مودی صاحب ان کے معاملہ میں جیسے معمولی الفاظ استعمال کرکے انہیں ہلکی سی ایک واردات ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیںیہ ان کی بھول ہے۔ حیرت ہے کہ انہیں یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ جسے وہ ہندو مسلمانوں کی باہمی لڑائی کہہ کر پتلی گلی سے بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں وہ تو بہار کے ہر ووٹر کی زبان پر پہلے دن سے چڑھا ہوا ہے۔
مسلمانوں پر یک طرفہ حملہ کی کہانی کے بعد شیوسینا نے پھر وہ کر دکھایا جس کے لئے وہ برسوں سے قابل نفرت سمجھی جارہی ہے۔ ممبئی کے نہرو سینٹر میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی ایک کتاب کی رسم اجراء ہونے والی تھی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے وہی راستہ صحیح ہے جو شری اٹل بہاری باجپئی نے اختیار کیا تھا۔ رسم اجراء کا پروگرام آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے صدر سدھیر کلکرنی کے اہتمام میں ہونے والا تھا۔ کلکرنی صاحب وہ ہیں جو اٹل بہاری باجپئی اور ایل کے اڈوانی کی تقاریر لکھا کرتے تھے۔ وہ ایک ممتاز دانشور اور سیاسی لیڈر ہیں۔ شیوسینا کے بدنام لیڈروں نے جیسے چند دن پہلے پاکستان کے گلوکار غلام علی کا پروگرام میں دہشت گردی کی دھمکیاں دے کر اسے منسوخ کرادیا تھا اس طرح ان کے الفاظ میں انہوں نے شری کلکرنی کو بھی آرڈر دیا تھا کہ وہ پاکستانی لیڈر کی کتاب کی رسم اجراء نہ کرائیں۔ لیکن کلکرنی شخصیت کے اعتبار سے شیوسینا کے دہشت گردوں سے اپنے کو بہت بڑا سمجھتے تھے اور انہیں خیال تھا کہ حکومت بی جے پی کی ہے اور محمود قصوری صاحب حکومت کے مہمان ہیں اس لئے یہ پروگرام انہوں نے منسوخ نہیں کیا۔
شری کلکرنی پروگرام میں شرکت کے لئے گاڑی سے جارہے تھے، ان کا بیان ہے کہ انہیں دس پندرہ غنڈوں نے روکا اور ان کے سر پر ایک ڈبہ کالی روشنائی کا بھرا ہوا اُلٹ دیا جس سے وہ سر، چہرے اور لباس سے کالے بھوت نظر آنے لگے۔ مسٹر کلکرنی اگر کم درجہ کے آدمی ہوتے تو وہ فوراً واپس جاتے اور نہا دھوکر کسی دوسرے راستے سے پھر پروگرام میں شریک ہوجاتے۔ لیکن وہ اسی حالت میں بھوت بنے ہوئے پروگرام میں پہونچے اور مسٹر قصوری کے برابر میں بیٹھ گئے شری کلکرنی کی یہ شکل ہر چینل پر پوری دنیا کو دکھائی جانے لگی اور ریاستی حکومت نے اس پروگرام کی حفاظت کے لئے پولیس چھاؤنی بنا دیا۔
شیوسینا کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کانگریس کے اقتدار کے زمانے میں بال ٹھاکرے نام کے ایک کارٹونسٹ نے جب دہشت گرد لیڈر بن کر پہلے مسلمانوں پر حملے کرائے اور ان کا رشتہ اَورَنگ زیب سے ملاکر انہیں شیواجی مرہٹہ کی دھرتی سے باہر نکالنے کی مہم چھیڑی تب تو کانگریسی حکمراں یہ سوچ کر خاموش رہے کہ وہ مسلمانوں کی حمایت میں بول کر مرہٹوں کو کیوں مخالف بنائیں۔ پھر ٹھاکرے نے اس زمانہ کے مدراس اور آج کے تمل ناڈو کے لنگی پہننے والوں کو نشانہ بنایا اور لنگی بھگاؤ کا نعرہ دے کر خوب خوب غنڈہ گردی کرائی۔ اس کے بعد وہ اُترپردیش اور بہار کے غریب مزدوروں پر ٹوٹ پڑے اور اُتر باسیوں کو نکالو کا نعرہ دے دیا۔ جس کا مظاہرہ ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے اور بھتیجے بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ تو 1990 ء سے چلا آرہا ہے کہ پاکستان کے کھلاڑی پاکستان کے آرٹسٹ یا وہاں کے پہلوان کوئی ممبئی میں پروگرام نہیں کرے گا اور انہوں نے نہیں ہونے دیا۔
نہرو خاندان کو صرف اس سے دلچسپی تھی کہ ملک پر ان کی حکومت رہے۔ صوبوں میں ہونے والی انتہائی خطرناک حرکتوں میں انہوں نے اپنے کو ملوث نہیں کیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ شیوسینا آج مرکزی حکومت میں بھی شریک ہے اور صوبائی حکومت میں بھی لیکن بی جے پی کے مقابلہ میں اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لئے وہی حرکتیں کررہی ہے جس کے لئے وہ بدنام ہے اور بی جے پی وہی کردار ادا کررہی ہے جو کانگریس نے چالیس برس کیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اب وہ اپنے کو بدل کر شرافت کا مظارہ کریں گے اور شری نریندر مودی انہیں ایسی حرکت نہ کرنے دیں گے جس کے نتیجے میں اب مودی جب کبھی چین کا دورہ کریں تو وہاں کے اخبارات میں ہندوستان کا جو نقشہ چھپے اس میں کشمیر میزورم کے ساتھ مہاراشٹر بھی غائب ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ کانگریس کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے شیوسینا کو وہی چھوٹ اگر دے دی گئی تو اس کی حیثیت پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ہوجائے گی۔ سدھیر کلکرنی کوئی مسلمان نہیں ہیں اور نہ وہ کانگریسی ہیں۔ بلکہ اس بات کے اظہار کے بعد کہ اٹل جی اور اڈوانی جی جو تقریریں کرکے تالیوں کی گڑگڑاہٹ کا شور سنتے تھے وہ ان ہی کلکرنی کے دماغ کی گلکاریاں تھیں۔
مہاراشٹر کے سیاسی لوگ کہہ رہے ہیں کہ شیوسینا اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے یہ سب حرکتیں کررہی ہے۔ لیکن وہ جب حکومت میں شریک ہے تو اس پر فرض ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے اختیار والے معاملات میں ان سے فریاد کرے کہ وہ ایسے پروگرام کی اجازت نہ دیں اور کسی پاکستانی آرٹسٹ یا سابق لیڈر کو ویزا نہ دیں۔ لیکن جب وہاں سے کچھ نہیں کہا گیا تو یہ حکومت سے اور ملک سے بغاوت ہے اور اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے بجائے دادری جیسے واقعہ کی طرح منھ پر ٹیپ لگاکر بیٹھ جانا اس کا اشارہ ہے کہ این ڈی اے کی شریک پارٹیاں اپنی من مانی کرنے کے لئے آزاد ہیں۔
کانگریس کا شیوسینا کے معاملے میں خاموش بلکہ خوفزدہ رہنا ہی اسے وہاں لے گیا کہ منموہن حکومت اور مہاراشٹر میں سونیا، پوار مشترکہ حکومت میں کہا گیا تھا کہ راہل گاندھی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ ہماری اجازت کے بغیر ممبئی آئیں اس کے بعد کانگریس کا شیوسینا کو انتہائی خطرناک تنظیم قرار دے کر اس پر سی می کی طرح پابندی نہ لگانا سب سے بڑا جرم ہے۔ اور اس سے بھی بڑا جرم راہل نے کیا کہ وہ ممبئی گئے اور بچوں کی طرح ’’لکاچھپی‘‘ کھیلتے ہوئے نظر آئے کہ ٹرین کا ٹکٹ لیتے ہوئے بھی دیکھے گئے اور لوکل ٹرین میں بھی سفر کرتے ہوئے نظر آئے اور انڈیا گیٹ پر بھی فوٹو کے پوز دیئے۔ ان سب بچکانہ حرکتوں کے بجائے وہ طاقت کے بل پر آزاد میدان یا کہیں اور جلسہ کو خطاب کرتے اور شیوسینا کو نشانہ بناکر کہتے کہ یہ غنڈہ گردی اور دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی صرف بم کے دھماکوں سے نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ حرکت جس سے عوام میں خوف اور ڈر پیدا ہو اور جن حرکتوں کی وجہ سے غریب مزدور اپنی جمع پونجی اور سامان کی پوٹلی بغل میں دباکر ممبئی چھوڑ دیں وہ دہشت گردی ہے۔
اب یہ بات مودی صاحب کے سوچنے کی ہے کہ کیا وہ اسے برداشت کریں گے؟ اور اگر برداشت کریں گے تو پھر مہاراشٹر کے بارے میں ذہن کو یکسو کرلیں کہ اس بار تو انہیں اکثریت مل گئی لیکن آئندہ ووٹ دینے والے یہ کیوں نہ سوچیں گے کہ شیوسینا کے ہاتھ میں حکومت ہو نہ ہو حکم ان کا ہی چلتا ہے تو کیوں نہ ان کی ہی حکومت بنوا دی جائے؟ اگر وزیر اعظم نے مسٹر کلکرنی جیسے دانشور اور بی جے پی کی سوچ رکھنے والے اور ملک کے عظیم لیڈروں کے لئے تقریر لکھ کر دینے والے ایک ہندو کے ساتھ بھی وہ ہوسکتا ہے جو وہ ایس پی کے مسلمان لیڈر ابوعاصم اعظمی کے ساتھ اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں تو پھر وہ کس منھ سے کہیں گے کہ ہم نے ملک کی تصویر بھی بدل دی اور تقدیر بھی۔ اگر مودی بھی انہیں اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں تو یہ بہترین موقع ہے کہ ان سے حکومت کا رشتہ پہلے ختم کریں مرکز میں بھی انہیں اپوزیشن میں بٹھائیں اور صوبہ میں بھی۔ اس کے بعد ان پر پابندی لگاکر تین برس کے لئے انہیں جیل میں ڈال دیں اس کے بعد جب وہ باہر آئیں گے تو ان کے پاس ان کے باپ کی تصویر اور دہاڑتے ہوئے شیر کا منھ ہوگا اور بس اس لئے کہ جو اُن کے ساتھ ہیں وہ خون کے مجنوں نہیں سب دودھ کے مجنوں ہیں جنہیں سب سے زیادہ ہم جانتے ہیں۔
جواب دیں