حکومت کا بجٹ اور بُنکروں کا رونا!!

   تحریر: جاوید اختر بھارتی
 

حال ہی میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا برسر اقتدار پارٹی اور اس کی معاون پارٹیوں نے کامیاب بجٹ قرار دیا تو اپوزیشن پارٹیوں نے مایوس کن قرار دیتے ہوئے مختلف الزامات بھی لگائے بجٹ میں کسانوں اور مزدوروں کا ذکر کیا گیا لیکن بنکروں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جبکہ ملک کی دو آنکھیں ہیں بنکر اور کسان یعنی ملک کی دو صنعت ایک زراعت اور دوسری کپڑا یہ دونوں ریڑھ کی ہڈی ہیں اور موجودہ وقت میں دونوں صنعتیں لڑکھڑا رہی ہیں بنکر کی صنعت کا یہ حال ہے کہ غریب اور چھوٹا بنکر آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے تو کسان زرعی قوانین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہا ہے مگر حکومت کو کسانوں کی یاد بجٹ پیش کرنے کے دوران آئی یہ الگ بات ہے کہ حکومت کسانوں کے مطالبات کو مانے گی کہ نہیں لیکن بنکروں کا بجٹ پیش کرنے کے دوران ایک سرے سے نام ہی نہیں لیا اور  یہ حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت نے بنکروں کے ساتھ ناانصافی کی ہے بنکروں کے مسائل کے ساتھ ساتھ خود بنکروں کو ہی نظر انداز کیا ہے لیکن بنکروں کو بھی کچھ سوچنا چاہیے کہ آخر حکومت ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتی ہے اب ایسے کام نہیں چلنے والا ہے کہ حکومت بجٹ پیش کرے اور بنکروں کے لئے کوئی پالیسی تیار نہ کرے اور ایوان میں بنکروں کا ذکر تک نہ کرے تو رسمی طور پر بنکر بیان بازی کرکے تسلی کرلے کہ حکومت نے بجٹ میں بنکروں کو کچھ بھی نہیں دیا بلکہ بنکروں کو سبق حاصل کرنے کا آج سب سے اچھا موقع ہے اور آپسی اختلافات کو بھلا کر اس پہلو پر غور کرے کہ آج ملک کا کسان جس طرح لام بند ہے متحد و متحرک ہے کیا اس کا چوتھائی حصہ بھی بنکروں کے اندر اتحاد، اتفاق اور سیاسی و سماجی شعور ہے؟ کسان تحریک میں حکومت پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور جب بنکر تحریک چلتی ہے تو خود بنکر ہی اس میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور پھوٹ ڈال کر ہی وہ چین کی سانس لیتا ہے ہر سال بجٹ پیش ہوتا ہے اور ہر سال بنکر رونا روتا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں بنکروں کو کچھ بھی نہیں دیا جبکہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک میں جمہوری نظام قائم ہے اور جمہوریت میں رونا رونے سے کچھ نہیں ملتا بلکہ سیاسی و سماجی بیداری سے سب کچھ ملتا ہے کیا بیس سال کے دوران بنکروں نے دلی میں کوئی تحریک چلائی ہے کبھی پارلیمنٹ کے سامنے کوئی مظاہرہ کیا ہے بالکل نہیں آخر کیوں،، اس لئے کہ بنکروں کا کوئی نمائندہ نہیں ہے اور آل انڈیا پیمانے کی کوئی بنکر تنظیم بھی نہیں ہے تو انفرادی طور پر پہچان بنانے سے ناشتہ پانی ہی مل سکتا ہے سرکاری سہولیات نہیں مل سکتیں اور دلال ہونے کا لیبل لگ سکتا ہے اور دلالی چمک سکتی ہے لیکن سماج کا بھلا نہیں ہوسکتا-
اترپردیش میں سماجواد پارٹی کی حکومت میں وزیر رہے احمد حسن نے پاس بک کی شکل میں بنکروں کو ایک سہولت دلائی تو بنکروں نے ان کا حوصلہ کتنا بڑھایا ان کا قد اونچا کرنے میں بنکروں نے کون سا کردار ادا کیا؟ یہ بہت سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کسانوں کے لیڈر مہیندر سنگھ ٹکیت دنیا سے چلے گئے تو ان کے بیٹے راکیش  ٹکیت کے ساتھ ملک کا کسان کھڑا ہے، نعرہ لگارہا ہے، ان کا حوصلہ بڑھا رہا ہے، قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے اور اپنی یکجہتی کا ثبوت پیش کررہا ہے راکیش ٹکیت کی آنکھوں سے آنسو نکلتا دیکھ کر کسان بیچین ہوگیا کیونکہ کسان راکیش ٹکیت کو اپنا سماجی رہنما مانتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ سردی، بھوک، پیاس سب کچھ برداشت کررہے ہیں اور ایک آواز ہوکر زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں اور عبد القیوم انصاری دنیا سے چلے گئے تو آج بنکر سماج جانتا ہی نہیں کہ عبد القیوم انصاری کون تھے، کہاں کے تھے،، تو جو سماج اپنے لیڈر کو بھلادے اور پھر بھی یہ امید رکھے کہ گھر بیٹھے ہمیں ساری سرکاری سہولیات فراہم ہو جائے تو یہ مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے اور سچائی یہی ہے کہ بنکروں کی گھریلو صنعت آج لڑکھڑا رہی ہے اور غریب مزدور بنکر آج مسائل سے گھرا ہوا ہے تو جتنی حکومت ذمہ دار ہے اتنا ہی خود بنکر بھی اپنی بربادی کا ذمہ دار ہے عام طور پر جب سیاسی پارٹیوں کا اسٹیج لگتا ہے تب بھی اس اسٹیج سے بنکروں کا ذکر نہیں کیا جاتا ہاں اس موقع پر کوئی بنکر کارکن موجود ہوتا ہے تو بنکروں کا نام لے لیا جاتا ہے یا کہ بنکروں کی بستی میں جب سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ ہوتی ہے تو وہاں نام لیا جاتا ہے تاکہ بنکروں کو کچھ تسلی ہوجائے اور بدلے میں بنکروں کا ووٹ حاصل ہوجائے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ بنکر کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور بنکر کو ہی اس کا چیرمین بنایا جائے اور فرضی طور پر جتنی بھی بنکر سوسائیٹیاں چل رہی ہیں سب کو پہلے ایک سرے سے تحلیل کیا جائے اور بنکر سوسائٹی کے نام پر جو بھی رقمیں اب تک جاری کی گئی ہیں سب کی جانچ کی جائے تاکہ بے ایمانی کا پردہ فاش ہوسکے اور بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکے،،  مہمان بلاکر گاندھی جی کا چرخہ تو دکھا دیا گیا لیکن اس چرخے سے جو غریب محنت کش مزدور بنکر طبقہ جڑا ہوا ہے اس کی حالت آج اتنی خراب ہوچکی ہے کہ ناقابل بیان ہے چھوٹا بنکر دن پر دن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے گنبے کی کفالت اس کے لیے مشکل ترین مسئلہ بنتا جا رہا ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے، احساس کمتری کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور بڑے لوگ دن پر دن بڑے ہوتے جا رہے ہیں آخر حکومت کی یہ کیسی پالیسی ہے کہ غریبوں کا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے آج غریب بنکروں کی حالت یہ ہے کہ بیماری کی حالت میں وہ اپنا علاج تک نہیں کراپاتا کیونکہ اب علاج اور ہاسپٹل بھی بہت مہنگے ہوچکے ہیں کل تک نبض پکڑ کر مرض کی جانکاری حاصل کی جاتی تھی اور آج نبض پکڑ کر مالی حالت کی جانکاری حاصل کی جاتی ہے عام طور پر دیہی علاقوں میں سرکاری اسپتالوں کا حال یہ ہے کہ بس چہار دیواری ہے، ڈاکٹروں کو بیٹھنے کے لئے کرسی ہے باقی کچھ نہیں ملتا آخر کیسے غریب شخص اپنا علاج کرائے گا جبکہ بجلی، پانی، سڑک، روٹی کپڑا اور مکان کے بعد دوا، علاج اور بیماری کا مسئلہ بھی بنیادی مسئلہ ہے اور بیماری نہ تو ذات برادری دیکھ تی ہے اور نہ ہی امیر غریب دیکھتی ہے مگر ہاں بڑے لوگوں کو علاج کے لیے آسانی ہے وہ بڑے بڑے اور اونچے اونچے اسپتالوں میں اپنا علاج کرالیتے ہیں اور غریبوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ گھر پر ہی بستر پر پڑے پڑے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں جہاں تک بات غریب بنکروں کی ہے تو خود وزیراعظم نریندر مودی جی کو اس بات کا یقین اور احساس ہونا چاہیے کہ کہ جو ان کا آبائی صوبہ گجرات ہے وہاں ایک ایک شخص کے پاس کئی کئی سو پاور لوم ہیں اور جو ان کا پارلیمانی علاقہ وہاں کثرت سے ایک ایک پاور لوم سے کئی کئی لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے اور یہی حال پورے اترپردیش کے بنکروں کا ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بنکروں کی گھریلو صنعت کے فروغ کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور غریب بنکروں کی فلاح و بہبود کے لئے ایسی پالیسی تیار کی جائے کہ اس کا فائدہ کسی دلال اور سرمایہ دار کے ذریعے نہیں بلکہ سیدھے طور پر غریب بنکروں کو ملے تاکہ غریب بنکروں کا مستقبل روشن ہوسکے –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

06فروری2021

 

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے