کرونا کے اس تیرہ و تاریک اور خوف و ہراس کے ماحول میں آنکھیں مسلسل یہ دیکھتیں اور کان لگاتار یہ سنتے آرہے ہیں کہ اس بیماری سے دوچار مریض اسپتالوں کی چہار دیواری میں اپنی فطری موت مر رہے ہیں یا انسانیت دشمن ڈاکٹروں کے ظالمانہ رویہ اور بہیمانہ سلوک سے دم توڑ رہے ہیں، ان میں بعض مریض چراغِ امید جلائے فیروزمندی و نجات کوشی کے منتظر رہتے ہیں تو بعض حسرت و یاس کے طلاطم خیز سمندر میں غوطہ زن شامِ نامرادی سے خوف کھاتے رہتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی ہستی کی حیثیت امید کے ایک تارِ عنکبوت اور حسرت کے جلتے ہوئے تنکے سے زیادہ کچھ نہیں، گویا اسپتالوں میں زیرِ علاج کرونا مریضوں کے دل کبھی امید کی روشنی سے شگفتہ ہوتے ہوں گے تو کبھی ناامیدی کی تاریکی سے گھبرا جاتے ہوں گے اور کبھی حسرت و افسوس کی خزاں میں امیدوں کے پژمردہ پتوں کو گنتے، کبھی ہنستے اور کبھی روتے ہوں گے اور ذہن و دماغ میں نہ جانے شورشِ غم و کشمکشِ الم کے کتنی آندھیاں اٹھتی اور خوشی و مسرت کی کتنی ہی پر کیف بہاریں چلتی ہوں گی، اہل خانہ کی دل سوزیاں اور اپنوں کی قرابت داریاں کتنا ستاتی اور تڑپاتی ہوں گی، ڈاکٹروں کی انسانیت سوزی اور لاپرواہی کتنا مضطرب و مضمحل کرتی ہوں گی، جب کہ ان معالجوں کا دل انسانیت نوازی اور جگر سوزی سے معمور ہونا چاہیے تھا لیکن آج وہی خود انسانیت کے قاتل اور مجرم بنے معاشرہ میں ہمدردی و غم گساری کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، انہیں امن و سلامتی کا پاسدار ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ وہ مصائب و آلام کے پرستار بنے خیر خواہی و چارہ جوئی کا جنازہ نکال رہے ہیں، إلا ماشاء اللہ، خدانخواستہ اگر کسی غریب و لاچار معصوم کا کرونا پازیٹو آگیا تو لگتا ہے کہ ان حبِ دنیا کے پجاریوں کو مال و دولت لوٹنے کا پروانہ مل گیا ہو، پھر وہ مال ہڑپنے کے الگ الگ طریقے اور مختلف بہانے تلاشنے لگتے ہیں، ان میں منکرانِ خدا مبتلا ہیں ہی لیکن صد حیف! خوفِ خدا سے بے پرواہ مسلمان ڈاکٹر حضرات بھی شامل ہیں.
چند دنوں سے راقم کے قریبی رشتہ داروں میں ایک توانا مرد موسمی بخار کے مریض تھے، علاقائی اطباء کے علاج معالجہ سے طبیعت نہ سنبھلی تو انہیں منگلور منتقل کیا گیا، لیکن کئی اسپتالوں کے چکر لگانے اور کئی جوتے گھس جانے کے بعد انہیں ایک اسپتال میں جگہ ملی اور فوراً آئی سی یو(I.C.U) میں داخل کردیا گیا، اب کیا تھا، پیسوں کے لالچی اور دولت کے حریص ظالم و جابر ڈاکٹروں کو جیسے کوئی اپنا شکار مل گیا ہو، ہر دن بلا مبالغہ تیس ہزار روپیے کی بل بنانے لگے اور ان غریب اہل خانہ کے لیے درد سر اور باعثِ عذاب بن گئے، خیر! اللہ تعالیٰ نے کہیں نہ کہیں سے رقم کا انتظام کروادیا، جب انہیں کچھ افاقہ ہوا تو اس وقت ظلم و جبر کی کوئی انتہا نہ رہی جب وہ آئی سی یو سے دوسرے کمرہ میں شفٹ کرنے کے لیے سوا لاکھ روپیوں کا مطالبہ کرنے لگے، مزید ظلم و زیادتی یہ کہ جب تک مطلوبہ رقم ادا نہیں کی جاتی، اس وقت تک کہیں بھی شفٹ نہیں کیا جائے گا، بفضل اللہ انتظام ہورہا ہے، آپ دعائے صحت فرمائیں….. آخر یہ بد کردار و بد اطوار اطباء سیم وزر کی چمک ودمک اور مال و دولت کی حرص و ہوس میں بدمست ہوچکے ہیں؟ کیا یہ ناہنجار و نابکار اپنی عاقبت سے بے پرواہ ہوچکے ہیں؟ کیا انہیں اپنی انجام کی فکر دامن گیر نہیں؟ کیا مال و دولت ہی ان کی آبِ حیات ہے؟ کیا معصوموں پر ظلم و ستم ہی ان کا مقصدِ زندگی ہے؟__ اِن کی اِن شیطانی کرتوتوں اور فرعونی چالوں کی وجہ سے نہ جانے کتنے غریبوں کے چراغ گل ہوگئے ہوں گے، کتنے محل زمین بوس اور کتنے گھر اجڑ گئے ہوں گے، کتنے بیچارے بے بسی و لاچاری کے گہرے غاروں میں دفن ہوچکے ہوں گے، کتنے ستم رسیدہ اپنا لاشہ کاندھوں پر اٹھائے اپنی قبریں کھود رہے ہوں گے، جس کا تصور بھی جاں گداز و جاں سوز ہے اور اس کا خیال سوہانِ روح سے کچھ کم نہیں…! کرونا کے اس ناگفتہ بہ زمانہ میں ڈاکٹروں کے ظالمانہ برتاؤ سے معاشرتی وقار اور ملی عظمت کے ستارے زمین کی پستیوں میں غروب ہوچکے ہیں، انسانیت شرمسار ہوچکی ہے، انسانی لبادہ میں ملبوس ان درندوں کی زہریلی بو نے پوری فضا کو متعفن و بدبودار اور معاشرہ کو گندا اور داغ دار بنادیا ہے، کمیشن مافیا اور موت مافیا سمیت یہ لوگ مال کی ذخیرہ اندوزی میں لگے ہوئے ہیں، روزافزوں یہ شرارت پسند اطباء عوام کے دن کے اجالوں کو رات کے اندھیروں میں بدل رہے ہیں.
اس سے انکار نہیں کہ اس بگاڑ کے اصل ذمہ دار تہذیب و تمدن، اخلاق و کردار کے حسن اور تعلیم کے وقار کو قدموں تلے روندنے والے پالیسی ساز اسپتالوں کے اطباء ہیں، جن کے شفاخانے انسانی قتل گاہیں بن چکے ہیں، جہاں انسانی جانوں کی بولیاں لگائی جاتی اور پریشان امت کے حالات پر قہقہے برسائے جاتے ہیں، مگر عوام کے سامنے یہ اپنے چہروں پر تقدس کا غازہ مَل کر پھر ایک نئی صبح روشن کی جھوٹی امید دے جاتے ہیں…. اگر بنظرِ انصاف دیکھا جائے تو ان سے بڑھ کر اس بگڑتے ہوئے شفاخانوں کے ذمہ دار قوم کے وہ رہبر و رہنما ہیں، جنہیں پوری قوم نے اپنا قائد و رائد بنایا اور انہیں اپنے پریشان کن مسائل کا درماں اور اپنے زخموں کا مداوا سمجھا، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ وہی رہبر قوم کی کشتی کو ڈبونے میں کوشاں ہیں، ان کی خدمت و کوشش اپنی ذات و اہل خانہ تک ہی محدود ہے، انہیں غریبوں کے جلتے جھونپڑے، مجبوروں کے خستہ مکانات اور کورنا کی شکار معصوموں کی تڑپتی لاشیں نظر نہیں آتیں اور ان کی بے بسی و لاچارگی کو دیکھ کر ان کی آنسو کا ایک قطرہ اور سروں پر ایک جوں تک نہیں رینگتا، اگر قوم کے رہبر ہی رہزن بن جائیں تو پھر آپ ہی بتائیں کہ سسکتے ہوئے عوام کس کے دروازے کی زنجیرِ عدل کھٹکھٹائیں؟ کسے اپنا ہمدرد و غمگسار سمجھیں؟ اس لئے یہ نازک وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم عوام کسی راہ کا گرد وغبار نہیں بلکہ رہبر و رہنماؤں کی تقدیر ہیں، اگر ہم استقلال و استقامت کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور ان نا اہل و ہوس پرست ذمہ داروں کو سبق سکھائیں تو لمحہ بھر میں انقلابات برپا ہوسکتے ہیں اور حالات کا دھارا رخ بدل سکتا ہے، لیکن اگر ہم ہی ان کی پھیکی ہوئی روٹیوں پر زندگی گزاریں اور ان کی بے توجہی و غفلت پروری کو پسِ پشت ڈال دیں تو ہمارا یہ عمل انہیں اس قدر طاقت ور بنادے گا کہ ہمارا وجود ان کے بوجھ تلے دب کر کرچی کرچی ہوجائے گا اور ہماری نسل ان کی غلام بن کر ان کے چکر کاٹنے اور ان کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوجائے گی اور وہ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جب بندہ ہمت کرتا ہے
تو بگڑا کام سنورتا ہے
اس موقع پر بندہ ان باضمیر غیرت مندوں اور باحمیت جوانمردوں کو دعا و سلام پیش کرتا ہے جو شبانہ روز کرونا کے ماحول میں خدمتِ خلق کی راہ پر تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں، اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر سجا کر اللہ پر کامل توکل کی داستان رقم کر رہے ہیں اور سب سے اہم و قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ وہ دشمنانِ انسانیت ڈاکٹروں، رہبروں اور قائدوں کے ہاتھ بکتے نہیں بلکہ ان کی فرمائشوں اور برائیوں کو ٹھوکر سے اڑاتے ہیں اور خراجِ عقیدت پیش ہے ان شہسواروں کے لئے جو ناموسِ انسانیت کو اپنے ماتھے کا جھومر بناکر جرأت رندانہ کو بھی عزم و عمل سے آراستہ رکھتے ہیں اور معاشرتی بگاڑ کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی غیر معمولی جد و جہد میں مصروف ہیں
جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کرناٹک
جواب دیں