسان کی زندگی سے وقت ختم ہوتے ہی وہ دنیا سے اٹھ جاتا ہے اور ایسی دنیا کی طرف کوچ کرجاتا ہے جہاں سے پھر لوٹ کر نہیں آنا۔ د رکھیں کہ جوانی، صحت، مالداری، فرصت اور زندگی کی بڑی اہمیت ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے“۔ بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کیلئے پیداکیا ہے باقی دنیا کی تمام چیزیں اس لیے بنائی کہ بندہ عبادت کے کام میں ان سے مدد حاصل کرے۔ انسانی زندگی کا اصل مقصد صحت بنانا، مال جمع کرنا اور لہوو لعب نہیں۔ اسلئے ہر بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ عبادت الٰہی میں گزارے، اسکی ساری فکر اور پوری سعی اسی مقصد کے لئے ہونی چاہیے، جسکا فائدہ یہ ہوگا کہ اس فکر وسعی کی برکت سے اسکے تمام معاملات درست اور سارے امور قابل اطمینان رہیں گے۔ اسلام میں یہ تصور نہیں ہے کہ عبات تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور باقی معاملات میں وہ آزاد ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔وہ سوتا اسلئے ہے تاکہ عبادت میں راحت محسوس کرے، وہ کھاتا اسلئے ہے کہ عبادت کیلئے قوت حاصل کرے، وہ کماتا اسلئے کہ اپنی اور اللہ کے بندوں کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرے۔ لہٰذا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ مال کمانے میں اسقدر لگ جائے کہ عبودیت کے اصل مظاہر جیسے نماز، روزہ وغیرہ میں کوتاہی ہونے لگے، سونے کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کرے کہ عبادت کا وقت فوت ہو جائے، کھانے کا اسقدر رسیاہوجائے کہ فرائض کو چھوڑ دے، ایسا ہوا تو بندے نے اپنی زندگی کے اصل مقصد کو کھودیا، اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے صحیح راستہ سے بھٹک گیا،نتیجتاً وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوگا۔ کاش کہ آج کا مسلمان درج بالا فرمان الٰہی کو سمجھتا، اور اپنے مقصد زندگی کو پہچانتا اور دنیا کی حقیقت کو جان لیتاتو اسکے تمام مسائل حل ہو جاتے، اسکے یہاں بے اطمینانی دور اور محتاجی ختم ہو جاتی۔ اور وہ دنیا میں پر امن وپر سکون زندگی بسر کرتا۔ لیکن جس نے دنیا اپنا اصل مقصود بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی محتاجی اور پریشانی کو اس پر مسلط کردیا اور دنیا کی طلب میں خون پسینہ ایک کردینے کے باوجود بھی اسکی محتاجی دور نہ ہوئی اور نہ ہی اسکے دنیاوی مسائل حل ہوئے۔ پس ہمیں اپنی مقصد زندگی کو پہچاننا چاہیے، اور عبادت و ذکر الٰہی میں اپنا وقت گزارنا چاہیے تاکہ ہم دونوں جہانوں میں فلاح و کامیابی پاسکیں۔ مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
31جنوری2021(فکروخبر)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں