ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ناظم جامعۃ الفیصل ،بجنور
ہر سال دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن انسانی حقوق کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں ۔یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یوروپ اور امریکہ انسانی حقوق کے بڑے محافظ ہیں ۔حالانکہ دنیا ان کے کارنامے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔اسلام کے خلاف جو محاذ کھولے گئے ہیں ان میں سے ایک محاذ یہ بھی ہے ۔انسانی حقوق کے نام پر اسلام کو مطعون کرنے اور مسلمانوں کو ظالم و سفاک ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے،عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، اسلام کی غلط تصویر پیش کی جارہی ہے،دہشت گردی Terrorism اور اسلام کو ہم معنیٰ قرار دیا جارہا ہے۔ حقوق انسانی کی پاسداری کا دم بھرنے والے ممالک خود حقوقِ انسانی کو سب سے زیادہ پامال کر رہے میں اور یہ حقوق حاصل کرنے والوں کی جد و جہد کو دہشت گردی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے موہوم خطرہ کے نام پر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر بربریت و جارحیت کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ تاریخ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال ہے جس نے ہلا کوو چنگیزاور ہٹلر کو بھی شرما دیا ہے۔ جب لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہا کر بھی ان کو روح کی تسکین حاصل نہ ہوئی تو ابو غریب کی جیل اور گوانتا نامو بے میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کر کے اپنی بھڑ اس نکالنے کی کوشش کی۔فلسطین اور غزہ کی تازہ جنگ جو سات اکتوبر 2023سے جاری ہے،اس میں انسانیت کو بے دریغ مارا جارہا ہے ۔غاصب اسرائیل کی فوجیں آسمان سے روزانہ ٹنوںبارود برسا رہی ہیں ،پورا علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے ۔سات ہزار سے زائد معصوم بچے موت کی گہری نیند سوگئے ہیں ،اسکول،اسپتال ،رفیوجی کیمپوں تک کو تباہ کردیا گیا ہے ۔لیکن حقوق انسانی کے علمبرادروں کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ امریکہ و یوروپ منصوبہ بند طریقہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے دہشت گردی کا رشتہ ان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسرائیل فلسطین میں ، روس چیچنیا میں اور امریکہ افغانستان و عراق میں حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں حقوق انسانی کے کمشنر لوئس آربور نے حقوق انسانی کی ایک تقریب کو خطاب کرتے ہوئے کئی سال پہلے کہاتھا:’’ آج حقوق انسانی معاہدہ of Human Rights) Declaration Universal) کوشدید خطرہ درپیش ہے اور اس معاہدہ کا مقصد فوت ہو رہا ہے۔‘‘ زبانی طور پر دنیا کے تمام بڑے لیڈرس کا بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوئی ہے۔آر لوئس کے اقرار کے بعد انسانی حقوق مزید پامال ہوئے ہیں۔
ظلم و بربریت کا یہ عالمی منظر نامہ ہے۔ ہمارے ملک کا منظر نامہ اس سے کم گھناؤنا نہیں ہے۔ یہاں فرقہ پرست تنظیمیں امن وسکون کو غارت کئے ہوئے ہیں ،نفرت و تعصب کی دیواریں روز بروز بلند تر ہوتی جارہی ہیں۔ فسادات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔1984 میں سکھ اقلیت کے ساتھ مظالم اور پونے دو لاکھ سکھوں کا قتل عام، تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی کوشش ، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی ہندوستان کی پیشانی پر بدنما داغ ہیں۔آئے دن ماب لنچنگ کے ذریعہ بے گناہوں کو مار دیا جاتا ہے ۔ہیٹ اسپیچ کے ذریعہ دلوں میں نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے ۔ملک میں اقلیتوں کے انسانی حقوق صرف آئین کی زینت بن کر رہ گئے ہیں ۔
وسائل کی عدم قلت کے باوجود30 کروڑ انسان روٹی کپڑے مکان سے محروم ہیں۔ 40کروڑ انسان تعلیم سے محروم ہیں ،6 کروڑ سے زیادہ بچے اب بھی اسکول نہیں جاتے ، 16 کروڑدلت انسانی عزت و شرف سے محروم ہیں۔
ہندوستان جہاں عورت کو دیوی کہا جاتا ہے۔ یہاں عورت ہمیشہ مظلوم رہی ہے۔ ماضی میں اگر اس کے شوہرکے مر جائے پر اسے زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ وہ شوہر کی چتا پرستی ہو جاتی۔ آج بھی ستی جیسی انسان سوز رسم کی بہت سے ہند و حمایت کرتے اور اسے مقدس مذہبی روایت قرار دیتے ہیں۔ عورت کو ذاتی ملکیت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ اسے وراثت میں کوئی حصہ نہ دیا جاتا۔ وہ بچپن میں باپ کی ، جوانی میں شوہر کی اور بڑھاپے میں اولاد کی داسی بن کررہتی۔ آزادیٔ نسواں کے نعروں اور تنظیموں کے باوجود آج بھی عورت اور اس کی نسوانیت غیرمحفوظ ہے، ہر32 منٹ پر Rape (زنا) کا ایک رجسٹر ڈ کیس پایا جاتا ہے۔ جب کہ غیر رجسٹرڈکیس کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ عزت ولاج کی وجہ سے پولیس یا عدالت کاسہارا نہیں لیتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان رجسٹرڈ واقعات میں 39 فیصد ایسے کیس ہوتے ہیں جن میں قرب ترین رشتہ دار یا پڑوسی ملوث ہوتے ہیں۔
ہر28 منٹ پر ایک عورت کو جلا کرمار دیا جاتا ہے۔ ہر دس منٹ پر ایک عورت کو زدوکوب کیا جاتا یا اسے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ ہر سال تقریباً15 ہزار سے زیادہ خواتین کو جہیز کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ننگی فلموں ، مصنوعات کے اشتہارات کے لئے عورتوں کی عریاں تصویروں نے عفت و حیا کو چاک چاک کر دیا ہے۔
عورتوں سے زیادہ بچے ظلم کا شکار ہیں ہر15 منٹ پر ایک بچہ اغوا (Kidnap) کرلیا جاتا ہے۔ ہر17منٹ پر ایک بچے کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اب بھی ایسے بازار موجود ہیں جہاں بچوں کو بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ 6 کروڑ 70 لاکھ بچوں نے ابھی تک اسکول نہیں دیکھا ہے۔ کروڑوں بچے ہوٹلوں، فیکٹریوں، کھیتوں اور گھروں میں مزدور بنا کربچپن کی نعمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں ان کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کو دیکھ کرشیطان بھی شرما جاتا ہے۔ بچوں کے سلسلہ میں سب سے زیادہ کر بناک صورت حال یہ ہے کہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعہ یہ معلوم کر لیا جاتا ہے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا بچہ لڑکا ہے یالڑکی ؟ اگر وہ لڑکی ہوتی ہے تو اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ شنیع فعل قتل انسان کے مترادف غیر اخلاقی جرم تو ہے ہی مگر اس سے زیادہ خطر ناک جنسی تناسب کا بڑھتا ہوا فرق ہے جو مستقبل میں بہت سے سماجی و معاشی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ صرف دہلی میں اس جنسی تناسب کے بڑھتے فرق کو ملاحظہ کر کے آپ خطرنا کی کا انداز ہ لگا سکتے ہیں۔ ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ میںشمال مغرب دہلی میں 854 لڑکیاں ہیں، جنوب مغرب دہلی میں845 لڑکیاں ، جنوب دہلی میں868 لڑکیاں ، شمال مشرق دہلی میں667 لڑکیاں ہیں۔ صوبہ پنجاب میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ میں800 لڑکیاں ہیں۔ گجرات میں یہ جنسی فرق اور بھی نمایاں ہے وہاں لڑکوں کی تعداد7532404 ہے جبکہ لڑکیوں کی تعداد صرف4000148 ہے۔
ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہوا تب بھی ہزاروں سال سے ظلم و زیادتی سہنے والی بعض قوموں کا کوئی پرسان حال نہ رہا ،پسماندہ اور دلت و رسوائی سہتے رہے۔مظلوموں ،آدیواسیوں اور دلتوں کی شب تاریک سحر آشنا نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر امبیڈ کر اور گوکھلے کی کوششوں کے باوجود ان کی حالت اب بھی نہایت خستہ اور قابل رحم ہے۔ ایک سال کے اندر پولیس کے ذریعہ دلتوں پر مظالم کے9925 کیس رجسٹرڈ کئے گئے ،1617 قتل کے ،1259 مار پیٹ اور ایذا رسانی کے 2824 زنا کے ،31376 دیگر جرائم کے۔1996 میں گجرات کے 69 گاؤں کاسروے کیا گیا تو ان میں46 گاؤں ایسے پائے گئے جہاں دلتوں کے لئے پانی کے کنویں الگ تھے۔1992-93میں کرناٹک کے 52 گاؤں کا سروے کیا گیا تو80 فیصد دلت کا ہوٹل میںداخلہ ممنوع تھا۔آج بھی ایک برہمن دلت کے ہاتھ سے پانی پینا گوارہ نہیں کرتا ۔سرکاری محکمہ جات میں اگر آفیسر کوئی دلت ذات کا آجاتا ہے تو اس کے ماتحت اعلیٰ ذات کے افراد اس کو سلام بھی بادل ناخواستہ کرتے ہیں ۔
اس مختصر منظر نامہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حقوق انسانی کی کس قدر پامالی ہو رہی ہے۔ افسوس اس پر ہے کہ حقوق انسانی کی پامالی کرنے والے یہ افراد اور گروہ آئے دن اسلام پر حملہ کرتے رہتے ہیں کہ اسلام حقوق کی پاسداری نہیں کر سکتا۔حالانکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرایا ۔اس نے اپنے ماننے والوں کو انسانوں کی عزت و احترام کاسبق دیا ۔تکریم انسانیت کا یہ درس تمام انسانیت کے لیے عام ہے ۔چاہے وہ شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم ،وہ عالم ہو یا جاہل ،وہ امیر ہو یا غریب وہ قابل تکریم ہے صرف اس لیے کہ وہ انسان ہے ۔اسلام نے بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی بشارت دی ،اسلام نے رزق کے خوف سے قتل اولاد کو حرام قرار دیا ،خواتین کو مردوں کے برابر اجر کی یقین دہانی کرائی ۔عورت کو معاشی ضروریات کے حصول سے آزاد کرکے اسے سکون و راحت کی زندگی بسر کرنے کی آزادی دی ۔دوسری طرف اس کو تجارت کرنے ،مملکت کی خدمت کرنے پر بھی کوئی قد غن نہیں لگایا ۔اسلام نے صرف انسانوں کے حقوق ہی نہیں بلکہ حیوانات و نباتات تک کے حقوق متعین و محفوظ کیے ۔آج بھی مسلم معاشرہ خواہ کتنا بھی دین سے دور ہوگیا لیکن ان کے یہاں بزرگوں کو ’’ وردھا آشرم ‘‘ نہیں بھیجا جاتا ،ایک رکشہ پولر غریب انسان بھی مادر رحم میں بچوں کے قتل کا مرتکب نہیں ہوتا ۔
کاش حقوق انسانی کے علمبردار اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر دیکھتے تو انھیں غزہ کے معصوم بچوں کا لہو دکھائی دیتا ،ان کی دل دوز چیخیں سنائی دیتیں ،ان کے بے جان لاشے نظر آتے ۔چونکہ عالمی انسانی حقوق کی زیادہ تر تنظیمیں عیسائی اور یہودیوں کے ماتحت ہیں ،وہ بنائی ہی اس لیے گئی ہیں کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے حقوق محفوظ کیے جاسکیں ،ان کے نزدیک دوسری قومیں اور خاص طور پر مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہیں ،انھیں ان کے حقوق کے تحفظ کا خیال کیوں کر آئے گا ؟
جواب دیں