ہوناور: سمسی میں اُردو اسکول نے اپنی سنچری مکمل کرلی

اور ہر طرف سے مایوسی ہی نظر آرہی ہو تو کیا ایسے دور میں آپ اس بات پر یقین کریں گے کہ ایک گاؤں میں موجود اُردو سرکاری اسکول اپنے سو سال مکمل کرکے اس کی جشن کی تیاریاں کررہاہے ؟؟ آپ کو یقین ہونہ ہو ،مگر یہ بات سچ ہے ، جس کے گواہ ہم خود ہم ہیں، جی ہاں قدرتی نعمتوں سے مالامال وہ ایک خوبصورت بستی ہے ، شراوتی ندی کے عین کنارے واقع اس بستی میں اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو آپ کو بنا کشتی میں سوار ہوئے بستی میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ ریاست کرناٹک کے اُترکنڑا (کاروار) ضلع میں واقع اس بستی کا نام شاید ہی کوئی جانتا ہو، مگر ! جی ہاں یہاں کیایک اُردو سرکاری اسکول اپنے سوسال کے کامیاب سفر کی تکمیل کے بعد اپنے بیتے دنوں کو اور گذرتے ایام کو یاد کرنے کے لئے ایک مجلسسجانے کا ارادہ کرچکی ہے ۔ بنگلور سے منگلور پہنچنے کے بعد آپ کو مشہور معروف شہر بھٹکل سے گذرتے ہوئے اہم شاہراہ پر کاروار و گوا کے راستے پر ایک شہر ملے گا جس کا نام ہے ہوناور ،یہ وہی علاقہ ہے جس کو ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ’’ہونور‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے، اس موقع پر علاقہ بھٹکل اور ہوناور اور اس کے ساتھ لگی بستیاں ہونور کے نام سے ہی پہنچانی جاتی تھی، جہاں کی دین داری اور مدرسوں کا تذکرہ ابنِ بطوطہ اپنے سفرنامے میں کیا ہے۔ جب آپ ہوناور پہنچیں گے تو یہاں سے آپ کو اندر سے ملناڈ ،یعنی بین الاقوامی شہرت یافتہ آبشار جوگ فالس اور ساگر وشیموگہ جانے کا ایک راستہ ملے گا ، اس راستے سے آپ گذریں تو بس بیس سے پچیس کلومیٹر کی دوری پر آپ کو اُپانی نامی ایک گاؤں ملے گا، آپ کو سمسی جانے کے لئے ا سی گاؤں میں رک کر ہوناور میں سمندر کی لہروں کو چھوکر نکلنے والی شراوتی ندوی جو یہاں سے گذرتے ہوئے گیرسوپا اور پھر جوگ فالس اور لنگن مکی ڈیم کو جاکر ملتی ہے ، اس ندی کو کشتی کے ذریعہ پار کرنا ہوگا، جب آپ اس ندی کو پار کریں گے تو آپ کو الگ ہی قسم کے گاؤں نظر آئیں گے، قدرتی نعمتوں سے مالا مال ایک طرف پہاڑوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے تو دوسری جانب ناریل ،سپاری کے باغات کے پہلو میں سوئی ہوئی یہ بستیاں ملناڈ کی خوشگور ہوا اور پھر بحرِ عرب کی موجوں سے اُٹھنے والی گرم فضا کو لے کرایک عجیب ہی پر لطف منظر کا آپ کو سیر کرائیں گی ، اور آپ جب ا ہم شاہراہ سے گذرتے ہوئے آپ کو محسوس ہوگا کہ راستے کے دونوں جانب صرف جنگلات ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شراوتی کے جنوب میں عین اس کے دامن میں ایسی کئی ساری بستیاں ہیں جو اپنی الگ ہی تاریخ  کیکنی کہانیاں سنارہی ہیں، انہی بستیوں میں سے ایک بستی کا نام ہے سمسی جہاں سینکڑوں کی تعداد 
میں مسلمان آباد ہیں۔یہاں کے لوگوں کے پیشے کے سلسلہ میں گفتگو کیا جائے تو یہاں کے لوگ باغبانی سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں، اور پھر کرناٹک کے ساحلی علاقے اور بالخصوص منگلور سے کاروار ان کے درمیان آنے والی بستیوں کے مسلمان اکثر خلیجی ممالک میں روزگاری کے لئے زیادہ ترجیح دیتے ہیں، ایسے میں سرکاری اسکول میں پڑھ کر ڈگریاں حاصل کرکے اگر سرکاری نوکریوں میں مسلمان اپنا نام درج کراتے ہیں تو واقعی ایک اچھنبے کی چیزہے، مگراس سمسی نامی چھوٹی سی بستی کے سرکاری اسکول میں استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد اور پھر فارغ ہوکر سرکاری نوکریوں میں ان کی شمولیت دیکھ کر یہ یقین کرنا بڑامشکل ہوجاتا ہے۔ بحرکیف سمسی کے اُردو سرکاری اسکول آئندہ ماہ صدسالہ جشن کی تیاریوں کے لئے پہلی مجلس سجائی تو ہم بھی اس کے گواہ بنے اور بلاتکلف ہم اس ذمہ داری کو قبول کیاکہ ہم بھی اس میں آپ کا تعاون کریں گے۔اس موقع پر ڈاکٹر اسماعیل تلکنی جو اس اسکول اور گاؤں کے ذمہدران میں سے ہیں انہوں نے سب گاؤں والوں سے اور اُردو کے متوالوں سے اپیل کی کہ جہاں بھی رہیں اس کی کامیابی کے لئے ضرور دعا کریں، ہم جلسہ کے انعقاد کے ساتھ ملکِ ہند کی سرکاروں کو بس یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُردو آج بھی زندہ ہے اور نئی نسل اس کو لے کر چلنے کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے۔ 

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے