تحریر :جاوید اختر بھارتی نظام چلانے کے لئے ہر دور میں کسی نہ کسی کے سر ذمہ داری عائد رہی ہے چاہے گھر چلانا ہو یا نگر، چاہے مدارس چلانا ہو یا اسکول و کالج اسے چلانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل عمل میں آتی ہے جو چند افراد پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس […]
حکومت، سیاست اور مذہب تینوں میں کافی گہرا تعلق ہے!
تحریر :جاوید اختر بھارتی
نظام چلانے کے لئے ہر دور میں کسی نہ کسی کے سر ذمہ داری عائد رہی ہے چاہے گھر چلانا ہو یا نگر، چاہے مدارس چلانا ہو یا اسکول و کالج اسے چلانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل عمل میں آتی ہے جو چند افراد پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس میں ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے سربراہی حاصل ہوتی ہے اور وہ سربراہ اپنی مجلس عاملہ کے سامنے بھی جوابدہ ہوتا ہے اور عوام کے سامنے بھی جوابدہ ہوتا ہے مجلس عاملہ کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سربراہ کی بات مانیں اور وقت پڑنے پر کارآمد مشورہ دیں ساتھ ہی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کی خود بھی قدر کریں اور عوام کے جذبات سے اپنے سربراہ کو بھی باخبر کریں اور چاہے کوئی بھی ادارہ ہو، کوئی بھی کمیٹی ہو اسے چلانے کے لئے دستور مرتب کئے جاتے ہیں اور اسی دستور کی روشنی میں فیصلے لیے جاتے ہیں اسی طرح ملک چلانے کے لیے بھی دستور بنائے جاتے ہیں آئین بنائے جاتے ہیں جسے اصول اور ضابطہ کہا جاتا ہے اور دستور ملک کی روح کی حیثیت رکھتا ہے ملک کے دستور کو بچانا حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اور عوام کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے کہ جب دستور پر آنچ آئے گی تو ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگا اور جب افراتفری کا ماحول پیدا ہوگا تو ملک کی معیشت پر برا اثر پڑے گا ملک کمزور ہوگا اور ملک کی خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ حکومت عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرے اور سب کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے اور جو ملک کا سربراہ ہو اسے ہمیشہ اس بات کا احساس ہونا چاہئے میرے کسی بھی فیصلے سے میرے ہی ملک کی عوام کو کبھی ٹھیس نہ پہنچے خود میرے ہی فیصلے سے میری عوام ناراض نہ ہوجائے یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ حکومت کی اصل روح عوام ہے جب یہ کسی کو احساس رہے گا تو کوئی بھی ملک کا سربراہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال نہیں کرے گا اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھائے گا لیکن آج کے حکمرانوں کے نظریئے اور روئیے کو دیکھ کر بیحد افسوس ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو بڑی شان والا سمجھتے ہیں اور غریبوں و کمزوروں سے بہت زیادہ دوری کا فاصلہ رکھتے ہیں بلکہ غریبوں سے ملنا جلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں بنگلے، کپڑے، زاد سفر بڑے عالیشان ہوتے ہیں خود جس کے کاندھے پر عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے وہ خود اپنی حفاظت کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، ہزاروں ہزار فٹ کی بلندی پر جہازوں میں سفر کرتے ہیں اور اس دوران بھی انہیں کھانا پانی وہ بھی خصوصی حیثیت سے انہیں میسر ہوتا ہے عوام بھوک سے تلملائے، فٹ پاتھ پر سوجائے، سردی کی زد میں آکر مرجائے کوئی فرق نہیں پڑتا بس اپنی شان وشوکت اپنا جلوہ قائم رہے یعنی اپنا پیٹ بھرا تو سب کا پیٹ بھرا اور اب کے حکمرانوں کی تو یہ سوچ ہے کہ ہم ہی سب سے بڑے ہیں اور سب سے قابل ہیں اس لئے ہم اس منصب پر فائز ہیں ہم جو کہیں گے وہ صحیح ہے اور وہی صحیح ہوگا اسی کو تسلیم کرنا ہوگا اور نہ تسلیم کرنے کی صورت میں تمہیں ظلم و ستم کا نشانہ بننا ہوگا،، اور جو حکمران اس نتیجے پر پہنچ جائے تو سمجھو وہ مغرور ہوگیا ہے اسے اپنے عہدے پر گھمنڈ ہو گیا ہے اور جسے اپنے منصب پر گھمنڈ ہوجائے تو وہ اپنے منصب کے وقار کو سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے گویا خود اسی کی ذات سے منصب کا وقار مجروح ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو بالخصوص ایسے حکمراں کو اپنی رعایا کی فکر نہیں ہوتی سرکاری خزانے کو پانی کی طرح بہانے میں مصروف ہوجاتا ہے ہر سہولیات کا فائدہ سب سے پہلے خود اٹھانے کی اور اس کے بعد اپنے خاندان اور اپنے قریبی لوگوں کو فائدہ پہنچا نیکی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ مجھ سے سوال کرنے والا کوئی نہیں جبکہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیرالمومنین ہیں یعنی گورنروں کے گورنر ہیں اور انہیں کے دور خلافت میں جنگ جلولہ ہوتی ہے اسلامی فوجیوں کا عظیم الشان لشکر رب کا قرآن سینے سے لگائے ہوئے اور نبی کے فرمان سے دلوں کو سجائے ہوئے نعرہ تکبیر کی فلک شگاف صدائیں بلند کرتے ہوئے روانہ ہوتا ہے جنگ میں اسلامی لشکر کو شاندار فتح حاصل ہوتی ہے بے شمار مال غنیمت ہاتھ لگتا ہے یہاں تک کہ چالیس ہزار بکریاں بھی ہاتھ لگتی ہیں سارے سامان کے علاوہ فکر اس بات کی ہوئی کہ ان چالیس ہزار بکریوں کا کیا ہوگا تو اس جنگ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ بن عمر بھی شامل تھے انہوں نے چالیس ہزار دینار میں بکریوں کو خرید لیا اور ایک آدمی کو ذمہ داری دیدی مدینہ منورہ پہنچا نے کی جب چالیس ہزار بکریاں مدینہ پہنچتی ہیں تو حضرت عمر کی نگاہ ان بکریوں پر پڑتی ہے پوچھتے ہیں کہ یہ بکریاں کس کی ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ آپ کے بیٹے عبد اللہ کی ہیں تو آپ نے اپنے بیٹے کو بلاکر پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی بولی لگی تھی میں نے چالیس ہزار دینار کی بولی لگائی تو مجھے چالیس ہزار دینار میں یہ بکریاں دیدی گئیں تو قربان جائیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بیٹے تم امیرالمومنین کے بیٹے ہو ہوسکتا ہے کہ کسی کی ہمت نہ ہوئی ہو تم سے زیادہ بولی لگانے کی اور تمہیں اتنی رقم میں بکریاں مل گئیں لیکن یہ انصاف نہیں ہے یہ امانت میں خیانت ہے کل کوئی یہ نہ کہے کہ عبداللہ بن عمر اگر امیرالمومنین کا بیٹا نہ ہوتا تو بکریاں اور مہنگی بک سکتی تھیں اس لئے تمہارا باپ اسے بازار میں لے جائے گا پھر سے بولی لگائی جائے گی پھر کیا تھا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق بکریوں کو لیکر بازار جاتے ہیں بولی لگنا شروع ہو تی ہے آخری بولی چار لاکھ دینار کی لگتی ہے اتنی رقم لیکر بکریاں بولی لگانے والے کے حوالے کردی جاتی ہیں اور حضرت عمر اپنے بیٹے کو بلا کر چالیس ہزار دینار واپس دیکر تین لاکھ ساٹھ ہزار دینار بیت المال میں جمع کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ رقم مدینہ کی تعمیر و ترقی میں کام آئے گی اور آج حال یہ ہے کہ کوئی اسکیم کوئی یوجنا وجود میں آتی ہے تو پہلے کمیشن کا چکر ہوتا ہے اسکیم کامیاب ہو کہ نہ ہو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا حضرت عمر کا یہ کارنامہ آج کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے، سبق آموز بھی ہے، مشعل راہ بھی ہے سرکاری عہدوں پر فائز ہوکر عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیش کرنے والوں دیکھو حکومت ایسے کی جاتی ہے آج حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقام یہ ہے کہ اگر طریقہ حکومت، طریقہ عدالت، طریقہ سیاست بیان کیا جائے اور اس موضوع میں امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ بیان بھی نامکمل ہے اور وہ موضوع بھی نامکمل ہے آج حکومت کے نشے میں چور حکمرانوں کو سوچنا چاہئے اور حضرت عمر ابن عبد العزیز کے دور خلافت پر غور کرنا چاہئے کہ اپنے غلام کو کپڑا خریدنے کے لئے بازار بھیجتے ہیں غلام آٹھ درہم کا کپڑا خرید کر لاتا ہے تو عمر ابن عبد العزيز کپڑا واپس کرواکر چھ درہم کا منگواتے ہیں اور دو درہم بیت المال میں جمع کراتے ہیں کل کے حکمراں اس طرح بیت المال کو فروغ دیتے تھے اور عوام کی خوشحالی کیلئے خود تکلیفیں برداشت کیا کرتے تھے اور یہ تعلیم و تربیت انہیں رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئی تھی آج مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب اور سیاست دونوں کا ایک دوسرے سے کافی گہرا تعلق ہے خود رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی جب ولادت ہوئی تو آپ سجدے میں سر رکھ کر صبح قیامت تک کے لئے پیغام دیدیا کہ جس نے پیدا کیا اس کی عبادت اور اس کا شکر ادا کرنا مذہب ہے اور دوسروں کو یہ پیغام دینا کہ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرو یہ سیاست ہے تو معلوم یہ ہوا کہ سیاست پوری طرح ایمانداری، امانتداری اور دیا نتداری کے ساتھ کرنا لازمی ہے اور جب کوئی بھی حکمراں اس راہ پر چلے گا تو وہ انصاف پرست ہوگا اور اس کا بول بالا ہوگا کیونکہ سیاست مکر و فریب کا نام نہیں ہے بلکہ حکمت عملی کا نام سیاست ہے لائحۂ عمل کا نام سیاست ہے ملک کی تعمیر و ترقی کا نام سیاست ہے، امن و سلامتی کا نام سیاست ہے، خوشحالی، انصاف اور مساوات کا نام سیاست ہے –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 15/ فروری 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں