یہاں انہوں نے سرمایہ کاری کی اور اس شہر کو ترقی یافتہ بنانے میں ان کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود حیدرآباد پر بہرحال تلنگانہ کے عوام کا زیادہ حق اور اختیار ہے۔ حیدرآباد آج سے نہیں اپنی تاسیس سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ ہر دور میں اپنی تاریخ، تہذیب، ثقافت کے لئے جانا جاتا رہا ہے۔ قطب شاہی دور سے لے کر آصف جاہی خاندان کے زوال تک حیدرآباد ایک اسلامی ریاست کے طور پر دنیا بھر میں مشہور رہا۔ لسانی بنیادوں پر آندھراپردیش کی تاسیس کے نام پر حیدرآباد ریاست تین علاقوں میں تقسیم ہوگئی اور دوسری ریاستوں کے عوام یہاں کثرت سے آباد ہوگئے جنہوں نے حیدرآباد کی تہذیب اور ثقافت کو آلودہ کردیا۔
مسلمانوں کا شاہی اقتدار ختم ہوا مگر حیدرآباد میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اب بھی باقی ہے۔ اب بھی اس کی بلامبالغہ ایک ایسے شہر کے طور پر شناخت ہے جس میں کسی حد تک مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت باقی ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل میں حیدرآباد ایک صنعتی شہر کے طور پر قومی سطح پر ابھرا۔ جب یہاں بی ایچ ای ایل، این ا یم ڈی سی، این ایف سی، سی سی ایم بی، ڈی آر ڈی او، ایچ اے ایل، سی ڈی ایف ڈی (سنٹر فار ڈی این اے‘ فنگر پرنٹس) جیسے ادارے قائم ہوئے۔ گذشتہ 25برس کے دوران حیدرآباد کا نقشہ اور ہیئت مزید بدل گئی۔ جب یہ ایک صنعتی شہر سے انفارمیشن ٹکنالوجی کے اہم مرکز کے طور پر عالمی نقشے پر نمایاں ہوا۔ آج حیدرآباد ملٹی نیشنل آئی ٹی اور بائیو فارمیسیوٹیکل کمپنیوں کا ایک بہت بڑا مرکز بن چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے یہاں انفارمیشن ٹکنالوجی انوسٹمنٹ ریجن (ITIR) کے قیام کی منظوری دی ہے۔ 202مربع کیلو میٹر رقبے پر آئی ٹی آئی آر کے لئے پانچ ہزار کروڑ کے فنڈ جاری کئے جارہے ہیں۔ توقع ہے کہ اس سے 30ہزار کروڑ کا ریویو حاصل ہوگا۔ حیدرآباد کے انفارمیشن ٹکنالوجی مرکز سے پورے 15فیصد اور آندھراپردیش کے 98فیصد آئی ٹی پروفیشنلس نکلتے ہیں۔ 2011-12 کی رپورٹ کے مطابق اس شہر میں 1200 آئی ٹی کمپنیاں ہیں جن سے کی گئی ایکسپورٹ سے 46ہزار 646کروڑ حاصل ہوئے۔
حیدرآباد اب دنیا میں ہائی ٹیک سٹی، سائبر ٹاور، سائبر گیٹ وے، سے بھی جانا جاتا ہے۔ گریٹر حیدرآباد میں شامل مادھاپور، گچی باؤلی، کونڈاپور، منی کونڈا، نانک رام گوڑہ میں 151ایکڑ رقبے پر ہائی ٹیک سٹی ملٹی نیشنل کمپنیوں، حیدرآباد انٹرنیشنل، ٹریڈ، ایکسپوزیشن لمیٹیڈ (ہائی ٹیکس) 40لاکھ اسکوائر میٹر رقبے پر مائنڈ اسپیس، آئی ٹی پارک (جہاں 10ہزار پروفیشنلس کام کررہے ہیں) کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور انٹرنیشنل کمپنیاں جہاں لگ بھگ 25ہزار پروفیشنلس کام کررہے ہیں۔ مستقبل میں 55ہزار پروفیشنلس کو روزگار فراہم کرنے کی گنجائش ہے۔ جسے اسپیشل اکنامک زون کے طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے لئے بھی دنیا بھر میں اپنی شناخت کا حامل ہے۔ ہندوستان کی 170کیلو میٹر طویل آؤٹر رنگ روڈ، سب سے طویل ایکسپریس ہائی وے، ایشیا کا بہترین انٹرنیشنل ایرپورٹ، ایک بلین ڈالر کے ابتدائی سرمایہ سے 1100 ایکر اراضی پر قائم کیا جانے والا نینوٹیک پارک جہاں ایک لاکھ افراد کے روزگار کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ 200ایکرس پر جیمس اینڈ جویلری پارک، پانچ سو ایکرس پر مجوزہ ٹیکسٹائل پارک، ایم آر گروپ دوبئی کی Seven Star ہوٹل کی تعمیر، انٹرنیشنل ایرپورٹ کے قریب لگ بھگ 300بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری سے ایرو پارک جہاں 60یونٹ سے سالانہ ڈیڑھ بلین ڈالرس کی آمدنی حاصل ہوگی۔ ایک سو ایکر پر آغاز خاں انٹرنیشنل یونیورسٹی، ڈیڑھ سو ایکر پر ہندوستان کی سب سے بڑی آئی آئی ایم، حکومت دوبئی کے اشتراک و تعاون سے حیدرآباد نالج کوریڈور کے مجوزہ قیام سے بھی اس شہر کی شہرت و مقبولیت اور اہمیت میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ حیدرآباد میٹرو ریل پراجکٹس تکمیل کے درمیانی مرحلہ میں ہیں۔ تکمیل کے بعد شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔ ٹرافک کے مسائل بڑی حد تک حل ہوجائیں گے۔
حیدرآباد کا ذکر آتے ہی تصور میں چارمینار کا عکس ابھرتا ہے۔ محلات، حویلیوں، دیوڑھیوں، کمانوں کے خاکے متحرک ہوجاتے ہیں۔ مگر اب جس طرح سے اس شہر کی بین الاقوامی سطح پر مارکیٹنگ کی جارہی ہے اس سے ایک بین الاقوامی معیار کے ہائی ٹیک سٹی کا تصور پیش کیا جانے لگا ہے۔ ایک طرح سے یہ اچھا بھی ہے۔ کیوں کہ گذشتہ 25برس کے دوران حیدرآباد کے توسیع و تعمیر اور ترقی ہوئی ہے تو موسیٰ ندی کے اُس پار والے علاقہ کی سمت جہاں سے نیا شہر شروع ہوتا ہے۔ پرانا شہر اصل حیدرآباد ہے۔ اور یہی اس کی خاصیت ہے کہ اس علاقہ میں اب بھی وہی ماحول ملتا ہے جہاں ہم اپنے آپ کو کم از کم 200سال پہلے کے دور میں محسوس کرتے ہیں۔ شاید اصل حیدرآباد کی اس اصل حالت کا تحفظ ارباب مجاز کا مقصد رہا ہوگا۔ اس علاقہ میں ہم اب بھی ماضی کی بھول بھلیوں میں گم رہتے ہیں وہی بے فکری اپنے اور اپنے اطراف کے ماحول سے بے نیازی۔ البتہ پرانے شہر کے علاقہ میں مسجد کے مینار آستانوں اور خانقاہوں کی کمانیں ہمیں یہ طمانیت بخش احساس دلاتے رہتے ہیں کہ یہ شہر ہمارا ہے۔ یہاں ہمارا ماضی محفوظ ہے۔ یہی ماضی ہمارا حال بھی ہے۔ توکل پر قائم رہنے والے ہیں مستقبل کی کسے پرواہ۔
نئے شہر کے حدود میں داخل ہوتے ہی فرق محسوس ہوتا ہے قدیم اور جدید کی۔ جیسے جیسے نئے آباد کئے گائے علاقوں کی طرف قدم بڑھتے ہیں لگتا ہے کہ ہم وقت کی رفتار سے کچھ تیز چل رہے ہیں۔ موسیٰ ندی کا علاقہ پار کرکے جب ہم بنجارہ ہلز، جوبلی ہلز، ہائی ٹیک سٹی، کی طرف بڑھتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے اپنے آپ کو کسی اور شہر میں پاتے ہیں۔ مائنڈ اسپیس، آئی ٹی پارک میں داخل ہوتے ہی فلک بوس عمارتوں کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے لگتا ہے کہ ہم سنگارپور یا امریکہ کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم نے پرانے شہر سے نئے شہر تک 15، 20کیلو میٹر کا فاصلہ نہیں بلکہ صدیوں کی مسافت طئے کی ہے۔ کشادہ، چکنے، شفاف سڑکیں، خوبصورت عمارتیں بظاہر مہذب، متمدن نوجوان، ایک عجیب سا ماحول، عجیب سا نظارہ، ایک خواب سا نظر آتا ہے۔ شاید اسی حیدرآباد کے لئے سیما آندھرا کے قائدین اور عوام جدوجہد کررہے ہیں کیوں کہ ان علاقوں کی تعمیر و ترقی میں حکومت کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی سرمایہ کاری بھی ہے جس کا وہ تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ جو اصل حیدرآباد ہے وہاں اب مخدوش عمارتیں، ناہموار سڑکیں جن پر پیدل بھی چلا جائے تو ٹھوکر لگتی ہے۔ بے ہنگم ٹریفک، راہ گیروں کے لئے مختص فٹ پاتھ پر قابض ترکاری اور پھل فروش یا پھر چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ جن کے لئے باقاعدہ ملگیاں تعمیر کرکے الاٹ کی گئی تھیں۔ سیاحتی مقامات پر گندگی، کچرے کے ڈھیر، بھیک مانگتے، ننگ دھڑنگ بچے، مسلم شناخت کو رسوا کرتی ہوئی برقعہ پوش گداگر خواتین (جن میں اکثریت غیر مسلم عورتوں کی ہوتی ہے) ان کے تو ہم عادی ہوچکے ہیں مگر غیر ملکی سیاح اپنے کیمروں میں یہی تصاویر قید کرکے غیر ملکی جرائد اور رسائل میں شائع کرتے ہیں جس سے حیدرآباد کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی عوام بالخصوص حیدرآبادی مسلمانوں کا ایک منفی رخ سامنے آتا ہے۔
حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی شہرت سالار جنگ میوزیم سے بھی ہے۔ جہاں ایک فرد واحد کا نوادراتی کلکشنس دنیا کو حیرت زدہ کردیتا ہے مگر اب جو بھی سیاح سالار جنگ میوزیم آتا ہے وہ زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتا کیوں کہ شہر کے بیشتر علاقوں کے کچرے کا ڈھیر سالار جنگ میوزیم کے سامنے ڈالا جاتا ہے جس کی تعفن ناقابل برداشت ہوتی ہے اور بیشتر سیاح سانس روکے کچھ دیر نوادرات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہندوستان سے متعلق منفی تاثرات کے ساتھ واپس ہوجاتے ہیں۔ حیدرآباد کے چوتھے عظیم شہر حیدرآباد میں جہاں فلک بوس عمارتوں کا جال پھیلتا جاتا ہے وہییں سلم بستیاں بھی تیزی سے آبا دہورہی ہیں۔ جی ایچ ایم سی نے ورلڈ بینک کو جو رپورٹ2012 میں پیش کی ہے اس کے مطابق 1476 سلم بستیاں حیدرآباد میں ہیں۔ جن میں سے رہنے والے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
حیدرآباد سے محبت جذباتی لگاؤ تو ہر حیدرآبادی کو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ بیرون حیدرآباد سے یہاں آکر بسنے والے ان سے انسیت رکھتے ہیں صرف جذباتی لگاؤ سے کیا ہوگا۔ اگر واقعی حیدرآبا دسے متعلق ہے تو اصل حیدرآباد کو عصری سانچوں میں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ آندھراپردیش کے موجودہ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی اپنے آپ کو پکا حیدرآبادی کہتے ہیں۔ 12؍نومبر کو حیدرآباد میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے منصوبوں کو منظوری دی گئی جس کے تحت 134کروڑ کی لاگت سے حیدرآباد ہیبی ٹیٹ سنٹر ڈیولپمنٹ کو منظوری دی گئی۔ جب اس پر عمل آوری ہوگی تو حیدرآباد کے اطراف و اکناف کے علاقے ہی نئے سانچوں میں ڈھالے جائیں گے۔ پرانے شہر کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس بات کا جائزہ ضرور لیا جانا چاہئے کہ نئے شہر کے علاقے ترقی یافتہ کیوں ہے۔ پرانے شہر کے علاقے ترقی سے محروم کیوں رہ جاتے ہیں۔ کیا ارباب اقتدار کا تعصب اس کی وجہ ہے یا ہماری اپنی لاپرواہی، غفلت یا غیر ذمہ داری کا یہ نتیجہ ہے۔ ہر وہ جماعت جو حیدرآباد پر اپنا حق جتارہی ہے اسے حیدرآباد کے نئے علاقوں سے زیادہ پرانے شہر کے علاقوں کیا ترقی یہاں تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیوں کہ نئے شہر کی طرح پرانے شہر کی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے تعلق رکھنے والے لوگ اب شہر کے دوسرے علاقوں میں آباد ہونے لگے ہیں۔ یہ حیدرآبادی تہذیب اس کی تاریخ کا ایک اور المیہ ہے۔
پرانا شہر حیدرآباد‘ حیدرآبادی مسلمانوں کی تہذیبی‘ مذہبی شناخت کا آئینہ دار ہے جس سے متاثر ہوکر کبھی داغ دہلوی نے کہا تھا
حیدرآباد تا بہ قیامت رہے قائم
یہی اے داغؔ مسلمانوں کی ایک بستی ہے
جواب دیں