حیدرآباد میں تبلیغی اجتماع کے بعد

انہیں کھینچ کر نماز میں لاکھڑا کردیں۔ غوث کا دامن اور خواجہ کا دامن اگر واقعی تھامے رکھنا ہے تو ان کی طرح نماز کی پابندی کرنا ہے۔ ان بزرگان دین نے اسلام کی تبلیغ، ترویج و اشاعت کی اگر ہم واقعی ان بزرگان دین کا احترام کرتے ہیں تو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عبادت کریں‘‘۔
بیان جاری ہے اور میں ایک بار پھر سوچتا ہوں کہ اسی جماعت کے بارے میں یہ بدگمانی پھیلائی جاتی رہی کہ یہ اولیاء کرام کا احترام نہیں کرتے۔ احترام سے مراد کیا ہے جسے ہم چاہتے ہیں‘ جن سے ہمیں محبت و عقیدت ہے ہم ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے ہیں‘ ان کی ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں‘ نہ کہ ان کی تعلیمات کو تو فراموش کردیں اور صرف ان کے نام پر اپنے گزر بسر کے ذرائع پیدا کرلیں۔
حیدرآباد میں تبلیغی جماعت کا ریاستی اجتماع یوں تو تین دن کا تھا جس میں لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی۔ مجھے اتوار 22؍نومبر کی شام کوئی چار گھنٹے شرکت کی سعادت ملی۔ اجتماع گاہ پہنچ کر مجھے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اگر یہاں نہ آتا تو بہت کچھ سیکھنے سے محروم رہ جاتا۔ تبلیغی جماعت کے اجتماعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی کبھی گاؤں، کبھی شہر میں اجتماعات ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ پُرامن ہوتے ہیں اس لئے حکومتیں بھی اپنی جانب سے مکمل سہولتیں فراہم کرتی ہیں کیوں کہ ارباب اقتدار کا تعلق چاہے کسی مذہب سے کیوں نہ ہو‘ انہیں اس بات کا احساس اور یقین ضرور ہوتا ہے کہ جس سرزمین پر اللہ والے جمع ہوتے ہیں‘ اپنے خالق کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ اچھائیوں کی طرف راغب کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ اُس سرزمین پر فضل ہی فضل ہوتا ہے۔ تاہم بعض تعصب پرست عناصر اسے بھی منفی زاویہ سے دیکھتے ہیں بلکہ یہ تک بہتان لگاتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے اجتماعات اس لئے کامیاب ہوتے ہیں کہ اسے حکومت وقت کی مدد و حمایت حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنی اندھی نفرت، مخالفت اور تعصب میں یہ فراموش کرجاتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں اس پر توکل کے ساتھ نکلنے والوں کو اللہ ہی کی مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے۔ حیدرآباد کا اجتماع ایک ایسے وقت ہوا جب ہندوستانی مسلمان حالات سے ذہنی انتشار اور کسی قدر مایوسی کا شکار تھا۔ ایسے وقت ایک تاریخ ساز اجتماع کے انعقاد سے نفسیاتی طور پر حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ حیدرآباد کی تاریخ کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے جب تبلیغی جماعت کی اجتماع کی کسی بھی گوشے سے نہ تو مخالفت کی گئی نہ ہی کسی نے کوئی تنقیدی یا اشتعال انگیز بیان دیا۔ ورنہ ماضی میں تبلیغی جماعت کے اجتماعات کے متوازی دوسرے اجتماعات بھی منعقد کئے جاتے رہے۔ بیانرس ورقیوں کے ذریعہ تبلیغی جماعت کے خلاف پروپگنڈہ کیا جاتا رہا۔ اس مرتبہ کسی گوشے سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی‘ خوشی اس بات کی ہوئی کہ جماعت اسلامی اور بعض دوسری جماعتوں کی جانب سے تبلیغی جماعت کے شرکاء کے لئے خیرمقدمی بیانرس بھی جگہ جگہ لگائے گئے تھے بلکہ میں نے اجتماع گاہ میں دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی دیکھا جو مواعظ اور بیانات سے مستفید ہورہے تھے۔ شایدیہ ملی اتحاد کا آغاز ہے۔لاکھوں کے اجتماع کی نگرانی کے لئے پولیس فورس نہ ہونے کے برابر تھی۔کیوں کہ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کا سوال ہی نہیں تھا۔ خود نوجوان بارکس سے لے کر پہاڑی شریف کے قریب اجتماع گاہ تک ہجوم، ٹریفک پر کنٹرول کررہے تھے۔ تین دن تک دن رات اِن نوجوانوں نے جس جذبہ کے ساتھ اجتماع کے شرکاء کے لئے خدمات انجام دیں اسے دیکھ کر حیرت بھی ہوئی‘ طمانیت بھی اور مسرت بھی۔ اس لئے کہ اس قوم میں ابھی ڈسپلن باقی ہے۔ خدمت خلق کا جذبہ برقرار ہے۔جس قوم کے نوجوانوں پر انتشار اور تخریب پسندی کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں‘ اُسی قوم کے نوجوانوں نے خدمت خلق، ڈسپلن، ٹریفک کنٹرول، انکساری، خوش اخلاقی کی بہترین مثال قائم کی۔ یہ تین دن کی خدمات اللہ تعالیٰ قبول کرے اور ان کی بقیہ زندگی میں بھی یہی جذبہ، یہی ڈسپلن قائم رکھے تو ایک بار پھر یہ قوم اپنے کھوئے ہوئے دور کو حاصل کرسکتی ہے۔اجتماع کی تیاریاں تو ایک طویل عرصہ سے جاری تھیں۔ جماعت سے وابستہ ارکان نے دامے درمے سخنے اللہ کی راہ میں جو خرچ کیا وہ ایک مثال ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔شہرہ آفاق ڈاکٹرس، انجینئرس، بلڈرس، کالج کے نوجوان سبھی کو اجتماع کی فکر تھی۔ وہ اس یقین کے ساتھ کام کررہے تھے کہ نہ صرف یہ اجتماع تاریخ ساز ہوگا بلکہ یہاں سے ایک پیغام سارے ہندوستان میں پہنچے گا۔ملی اتحاد ، اتفاق، بھائی چارگی، مروت، رواداری، انسانیت، تزکیہ نفس کا پیغام۔
تبلیغی جماعت کے اجتماعی کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہاں میڈیا کے داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ فوٹو گرافی پر پابندی عائد کی گئی۔ اگرچہ کہ ہر اخبار کا نمائندہ اجتماع گاہ میں موجود تھا۔ عام طور پر مسلمانوں کے اجتماعات میں میڈیا کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں میڈیا کی اہمیت ہے کیوں کہ میڈیا کی بدولت دنیا واقعی ایک عالمی گاؤں میں بدل چکی ہے۔ ہر خبر پلک جھپکنے سے پہلے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ اس کے باوجود تبلیغی جماعت نے الکٹرانک میڈیا اور اخبارات کے فوٹو گرافرس کو اجتماع گاہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ کیوں کہ جب کبھی کسی جلسے میں الکٹرانک میڈیا موجود ہوتا وہاں پیغام دب جاتا اور شخصیت اُبھر جاتی ہے۔کیمرے کی آنکھ میں سمانے کی کوشش میں شرکاء کی توجہ اصل مقصد سے ہٹ جاتی ہے۔ تبلیغی جماعت کا مقصد اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اس کے بندوں تک پہنچانا تھا اس کے لئے ہر قسم کے ریا، دکھاوے سے اجتناب کیا گیا۔حتیٰ کہ مواعظ اور بیانات سے پہلے واعظ یا مقررین کے نام تک کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جو بھی کہا گیا قرآن اور احادیث کی روشنی۔ بزرگان دین کے اقوال، ان کی حالات زندگی، ان کی دین اسلام کی ترویج اشات کیلئے خدمات کو پیش کیا گیا اور ان سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کی گئی۔ واعظ نے اپنے بیان میں بڑی اچھی بات کہی کہ ہندوستان کا دشمن صرف اور صرف شیطان ہے۔ باقی سب آدم کے اولاد ہیں۔ موجودہ حالات میں جب کہ مسلمانوں پر فرقہ پرستی کے الزامات ہیں‘ اس قسم کی باتوں سے دیگر اقوام اور ابنائے وطن کے پاس مثبت اور تعمیری پیغام پہنچتا ہے۔
ایسے ہی تعمیری اور مثبت انداز اور طریقہ کار کی بدولت تبلیغی جماعتیں نہ صرف ہندوستان کے گوشے گوشے میں بلکہ ساری دنیا میں دین اسلام کی تبلیغ کی ہے۔اس کے لئے انہیں مصیبتیں جھیلنی پڑیں۔ مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ جسے وہ سنت کی پیروی کا ایک جز مانتے ہیں۔ایک عرصہ تک منظم طریقہ سے اس کی مخالفت کی جاتی رہی۔ بدگمانیاں پیدا کی جاتی رہیں‘ اب آہستہ آہستہ یہ مخالفت ختم تو نہیں ہوئی اس کی شدت میں کمی ضرور آئی ہے۔ اگر مسلمانوں کے تمام مسالک کے ماننے والے ایک مشترکہ مقصد کے تحت ایک پلیٹ فارم پر متحدہوں ایک دوسرے کے اجتماعات میں مدعو کئے جاتے رہیں تو آپس میں کئی غلط فہمیاں، بدگمانیاں دور کی جاسکتی ہیں۔ اور ملی اتحاد کا نیا سورج طلوع ہوگا۔(

«
»

ملک نے عامر کو شہرت ‘تو عامر نے اپنی صلاحیتیں دی

یوٹیوب سرویس جن ملکوں میں پابندی(بلاک) لگائی گئی ہے وہاں کے لوگ بھی اب فکروخبر کے ویڈیوز سے استفادہ کرسکتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے