حکومت کے پاس نہ کوئی وژن ہے نہ کوئی پلان

  نواب علی اختر

ہندوستان سمیت تقریباً پوری دنیا میں جو طاعون پھیلا ہوا، وہ بڑھتا ہی جارہا ہے اور اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان حالات سے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تقریباً دوسرا سب سے بڑا ملک بغیر حکمران کے چل رہا ہے۔ کیونکہ محض 4 گھنٹے میں لاک ڈاؤن کرنے والے چند لوگوں پرمشتمل حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں، ایک ایڈوائزری کے بعد دوسری ایڈوائزری آجاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ حکمران کے کردار میں ہیں ان کی عقلوں پر پتھر پڑ چکے ہیں- کل ملا کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی زیر قیادت مرکز کی مودی حکومت اس وباء پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ان کے پاس تدابیر کرنے کے دعوے ہیں، انتظامات کے کھوکھلے دعوے ہیں، لیکن عوام کو دن بہ دن مشکلات سے ہو کر گزرنا پڑ رہا ہے۔

ہندوستان میں کورونا کی وجہ سے لاگو کیا گیا لاک ڈاؤن دنیا میں سب سے طویل مدت کا لاک ڈاؤن ہے۔ گزشتہ 60 دنوں سے ملک کا ہر شہری لاک ڈاؤن کی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔ اس دوران بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ صرف اپریل میں ہی 2 کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہوئے ہیں۔ حکومت کے پاس مہاجر مزدوروں کا ڈیٹا نہیں ہے۔ حکومت کے پاس صرف اتنا ریکارڈ ہے کہ 28 لاکھ لوگوں کی مدد کی۔ جب کہ یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ وزیر اعظم کیئرس فنڈ سے مزدوروں کو کتنا پیسہ دیا گیا۔ دنیا بھر میں لیبرمحکمے ہیں اور ہر ملک کا محکمہ اپنے لوگوں کی نوکری اور بیروزگاری کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس ہفتے کتنے لوگوں کو نوکری ملی ہے، کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں لیکن ہندوستان کا محکمہ لیبرخود سے یہ نہیں بتاتا کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔

سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم ای آئی) کے تازہ سروے کے مطابق اپریل میں 12 کروڑ 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ان کی نوکری گئی ہے، ان کا کام چھن گیا ہے۔ 24 مئی تک 10 کروڑ 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ ان گھروں میں کتنی مایوسی ہوگی، گھر خاندان پر کتنا برا ذہنی دباؤ پڑ رہا ہوگا۔ جس ملک میں 22 کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ہوں وہاں میڈیا کی خاموشی سینکڑوں سوال کھڑے کرتی ہے- مسئلہ یہ ہے کہ طویل عرصہ تک دوسرے علاقوں میں بھی کام ملنے کا امکان کم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں نوکری گئی تو وہاں مل جائے گی۔ مگر ان سے ہمارے نام نہاد حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں موج لیڈروں کی رہے گی، وہ مسائل کا چارہ پھینکیں گے اور عوام غصہ میں کبھی ادھر تو کبھی ادھر ہوتے رہیں گے۔

گزشتہ دنوں ہم نے دیکھا کہ مزدوروں کو ان کے گھر لے جانے والی ٹرینیں بغیر نیوی گیشن کے چل رہی ہیں جس سے مزدوروں کو بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کم و بیش حکومت کا بھی یہی حال ہے حکومت کے پاس نہ کوئی وژن ہے نا کوئی پلان، صرف ایک کے بعد ایک قدم ہوا میں اٹھائے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ 11 سال میں ملک کی جی ڈی پی سب سے نچلی 4.2 فیصد پر پہنچ گئی ہے اور آخری سہ ماہی کی شرح 3.1 فیصد پہنچ گئی لیکن حکومت کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے اس کے لیے کورونا کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ حکومت اگر ایمانداری سے قوت اراداری کا مظاہرہ کرتی تو اس صورت حال کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر سکتی تھی لیکن حکومت کے بغیر سوچے سمجھے لئے گئے فیصلوں نے ملک کو اقتصادی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ وہیں دوسری طرف ریلوے پروٹیکشن فورس ( آر پی ایف) کے مطابق حکومت کے ذریعہ چلائی گئی ان ورکرز اسپیشل ٹرینوں میں 80 مزدور اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

مزدوروں کے لئے فراہم کرائی گئی ٹرینوں میں نہ پانی کی سہولت ہے نا کھانے کی اور بغیر نیوی گیشن کے چل رہی ٹرینیں وقت کی حد سے زیادہ دیر سے اپنی منزل تک پہنچ رہی ہیں۔ ایسا گزشتہ 160 سال میں بھی نہیں ہوا جب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ حکومت کو چاہیے تھا کی کورونا بحران میں لاک ڈاؤن کو صحیح طور سے لاگو کرتے، لیکن حکومت کے پاس کوئی پلان دکھائی نہیں دے رہا ہے جس کا خمیازہ ملک اور عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ وقت سے ملک لاک ڈاؤن ہے لیکن کورونا کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں لگتا ہے کہ آنے والے حالات اور بھی خوفناک ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں خود اپنی حفاظت کریں حکومت کے بھروسے بیٹھے رہنے سے حالات سدھرتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

31مئی 2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

چند خوش گوار یادیں : مولانا شاہد صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ

ارباب مدارس اور ان کے ناقدین سے کچھ گزارشات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے