تحریر :جاوید اختر بھارتی
معزز قارئین کرام آپ حضرات کو شائد یہ موضوع کچھ عجیب و غریب محسوس ہو لیکن میں نے عالمی سطح سے لیکر ملکی اور مقامی سطح تک غور کیا ہے اور جائزہ لیا ہے تو یہ محسوس ہوا کہ لوگ اب سیاست کا مطلب ہی کچھ اور سمجھتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر یہ مشورہ بھی دیدیا کرتے ہیں کہ اچھے لوگوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے بعض لوگ تو علماء کرام کو ہی نشانہ بناکر کہتے ہیں کہ انہیں سیاست میں حصہ لینا ہی نہیں چاہیئے یعنی انکی نظروں میں سیاست انتہائی گھٹیا چیز ہے اور شائد اسی سوچ اور نظریئے کی بنیاد پر ہندوستان کی آزادی کے بعد علماء کے ہی ایک پلیٹ فارم نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی علماء کا وہ طبقہ ملک کی ایک سیاسی پارٹی کانگریس کے ساتھ رہا حتیٰ کہ اس کی پہچان اور شناخت کانگریس کے ایک سیل (प्रकोष्ठ) کی طرح ہوگئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کانگریس کی بلا شرط حمایت ہی کرنی تھی تو پھر سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیوں کیا گیا اور آپ کے اس روئیے سے مسلمانوں کا کیا بھلا ہوا ایسا غیر ذمہ دارانہ قدم نہ اٹھایا گیا ہوتا تو آج جمہوری نظام میں مسلمانوں کی بھی سیاسی طاقت ہوتی، سیاسی پہچان ہوتی اور جب سیاسی پہچان ہوتی تو قدم قدم پر رونا رونے کی ضرورت نہیں پڑتی –
اب دوسرا سوال: آخر سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا گیا تو پھر انفرادی طور پر سیاست کا ذائقہ چکھنے کی کوشش میں مصروف کیوں رہا گیا یا تو مخصوص طور پر کچھ لوگوں کی نیت درست نہیں تھی اور وہ چاہتے تھے کہ بس چند لوگوں تک اقتدار کا ذائقہ محدود رہے اور باقی لوگوں کو یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ وہ فلاں صاحب ہیں انکی حکومت تک رسائی ہے اور وہی جو چاہیں گے حکومت ویسا ہی کرے گی وہی ہمارے رہبر ہیں اسی لئے تو دینی تقریبات میں سیاسی لوگوں کو مدعو کیا جاتا رہا اور پھر بھی خود کو غیر سیاسی بتایا جاتا رہا اور قوم کو صرف عبادت کرنے کا سبق پڑھایا جاتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ آج سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں پھس نظر ارہا ہے اور اپنی ساری ناکامی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑا جارہا ہے –
تیسرا سوال: آج بہت ساری مسلم پارٹیاں ہیں کچھ کا نام پانچ سال تک سننے میں آتا ہے اور کچھ کا نام ساڑھے چار مہینے تک سننے میں آتا ہے لیکن عام طور پر آج مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن نیتا جی ہیں،، ایم پی صاحب ہیں،، کچھ مولانا صاحبان بھی ہیں،، کوئی پوچھے تو پوچھے کیسے کہ جب آج مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو کل جب ریزرویشن دیا گیا تھا تو دفعہ 341 والے معاملے پر ایک آرڈیننس جاری کرکے پابندی لگائی گئی تو اس وقت زبان کیوں بند تھی؟ جب مذہب اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے تو،، مسئلہ خلافت،، نامی کتاب کیوں لکھی گئی؟ اور ملک آزاد ہوتے ہی مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کو مخصوص سہولیات سے محروم کرنے کا حکومت کو مشورہ کیوں دیا؟ اور انکے مشوروں کی روشنی میں جب مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ہی ختم ہوگئی تو آج پھر سینے میں قوم کا درد کیوں اٹھنے لگا؟اس وقت اگر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہوتا تو شائد سمجھ میں آیا ہوتا اور مفاد پرستی سے اوپر اٹھنے کا جذبہ پیدا ہوا ہوتا تو ریزرویشن پر مذہبی پابندی نہیں لگی ہوتی اور آج مسلمانوں کی تقریباً چالیس برادریاں سیاسی طور پر مضبوط ہوتیں لیکن مساوات کا نعرہ لگانا تو بہت آسان ہے مگر مساوات کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہے اسی وجہ سے سینہ ٹھونک کر کہا جاسکتا ہے کہ مذہب اسلام کے اندر مساوات ہے مگر مسلمانوں کے اندر مساوات نہیں ہے، مذہب اسلام کے اندر اونچ نیچ، بھید بھاؤ نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے اندر آج بھی یہ بیماری ہے،، اور کچھ ایسے چہرے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں جو دن کے اجالے میں خطبہ حجۃ الوداع کی فضیلت بیان کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں اسی کی مخالفت کی تدبیریں تیار کرتے ہیں اور دوسروں کو صرف تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں یقیناً تعلیم بہت بڑی چیز ہے، تعلیم ایک محفوظ سرمایہ ہے لیکن تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے ورنہ صرف تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اور تربیت سے کوسوں دور رہنے سے تعلیم حاصل کرنے کا کوئی مقصد نہیں کیونکہ جتنے لوگ گمراہ ہوئے ہیں ان میں اکثر تعلیم یافتہ تھے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ فلاں جاہل گمراہ ہوگیا ایسا اس لیے ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت نہیں تھی اور تربیت کا تو اتنا اثر ہوتا ہے کہ ایک پیر کا بیٹا بغیر تعلیم حاصل کئے بھی پیر ہوجاتا ہے –
آئیے اب عبادت اور سیاست دونوں پرغور کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ عبادت اور سیاست دونوں میں کتنا گہرا تعلق ہے اور جو لوگ دونوں کو الگ رکھ کر عبادت سے رشتہ جوڑنے اور سیاست سے رشتہ توڑنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ کتنے مفاد پرست ہیں یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کا نظام چلانے کیلئے حکمت عملی تیار کی جاتی ہے اور اسی حکمت عملی کا نام سیاست ہے، قوم کے روشن مستقبل کیلئے لائحۂ عمل تیار کیا جاتا ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرانے کیلئے جو فیصلہ لیا جاتا ہے اسی کا نام سیاست ہے اور اس سیاست سے انصاف کا ماحول قائم ہو اور انسانیت کو فروغ حاصل ہو اور دامن داغدار نہ ہوتو وہی سیاست عبادت ہے یعنی عبادت بھلے ہی سیاست میں تبدیل نہ ہو لیکن سیاست ضرور عبادت میں تبدیل ہوجاتی ہے اٹھائیے اورنگزیب عالمگیر کا واقعہ جب پنڈت رام لال کی بیٹی شکنتلا سے ابراہیم کوتوال نے زبردستی شادی رچانی چاہی اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے لگا تو شکنتلا اورنگزیب عالمگیر کی خدمت میں پہنچتی ہے بادشاہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے باہر نکلتے ہیں اور تمام فریادیوں کی طرح وہ بھی دروازے پر کھڑی ہے بادشاہ سب کی عرضی اپنے ہاتھوں سے لے رہے ہیں یہ سیاست ہے،، لیکن جب لڑکی کا نمبر آیا تو بادشاہ نے ہاتھ میں ایک کپڑا لیا اور ہاتھوں میں کپڑا لپیٹ کر شکنتلا کے ہاتھ سے عرضی لی جب شکنتلا نے کہا کہ مہاراج آخر ایسا کیوں تو بادشاہ نے کہا کہ مذہب اسلام کسی دوسرے کی بہن بیٹی کو اپنی بہن بیٹی کی طرح سمجھنے کی تعلیم دیتا ہے کسی بھی نامحرم کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دیتا اسی وجہ سے میں نے ایسا کیا،، یہ عبادت ہے،، شکنتلا کو گھر جانے اور شادی کی تیاری کرنے کا حکم دیا،، یہ سیاست ہے،، پھر عین موقع پر آکر انصاف کرنا اور ابراہیم کوتوال کو اس کے کئے کی سزا دینا یہ عبادت ہے،، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودی سے کشتی لڑی کبھی وہ پٹکتا تو کبھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کو پٹکتے یہ سیاست ہے،، جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کو پٹک کر اس کے سینے پر سوار ہو کر گلا دبانے لگے تو یہاں تک سیاست ہے مگر جب یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تھوک دیا تو حضرت علی کو اور غصہ آیا یہ بھی سیاست ہے لیکن جب بہت زیادہ غصہ آیا تو اس کا گلا چھوڑ دیا اور اس کے سینے سے اتر گئے اور کہا کہ میری نظروں سے دور ہوجا کیونکہ میں اپنی طاقت دیکھانے کیلئے نہیں بلکہ اسلام کے ایک دشمن کو ختم کرنے کے لئے لڑرہا تھا اور تونے میرے چہرے پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آیا اور میں نے تجھے اس لئیے چھوڑ دیا کہ کہیں میرا رب یہ نہ کہے کہ اے علی تونے چہرے پر تھوکنے کی وجہ سے اسے مارا اتنا خدا کا خوف یہ عبادت ہے،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المال سے عطر تقسیم کررہے ہیں سب کو ایک ایک تولہ دے رہے ہیں یہ سیاست ہے،، جب خود لینے کا نمبر آیا تو ایک تولہ سے تھوڑا کم لے رہے ہیں صحابہ کرام نے کہا کہ امیرالمومنین آپ کا حق بھی برابر ہے آپ کیوں کم لے رہے ہیں تو حضرت عمر نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے عطر تقسیم کیا ہے میرے ہاتھوں میں کچھ عطر لگا ہے میں بھی ایک تولہ پورا لے لوں تو ہاتھوں میں لگا ہوا عطر مل کر کہیں ایک تولہ سے زیادہ نہ ہوجائے اس وجہ سے تھوڑا کم لیا تاکہ کل ملاکر برابر ہوجائے یہ عبادت ہے،، امام حسین رضی اللہ عنہ کربلا کے ماحول کا پتہ لگانے کیلئے امام مسلم بن عقیل کو بھیجا یہ سیاست ہے اور جب خود چلے تو راستے میں حر ریاحی کا لشکر روکنے کیلئے سامنے آیا دونوں میں جو گفتگو ہوئی وہ سیاست ہے،، مگر اس دوران وہ لشکر پیاسا تھا تو امام عالیمقام نے اس لشکر کی پیاس بجھائی یہ عبادت ہے،، یزید نے کہا کہ ہمارے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دو تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا یہ سیاست ہے،، یزید نے کہا کہ ہاتھ نہیں دیں گے تو سر کاٹ دیا جائے گا تو امام حسین نے کہا کہ نظام شریعت کو باقی رکھنے کیلئے ہاتھ نہ دیکر سر کٹایا جاسکتا ہے یہ عبادت ہے،، خود نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے جنگ خندق کھودی، پیٹ پر پتھر باندھا، تمام ممالک کے حکمرانوں کے نام اسلام کی دعوت قبول کرنے کا پیغام بھیجا، جنگوں میں صفوں کو ترتیب دیا اور خوب خوب جائزہ لیا یہ تمام پاکیزہ اور مقدس ترین کام سیاست بھی ہے اور عبادت بھی ہے جنگوں کے دوران جب نماز کا وقت ہوجاتا تو آدھے لوگ نماز ادا کرتے اور آدھے لوگ کھڑے ہوکر حفاظت کرتے دیکھو ساتھ ساتھ سیاست بھی ہورہی ہے اور عبادت بھی ہو رہی ہے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہی زمانے میں جب ایک کافر گورنر جو مدینہ میں نبی کریم کے قتل کے اردادے سے گھومتے ہوئے پکڑا گیا تو اسے صحابہ کرام نے مسجد نبوی کے ستونوں میں باندھ دیا جب رسول کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے تو پوچھا بتا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو وہ گورنر ثمامہ بن اوشال نے کہا کہ جو کرنا ہو کرو قتل کرنا چاہو تو قتل کردو اور چھوڑنا چاہو تو چھوڑو پھر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو اس کا یہی جملہ تھا تین بار پوچھا تو تینوں مرتبہ اس نے یہی کہا ان تقتل تقتل ذاد من وان تنعم تنعم علی شاکر یعنی قتل کرنا ہوتو قتل کردو اور اگر چھوڑ دو تمہارا احسان ہوگا تو نبی پاک نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میری طرف دیکھ لے تجھے چھوڑ دیا جائے گا تو اس نے جو جواب دیا تو سن کر جہاں اصحاب کرام غصے میں اگئے وہیں عمر فاروق نے تلوار نکال لی لیکن رسول پاک نے انہیں تلوار میان میں رکھنے کو کہا پھر نبی نے فرمایا کہ اچھا ایک نظر میرے شہر مدینہ پر تو نظر دوڑا کر دیکھ لے تجھے یہ بستی کیسی لگتی ہے تجھے چھوڑ دیا جائے گا تو اس نے شہر مدینہ کی برائی بیان کرنا شروع کردی نبی پاک کی آنکھوں میں آنسو اگئے پھر فرمایا صحابہ کرام سے اسے چھوڑ دیا جائے جب چھوڑ دیا گیا تو وہ گورنر کہتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ میں اپنے گھر پہنچ جاونگا کہیں آپ کے ساتھی مجھے راستے میں قتل نہ کردیں تو نبی نے فرمایا کہ تو میرے بہت سے ساتھیوں کو قتل کرچکا ہے اب تجھے چھوڑ دیا گیا ہے تو کوئی تجھے قتل نہیں کرے گا پھر حضرت عمر کو حکم دیا کہ اسے چھوڑ آؤ اب چلا ثمامہ بن اوسال جو کبھی نبی کریم کا چہرہ نہیں دیکھا کرتا تھا بلکہ بات بھی کرتا تھا تو چہرہ دوسری طرف پھیرے رہتا تھا لیکن جاتے جاتے مسجد نبوی کے دروازے پر پہچا تو گھوم کر وہ چہرہ دیکھا جو چودہویں رات کے چاند کے مانند چمکتا تھا جب دیکھا تو دل کی دنیا میں انقلاب برپا ہونا شروع ہوگیا زبردستی جانا چاہا لیکن بیچ راستے سے ہی تیزی کے ساتھ واپس آکر مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑا ہوگیا محسن انسانیت نے پوچھا کہ جب تجھے آزاد کردیا گیا تو واپس کیوں آیا اب اس کا جواب یہ ہے کہ میں تو پہلے آزاد تھا آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا لیکن اب میں آزاد نہیں ہوں مجھے جلدی سے کلمہ پڑھائیے اور دائرہ اسلام میں داخل فرمائیے بتاؤ اس پورے معاملے میں عبادت اور سیاست دونوں ہے کہ نہیں،،
جب صلح حدیبیہ کا موقع آیا تو شرائط لکھے جاتے وقت محمدالرسول اللہ لکھا گیا کفار نے اعتراض کیا کہ ہم رسول مانتے ہی نہیں اس لئے یہ لفظ کاٹا جائے تو نبی نے فرمایا کہ لفظ رسول کاٹ دیا جائے مگر ادب احترام اور محبت کا یہ حال تھا کہ کسی کے پاس اتنی جرات نہیں ہورہی تھی کہ لفظ رسول کاٹ دے تو خود نبی کریم نے اپنے ہاتھوں سے کاٹا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ نبی کے اس کام میں سیاست ہے کہ نہیں،، اور جو صحابہ کرام لفظ رسول کاٹنے کیلئے تیار نہیں ہوئے تو یہ عبادت ہے کہ نہیں،، نبی سرور کونین کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کے زمانے میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں تو علاقے کا علاقہ اور ملک فتح ہونے لگا یہاں تک کہ کیسر و کسریٰ بھی فتح ہوگیا اور حضرت عمر نے تلوار زمین میں گاڑی اور اعلان کردیا کہ اس تلوار کی اونچائی کے برابر مال و زر یہاں جمع کرو اور ملک چھوڑ کر چلے جاؤ اسی موقع پر کیسر و کسریٰ کا کنگن جو سونے اوچاندی کا تھا وہ بھی جمع ہوگیا بتاؤ جو فتوحات حاصل ہوئیں اور مذہب اسلام کا جھنڈا بلند ہوا نصف دنیا پر عمر نے اسلامی پرچم لہرایا یہ عبادت ہے کہ نہیں،، اور جو مال و زر جمع کرنے کا اعلان کیا وہ سیاست ہے کہ نہیں معلوم یہ ہوا کہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے عبادت، سیاست، قیادت، خلافت ہر چیز کی تعلیم دی ہے اب کوئی سیاست کا ترجمہ ہی غلط کرنے لگے اور سیاست کو ہی غلط ٹھہرا نے لگے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے جس طرح سے آج بہت سے لوگ جعلسازی کو چالاکی اور ہوشیاری اور قابلیت سے تعبیر کرتے ہیں اسی طرح آج بہت سے لوگ سیاست کو مکر و فریب کا نام دے رہے ہیں جبکہ سیاست ملک کے تئیں حکمت عملی مرتب کرنے کا نام ہے، آئین کی بالادستی قائم رکھنے کا نام ہے، عدل و انصاف کا پھریرا لہرانے کا نام ہے، عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور عوام کی امیدوں پر کھرا اترنے کا نام ہے نبی کے بتائے ہوئے اصولوں پر ابو بکر و عمر عثمان و حیدر نے رضی اللہ عنہم نے سیاست کی، حکومت کی، خلافت کی اور ایسی عظیم الشان مثال قائم کی کہ تاریخ کو بھی ناز ہے، انسان تو انسان جن و ملک کو بھی ناز ہے،، عمر ابن عبد العزیز نے بھی حکومت کی، خلیفہ ہارون الرشید نے بھی حکومت کی، نور الدین زنگی نے بھی حکومت کی، صلاح الدین ایوبی نے بھی حکومت کی اور حکومت بغیر سیاست کے نہیں ہوتی یہ اپنے اپنے وقت کے امام بھی تھے حکمراں بھی تھے تو جب فرمان رسول اور اصحاب رسول کے طریقوں پر عمل کرنے کے لیے درس دیا جاتا ہے تو کیوں صرف عبادت کی بات کی جاتی ہے،، سیاست کی بات کیوں نہیں کی جاتی معلوم یہ ہوا کہ کچھ ادھر ادھر گھمایا جارہا ہے اور عبادت و سیاست کے مابین ایسا خلا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آنے والی نسل یہ سمجھے کہ مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنا چاہئے اور صرف عبادت کرنا چاہیے بھلے ہی وہ عبادت گاہ بھی بچے یا نہ بچے،، شائد اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی کہا کرتے تھے کہ مسلمان سیاست سے دور رہ کر صرف عبادت کریگا تو ایسا بھی وقت اسکتا ہے کہ وہ عبادت گاہوں کا تحفظ بھی نہ کرپائے اس لئے ہمیں عبادت اور سیاست دونوں میدان میں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
۱۱اگست 2020فکروخبر
جواب دیں