ہوئے تم دوست جس کے

مسلمانوں کی وفاداری اور وفا شعاری اسلام اور شریعت اسلامی کے ساتھ ہے، یہی کسوٹی ہے جو اس کسوٹی پر پورا اترااور جو زر کامل عیار پایا گیا مسلمان اسے نوازتے ہیں اسے نہال اور محبتوں سے مالامال کردیتے ہیں، مسلمان اسے محبت کا باج اور اپنی عقیدت کا خراج پیش کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ اور اس کسوٹی پر جو کھوٹا ثابت ہوا وہ نظروں سے گرجاتا ہے اور تنقید اور اعتراض کا ہدف بن جاتا ہے ۔
وہ سعودی عرب حرمین شریفین کی خدمت جس کا امتیاز تھا، وہ سعودی عرب حج اور عمرہ کرنے والوں کے لئے اپنے غیر معمولی انتظامات کیلئے مشہور تھا ، وہ سعودی عرب جس نے ملک میں امن وآمان کی مثال قائم کی تھی، وہ سعودی عرب جس نے صحیفہ آسمانی قرآن مجید کے لاکھوں نسخے چھاپے اور تقسیم کئے تھے، وہ سعودی عرب جس کی مدد سے دنیا کے کسی ملک کے مسلمان محروم نہیں رہے ، وہ سعودی عرب جس کی قابل تنقیداور مخالف شریعت ملوکیت اور موروثی نظام کے باوجود اس کے مجموعی طورپر خیر اور وسیلہ صلاح و فلاح ہونے کی وجہ سے لوگ نظام کی خرابی پر چشم پوشی سے کام لیتے رہے ، آج وہی سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کی نظروں میں گر گیا، بے اعتباراور بے وقار ہوگیا اور تنقیدوں کا نشانہ بن گیا اور لوگ جان گئے کہ سعودی عرب کی ساری خدمت منافقت تھی، لوگوں کی نظروں میں معزز بننے کے لئے تھی ، اور اپنے تاج وتخت کو باقی رکھنے کے لئے تھی اللہ کی خوشنودی کیلئے نہیں تھی۔
لوگ یہ سمجھ گئے کہ سعودی عرب کو اسلام نہیں اپنا تاج وتخت اور اقبال وبخت عزیز ہے، اسلام کا قیام نہیں اپنی حکومت کا استحکام عزیز ہے ، اگر اسے اسلام اور اسلام کی شریعت عزیز ہوتی تو دنیاکی تمام دینی تحریکات اسے عزیز ہوتی ، اور دنیا خوب جانتی ہے کہ عصر حاضر میں دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور اور مؤثر اسلامی تحریک اخوان المسلمین کی تحریک ہے ، جس کے مداح خود شاہ فیصل تھے، جس کے ثناخواں مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی تھے، جس کی معترف دنیا کی تمام دینی شخصیات تھیں ،جس کے بانی امام حسن البنا شہید تھے، جو خود شہید ہوئے اور جن کی تحریک نے وہ قربانیاں دی ہیں جن کی مثال آسانی سے نہیں دی جاسکتی ہے، جس کی سرکردہ شخصیتیں دار ورسن کی اور قید ومحن کی آزمأش سے گذریں اور جب اپنی ہمہ گیر مقبولیت کی وجہ سے یہ تحریک حسنی مبارک کے زوال کے بعد الکشن میں کامیاب ہو کر تخت اقتدار تک پہونچی تو امریکہ اور سعودی عرب کی سازش سے دوبارہ تختہ دار تک پہونچ گئی ۔اس تحریک کے کارکنوں نے ایک پوری داستان عزیمت اپنے خون سے رقم کی ہے ۔ سیکڑوں اخوانیوں کے قتل کا الزام جنرل سیسی کے سر پر تو ہے ہی ، سر محضر قتل نامہ پر دست خط سعودی عرب کے بھی ثبت ہیں کیونکہ اسی کی کوشش سے مصر میں خونیں عسکر ی انقلاب آیا ہے ۔ سعودی عرب نے اخوان پر تہمت لگاأی ہے اور اسے دعشٹ گر تنتظیم قرار دیا ہے اخوان کی تحریک کے قائدین شہادب کا شوق رکھتے ہیں ’’ شہادت ہے مقصود ومطلوب مؤمن‘‘ وہ جنت کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ ’’ جو اللہ کے راستہ میں قتل کئے جاتے ہیں تم انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں تمہارے رب کے نزدیک انہیں رزق ملتا ہے۔‘‘وہ اللہ کی نصرت پر کامل یقین رکھتے ہیں ( الا ان نصر اللہ قریب ) ۔ یہ نصرت کب آئے گی یہ صرف اللہ کو معلوم ہے، مسلمان صرف اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جد وجہد میں اپنی ساری زندگی کو خلوص کے ساتھ لگا دے اور اپنی آخرت کو کامیاب اور بامراد کرے ۔ اورجس کی آخرت سنور گئی وہی درحقیقت کامیاب ہوا ۔آخرکار مصر کی ظالم فوجی عدالت نے جو جنرل عبد الفتاح سیسی کی ماتحتی میں کام کر رہی ہے ۵۲۹ (پانچ سو انتیس ) اخوانی کارکنوں کو موت کی سزا دے ہی ڈالی ہے، اب یہ اخوانی قائدین جام شہادت نوش کرنے والے ہیں اور فزت برب الکعبہ( کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا ) کہنے والے ہیں 
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چا ہے لگا دو ڈر کیسا
جو جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
اخوان المسلمین کے معززرکن محمد مرسی انتخاب جیت کر جب ملک کے صدر بنے تو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ نے مجھے صدر منتخب کرکے اعزاز بخشا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے بہتر یابرتر ہوں بلکہ میں آپ جیسا ہی ایک فرد ہوں اگر میں سیدھی راہ پر چلوں تو میرے ساتھ تعاون کیجئے اور اگر میں غلطی کروں تو میری اصلاح کیجئے، آپ صرف اسی وقت تک میری اطاعت کرنے کے پابند ہیں جب تک میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا رہوں اور اگر میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں تو آپ بھی اطاعت کے پابند نہیں ہیں ۔ انہوں نے افتتاحی خطاب میں یہ بھی کہا اب مصر میں حکمرانوں کی حیثیت مصری عام کے خادموں کی سی ہوگی ، انہوں نے مصر کے تمام طبقوں کو عدل وانصاف کے ساتھ کام لینے کا یقین دلایا اور یہ کہا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں مردوں اور عورتوں کے درمیان انصاف کے معاملہ میں کوئی تمیز نہیں کی جائے گی ۔ صدر مرسی کے الفاظ تقریبا وہی ہیں، جن کا تذکرہ خلفاء راشدین کی تاریخ میں ملتا ہے ۔ڈاکٹر محمد مرسی نے امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسیٹی سے انجینیرنگ میں پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی، لیکن یہ اخوان المسلمین کی تربیت کا فیض تھا کہ صدر ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے خلفائے راشدین کی زبان استعمال کی ۔صدر مرسی نے صدر ہونے کے بعد فلسطین کے مئلہ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ، انہوں نے غزہ کے آہنی اقتصادی حصار کو ختم کیا انہوں نے رفح کا بائی پاس کھول دیا جو غزہ کوبیرونی دنیا سے ملاتا ہے ۔ صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد نئے سربراہ جنرل سیسی نے فوری طور رفح کا بائی پاس بند کرنے کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے غزہ اب پھر اقتصادی محاصرہ کی حالت میں ہے ، اسرائیل کی دیرینہ آرزو اب پوری ہورہی ہے، اس کے ارمانوں کی کلیاں کھل رہی ہیں ۔ معلوم ہو گیاکہ خادم الحرمین قطعا بیت القدس کی بازیابی کی آرزو اپنے دل میں نہیں رکھتے ہیں اس لئے کہ ان کی اخوان مخالف پالیسی سے اسرأیل کو طاقت اور تقویت پہونچ رہی ہے ۔بات تلخ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے خدمت حرمین کا استحقاق کھودیا ہے ۔ بقول اقبال 
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے 
جوان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
سعودی عرب جنرل سیسی کا دوست اوردلدار اورجنرل سیسی سعودی حکومت کا یار غار ہے ۔ سعودی عرب نہ صرف محمد مرسی کا تخت حکومت الٹنے کی سازش میں شریک رہاہے بلکہ صدر السیسی کی ہزاروں بلین ڈالر سے مدد بھی کی ہے ۔سعودی عرب کے دوست جنرل سیسی کے بارے میں یہ انکشاف ہوچکاہے کہ ان کی مان مراکشی نزاد یہودی خاتون تھیں۔ ملیکہ تیتانی نے ۹۵۳! میں جنرل سیسی کے والد سے شادی کی تھی اور ۹۵۴! میں عبد الفتاح سیسی کی ولادت ہوئی ۹۷۳! میں انہیں فوج میں بھرتی کیا گیا اور اس کے لئے انہوں نے مراکش کی شہریت سے دست برداری اختیار کی ۔ جنرل سیسی کے سگے ماموں عوری صباغ 1951 سے 1968 تک اسرأیل میں وزیرتعلیم وتربیت اور کئی عہدوں پرفائز رہے ۔ بہت سے عرب تجزیہ نگاروں نے جنرل سیسی کے یہودی ہونے پریقین کا اظہار کیا ہے ، موساد کی خفیہ رپورٹ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہودی لڑکیوں کو کہا جاتا تھا کہ عربوں سے شادیاں کریں اور اپنی اولاد کو سرکاری عہدوں میں بالخصوص فوج میں بھرتی کریں ،تاکہ وہ اسرأیل کے مفادات کا تحفظ کرسکیں ۔ بعض ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سابق وزیر دفاع جنرل سیسی کی جڑیں یہودیت سے وابستہ ہیں ۔ اور انہوں نے حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے اسرأیل سے مشاورت بھی کی تھی ۔ مصر کے عبوری صدر عدلی منصور کا تعلق بھی سبطی فرقہ سے ہے اور سبطی اپنے آپ کو عیسائیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔جنرل سیسی کے بارے میں یہ انکشافات بہت بعد میں ہوئے ورنہ ظاہر ہے محمد مرسی انہیں وزیر دفاع نہیں بناتے ۔ انکشافات میں یہ بات بھی آئی ہے کہ حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے شعلے جب آسمان سے باتیں کررہے تھے تو جنرل سیسی کو اندازہ ہوگیا کہ اب مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہوگی اس وقت جنرل سیسی نے ایک چال چلی اور اپنی بیوی کو شرعی پردہ کرانا شروع کیا اور اپنے دو بیٹوں کو حفظ قرآن کے لئے ایک مدرسہ میں داخل کرایا اور اسی کے ساتھ وہ یہ دعوی بھی کرتے رہے وہ اخوان المسلمین کے بانی امام حسن البناء کے شاگر رہ چکے ہیں۔ یہ ہیں جنرل عبد الفتاح سیسی سعودی عرب کے دوست اور دلبر جن کو خادم الحرمین نے اپنے سینہ سے لگایا ہے ۔ 

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے