مگر غیرت کیا ہوئی اہل قیادت کی خواتین کا جنسی استحصال ہندوستان شرم سار

 

ذوالقرنین احمد
 

خواتین معاشرے کی وہ اہم اور مقدس شخصیت ہے، کہ جس کے بغیر کائنات بے رنگ و بو ہے۔ صرف کائنات ہی نہیں جنت بھی اسکے بغیر ادھوری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو پیدا کیا اور اسکی تسکین کیلے عورت کو بھی پیدا کیا۔ کیونکہ یہ فطرت انسانی ہے۔ جس کی جو ضرورت ہے وہ اسے ضروری ہے عورت و مرد ایک دوسرے کیلے لازم و ملزوم ہیں۔ عورت کے معنی ہی چھپانے کے ہیں جیسے کوئی بہت قیمتی شئے ہیرا موتی سونا وغیرہ بہت ہی حفاظت سے رکھے جاتے ہیں اسی طرح عورت  کو عزت و احترام اسلام نے دیا ہے۔ خواتین وہ مقدس ہستی ہے۔ جس کے بغیر جنت میں بھی انسان کا دل نہیں لگنا ہے۔ عورت وہ موتی کی مانند ہے جو صدف کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ اور اسکے حفاظت کا غلاف پردہ ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسکے تحفظ کیلے مرد کو اسکا ذمہ دار بنایا ہے۔ اگر عورت ایک بیٹی ہے تو باپ کو اسکا محافظ بنایا، ماں ہے تو شوہر و بیٹے کو، بہن ہے تو بھائی کو، بیوی ہے تو شوہر کو اسکا محافظ بنایا ہے۔ اور اگر وہ یتیم بھی ہو تو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ اللعالمین ﷺ کے زریعے ایسی شریعت مطہرہ ہمیں عطا کی ہے۔ جس میں خواتین کے تحفظ کیلے مردوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھے۔ اور بیواہ کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح خواتین کو بھی حکم‌دیا گیا ہےکہ وہ اپنے قابل شرم اعضاء کو چھپائے اور زمانۂ جاہلیت کی طرح بے پردہ بلا ضرورت باہر نا نکلے۔
عورت ایک مضبوط ہستی ہے۔ اگر اسکی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق بہترین اخلاق و کردار کے ساتھ کی جائے تو وہ کبھی غلط قدم نہیں اٹھا سکتی ہے۔ لیکن معاشرے جب‌ بے حیائی کی حدوں کو پھلانگ رہا ہوں ہر طرف بے حیائی اور بے شرمی اور برہنگی کا ننگا ناچ کھلے عام ہونے لگے ہر طرح برہنہ تصاویر اور ویڈیوز اور سوشل میڈیا کے زریعے ماحول کو پرہ گندہ کیا جارہا ہے تو ایسے میں خواتین کو اپنی فکر کرنی بےحد ضرورت ہے۔ جہاں معاشرے میں آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہو، اور بنت حوا تک پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہو وہ معاشرہ خواتین کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ دنیا کی قانون کیا انہیں تحفظ فراہم کر سکتے ہیں؟ جو خود چند پیسوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور جو حکمران اقتدار خود بے حیا اور زانی ہو وہ کیا بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کا پیغام دے گے۔ وہ تو خود جنسی درندے ہیں جو صرف موقع ڈھونٹتے رہتے ہیں۔ جو نعرہ حکومت نے دیا تھا وہ بلکل جھوٹا ثابت ہورہا ہے۔ ایک طرف بیٹی بچاؤ کا نعرہ دیتے ہیں اور انہیں کے لیڈر بیٹوں کی شیلٹر ہوم اورآشراموں میں نابالغ بچیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ان کی ویڈیو بناکر دھمکی دی جاتی ہے۔ تو کہی بیٹی پڑھاؤ کا جھوٹا نعرہ دے کر فیس میں ہورہی زیادتی کے خلاف پر امن اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کر رہی  بیٹوں پر لاٹھی چارج کی جاتی ہے۔ انکے قابل شرم حصے پر ملک کے محافظ ہی ہاتھ ڈالتے ہیں۔ کہی کسی بیٹی کو اس قدر مجبور کیا جاتا ہے کہ لیڈر کے گھر کے باہر خودسوزی کی کوشش کرتی ہے۔ اور پولس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرنے گئے باپ کو پیٹا جاتا ہے۔
نیشنل کرائم ریسرچ بیوریو کے مطابق سب سے زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ اتر پردیش میں جاری سال خواتین کو بنایا گیا ہے۔ جس میں 5830 مقدمے درج کی گئے ہیں، مدھیہ پردیش میں 2983، مہاراشٹر میں 2910 بڑے شہروں کے حساب سے دو سال قبل دہلی میں 613، ممبئی میں 391 کانپور میں 162 جس میں اکثر ایسی خواتین کو نشانہ بنایا گیا جو شیلٹر ہوم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ 2013-14 کے مطابق 2017-18 میں 83 فیصد ریپ کیسز اور چھیڑ چھاڑ کے کیسز میں 95 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور اب یہ سلسلہ مزید تیزی بڑھتا جارہا ہے۔ دہلی کی دامنی ریپ کانڈ اسی طرح آصفہ کی عصمت دری و قتل، کے جیسے کیسز میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت اس پر قابو پانے‌ میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ تیزاب سے حملے، جہیز کے نام پر شادی شدہ خواتین کو پریشان کرنا اور زندہ جلا دینا عام بات ہوچکی ہے۔ کالج اسکول یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیوں پر ایسڈ اٹیک، ہاسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کا جنسی استحصال اورننگی ویڈویو بناکر انکو برسوں ہریسمینٹ کرنا، مرڈر کو خودکشی کا رنگ دے دینا پولس کی طرف سے کیس درج کرنے میں ٹال مٹول کرنا مجرموں کے حوصلہ کو بلند کرنے کے مترادف ہے۔

گزشتہ روز حیدر آباد میں شادنگر کے اندر پاس میں ایک ویٹرنری ڈاکٹر پرینکا ریڈی کے جلی ہوئی ناش ملی ہیں رپورٹ کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ پرینکا کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا ہے۔ جس میں چار مجرموں پاشا، نوین، کیشولو، شیوا کو پولس نے اریسٹ کیا ہے۔ لڑکیوں ، خواتین پر چھیڑ چھاڑ اور جنسی تشدد کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ یہ تو وہ معاملے ہیں جو منظر عام پر آجاتے ہیں ورنہ ایسے کئی کیسز ہیں جس کی جانچ نہیں کی جاتی ہیں۔ ایسی کئی قبائلی علاقوں کی لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اور انہیں اپنے سیاسی اقتدار کے زور و پیسہ سے منہ بند کردیے جاتے ہیں۔ ان تمام جرائم کا خاتمہ اور اسکی روک تھام کیلے اسلامی شریعت کا نفاذ کرنا بے حد ضروری ہے۔ اب ملک میں السلامی شریعت تو نافذ نہیں ہے اس لیے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کا کام بلا مذہب و تفریق کرنا شروع کردے۔ اسی طرح شریعت کے مطابق ایک ڈرافٹ مجرمانہ سرگرمیوں اور غلط فعل انجام دینے والے افراد کے خلاف جو شریعت نے سزائے سنائی ہے اسکے مطابق ڈرفٹ بناکر حکومت کو پیش کیا جائے۔ اور خواتین کے تحفظ سے متعلق بل میں ترمیم کرکے شریعی قانون کو اس میں ضم کرنے کی بات کی جائے۔ اور معاشرے میں پھیل رہی بے حیائی کے خلاف مضبوط اور مسلسل مہم چلائی جائے صرف کچھ دن کام کرکے خاموش نا بیٹھے۔ نوجوانوں کو اس سے جوڑ کر ان پر معاشرے کے ذمے دار اور مستقبل کے رہبر ہونے کے ناطے ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ اس قدر معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فراموش کردیا جارہا ہے کہ کھلے عام بے حیائی کے کام کیے جارہے ہیں اور با قاعدہ ایسے اڈے اور نئی زبان میں کیفے چلائے جارہے ہیں جس میں نوجوانوں کو حرام کام کرنے کیلے مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔ اور ان سے بڑی رقم وصول کی جاتی ہے۔ اپنے خاندان کی اپنے علاقے اور اپنی بستیوں کی فکر کرنے کی ضرورت ہے یہ رواج بنتا جارہا ہے کہ شادی سے قبل جنسی تعلقات قائم کرنے کو کوئی گناہ یا جرم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ غیروں کی بات چھوڑئیے اپنے ہی گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ایسی خبریں سننے میں آرہی ہیں کے دل پاش پاش ہوجاتا ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس نے شریعت کے زریعے خواتین کو حقوق عطا کیے انکے تحفظ کیلے اللہ تعالیٰ مردوں کو پابند کردیا کہ وہ نامحرموں کو نا دیکھے۔ آج کی بنت حوا اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے انحراف کر رہی ہیں۔ شوہر کے چہرہ پر سنت رسول کی وجہ سے خلا لی رہی ہے۔ اگر اس بے دینی اور بے حیائی اور مادہ پرستی کی تباہی  سے اپنی نسل کو بچانا ہیں تو انہیں اسلامی شریعت کا پابند بنائیے ورنہ دنیا میں بھی ناکامی مقدر ہوگی اور آخرت میں بھی ذلت و رسوائی کا سبب بنے گی۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30نومبر 2019(فکروخبر)

«
»

بے باک صحافی حفیظ نعمانی

کیا دِنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ بلیک ڈے ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے