حضرت مو لا نا اشرف علی تھا نوی ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔’’مقام امن دو وجہ سے فرما یا ایک تو یہ کہ اس میں حج و عمرہ نمازادا کرنے سے عذاب دوزخ سے امن ہو تا ہے،دوسرے یہ کہ اگر کو ئی خو نی حدود کعبہ یعنی حرم میں جا گھسے تو اس کو قتل نہیں کیا جا ئیگا ،البتہ کھانا پینا بند کر دیا جا ئیگا تا کہ با ہر نکل آئے ‘‘اس پوری تمہید سے اسلام کی ابدیت اور اس کے امن کے عا لم گیر منشور کا پتہ چلتا ہے، اور سا تھ ہی یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اسلام امن کے تئیں کتنا حساس ہے اور اس کے بر خلاف بد امنی اور فساد اسلام کو کتنا نا پسند ہے، اللہ تعا لی کی طرف سے با ر با ر فساد پھیلا نا وا لو ں کو تنبیہ کی گئی کہ زمین میں فساد نہ پھیلا ؤ ، کیو نکہ زمین میں فسا د پھیلا نا اللہ کے نزدیک قتل سے بھی زیا دہ سخت ہے اللہ تعا لی فر ما تا ہے’’ اور فتنہ سخت تر ہے قتل سے‘‘(سورہ بقرہ آیت ۱۹۱) خدا فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘(سورہ بقرہ آیت ۲۰۴) خدا مفسدین کو دوست نہیں رکھتا(سورہ مائدہ آ یت۶۴)
امن کے حوالے سے اسلام کی اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی کر تے ہیں کہ واقعی اسلام کا وجود ہی خا لص امن و شا نتی کا پیا مبر ہے، ویسے اسلام کی اس حقیقت کو جا ننے کے لیے اگر مذہب اسلام کا دوسرے مذاہب سے تقا بل کیا جا ئے تو اسلام مذہب اپنے وجود سے آج تک تا ریخی سچا ئی کے سا تھ امن و شا نتی کا داعی رہا ہے، کو ئی دور اسلام کا ایسا نہیں جس پر کسی انصاف پسند مؤرخ نے بد امنی کا لیبل لگا یا ہو،یا اسلام کے حوالے سے اس کے کسی دور میں بھی جہاں مسلما نوں کے ساتھ دوسری معا صر قو میں آبا د تھیں یا ہیں ان کے سا تھ ظلم وزیا دتی کا معا ملہ یا زبر دستی ان پر اپنے قوا نین کا نفاذ روا رکھنے کی نا جا ئز کو شش کی گئی ہو ایسی کو ئی مثال اسلام کی پو ری تا ریخ میں نہیں ملے گی اس کے بر عکس دنیا کے دوسرے مذاہب نے اپنے بنیا دی امن کے مشن سے ہٹ کر دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ جو ظلم و بر بیت کی ہے اور ابھی بھی سلسلہ جا ری و ساری ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملے گی کہ امریکہ ،یوروپ ،روس فرانس جر من اور اسی طرح دوسر ے بہت سے مما لک نے دنیا کی اس پر امن آبا دی کو آگ اور خون کے حوالے کردیا کتنے کروڑ لوگ ان کی ہوس اقتدار کی نذر ہو گئے، کیا نہیں ہوا ان کے بے رحم ہا تھوں سے اس مظلوم انسانیت کے ساتھ،کیا یہ زمین ان کے ظلم کو بھول جا ئے گی ، کیا تا ریخ انہیں ان کے ستم کا بدلا نہیں دیگی ،او ر وہ اسی طرح سے دنیا سے چلے جا ئے گے ،ان سے انتقام نہیں لیا جا ئیگا ۔خدا کا یہ نظام نہیں کہ ظالم اس کی پکڑ سے بچ نکلے ۔بلکہ فرما ن رسو ل ہے کہ ظالم اسوقت تک نہیں مرتا جب تک دنیا میں اس کو اس کے ظلم کی سزا نہ ملے ،واقعہ یہ ہے کہ جنگ اور بد امنی کی جو فضا یوروپ اور امریکہ نے دنیا کے اندر پیدا کردی ،اس کی ذمہ داری سے یوروپ اور امریکہ اس وقت تک دست بردار نہیں ہو سکتے ہیں جب تک یہ جنگ اور بد امنی ان کے گھروں میں دا خل نہ ہو جا ئے،اور ان کی زندگی اور ان کے چین و سکون کو غارت نہ کردے ،کیو نکہ جنگ اور بد امنی کی یہ عا دت اور فطرت ہے کہ پہلے یہ ہلکی سی چنگا ری کی شکل میں نمو دار ہو تی ہے لیکن بعد میں جب یہ دونوں ناک کی شکل اختیا ر کر لیتی ہیں ، تو پھر ان کی طوالت اور خوفنا کی کا اندازہ لگا نا مشکل ہے ویسے دنیا کی تا ریخ نے جو ،تبا ہی و بر با دی کی قیا مت خیز داستانیں لکھی ہیں وہ ان جنگجوں قو موں کے حالات اور ان کے آخری نتیجہ پر گواہی کے لیے کا فی ہیں ۔ دوسری طرف یوروپ اور امریکہ عقلی طور پر بھی مسقبل کی تبا ہی سے نہیں بچ سکتے۔کیونکہ ان مظلوم اور بے کس لوگوں کی بد دعا جو ان کے ظلم کی آخری حدوں کے شکا ر ہو ے اور ا ن کے انتقامی ستم کا نشا نہ بنے ،جس میں ان کا سب کچھ لٹ گیا ، گھر سے بے گھر اور بے یا ر ومدد گا ر ہو گئے ۔ کیا ان مظلوموں کی فلک دوز آہوں سے یوروپ کا خر من بچ جا ئیگا ایسا ممکن نہیں بس! انتظار ہے کب ان کے آشیا نوں کو آگ لگا جائے ۔کب زمین ہل جا ئے،کب ان پر آسمان سے عذاب الہی نا زل ہو، اس میں دیر یا سویر تو ہو سکتی ہے ۔ لیکن ا للہ تعا لی مظلوم کی بد دعا کو رائیگا نہیں کریگا۔
ان تمام خطرات اور خدشات کے با وجود امر یکہ اوریوروپ نے اپنے آپ کو کیوں جنگوں میں ڈال رکھا ہے، آ خر وہ کو نسی وجوہات ہیں جو انکو اس جہاں سوزی پرمجبور کرتی ہیں، یوروپ اور امریکہ کے حوالے سے یہ بڑا اہم سوال ہے کہ اس کے پس پردہ ان کی سوچ اور فکر کیا ہے ؟ مجموعی طور پر اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ہما رے خیال میں اس کی اہم وجوہ ملک گیری، اسلام سے ان کی ابدی دشمنی اور پھر اس کاانتقام اور اس کے ساتھ سا تھ عا لمی تجا رت اور معیشت پر اپنا کنٹرول ،یہی وہ بنیا دی عنا صر ہیں جو یوروپ کو اس جنگی جنون سے با ہر نہیں ہو نے دیتے۔ امکان کے طور پر اگر یوروپ کچھ وقت کے لئے دنیا سے صلحا کرلے ،اور امن و شا نتی پر آما دہ ہو جا ئے تو اس کو اس کا کا فی نقصان اٹھا نا پڑیگا ،ایک بڑا خسا رہ تو کا روبار کا دوسرا اس بات کا کہ کہیں عا لمی سیا ست کی با گ ڈور ہا تھ سے نہ چلی جا ئے، یہ بھی صرف ایک قیا س ہے، ور نہ یوروپ اور امریکہ کبھی اپنے آپ کو جنگ سے علیحد ہ نہیں کر سکتے ہیں اگر با لفرض وہ اب اس بات کی کو شش بھی کریں تو بھی ان کے لیے اب یہ ممکن نہیں کہ وہ امن اور صلحا کے مشن میں کا میا ب ہو جا ئے ،کیونکہ صلحا اور امن کی تمام شکلیں ان کے ہا تھ سے نکل گئی ۔ اب صلحا اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ آ گ ان کے گھروں میں پہنچ کر اپنا کا م تمام کر دیگی چو نکہ جب کو ئی بیما ری نا سور بن جا ئے تو اس کا آخری علا ج یہی ہو تا ہے کہ اس جسم کے حصے کو کاٹ کر الگ کردیا جا ئے ،یوروپ اور امریکہ کے لیے اب جنگیں ناسور بن گئی ہیں اور ان کا آخری علاج بس یہی ہے کہ جب تک یہ جنگ ان کے سماج کو اور ان کے گھروں ایک ایک کر کے تباہ و برباد نہ کردیگی اس وقت تک یہ آ گ نہیں بجھے گی ۔اس دعوے کی دلیل کے لیے دنیا کی بڑی بڑی قو میں گواہ ہیں مثال کے طور پرعاد اور ثمود کے کھنڈرات اور دنیا کے بڑے ظالم اور جا بر فرعون، قارون نمرود ہٹلر ہلا کو چنگیز خان اور اس طرح وہ ظالم لوگ جن کے اوپر یہی جنگی جنون اور ملک گیری کا بھوت سوار تھا ان کا ا نجام اورآخری نتیجہ۔
اسوقت صرف اسلام کے حوالے سے ہی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں امن وسکون کی فضا اسلا م کے سا ئے تلے اوراسی کے شفا ئی نظام میں قا ئم ہو سکتی ہے کیونکہ مذہب اسلام ان چیزوں کے تصور کو جڑ سے ہی ختم کر دیتا ہے جو جنگ اورفساد کا سبب بنتی ہے مثلاً مال کی محبت اور اسی طرح مال اور عہدوں کی تلاش کے لیے ظلم و زیادتی، نا انصافی ،حقوق طلبی جیسے تمام وہ افعال جو بدی کا محور بنتے ہیں، اسلام صرف ان کو نا پسند ہی نہیں کرتا بلکہ ان کے تصور سے ہی اس کی جبیں پر شکن آجا تی ہے ۔ اور ان افعال کے کرنے والوں کو اللہ تعالی اورشارع اسلام حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سخت عذاب کی وعیدیں ہیں ۔۔۔ یہی ہیں وہ تما م خو بیا ں اور وجوہات ہیں جو اسلام کو دوسر ے مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں ،
ہم دنیا کے تمام امن پسند لوگوں سے یہ در خواست کرتے ہیں کے امن کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنا یا جا ئے جس میں تمام مذاہب کے چنندہ افراد جمع ہو ں اور ان تمام وجوہات پر ایمانداری کے سا تھ تبا دلہ خیال ہوجو دنیا میں بد امنی اور فساد کا ذریعہ ہیں ،پھر انصاف کے ساتھ ہر ایک نما یندہ امن کا پیغام لیکر اپنے مذہب میں جا ئے اور نئی نسل کے اندر دوسرے مذہب کے ما ننے والوں کا احترام اور اسی طرح وطنیت سے بڑ ھ کر انسانیت کا احترام کرنا سکھا ئیں اور جو بد گما نیا ں ہیں ان کو دورکیا جا ئے ۔انشا اللہ اس کے بعد مثبت نتا ئج آئیں گے،دنیا میں امن ہو گا ،خشحا لی ہو گی، پیا ر ومحبت کی جیت ہو گی اور بد امنی جنگ اور فساد کی شکست۔
جواب دیں