ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

 

بہار میں کاسٹ سروے کے بعد ملک بھر میں سماجی انصاف کے حق میں آوازیں بلند

 

 نور اللہ جاوید، کولکاتا

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے ’’سماجی مساوات’’ کا مستقبل طے ہوسکتا ہے
ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر منڈل کمنڈل کی سیاست کی واپسی۔مسلمان کہاں کھڑے ہیں ؟

پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے اور ان انتخابات کو ’جنرل الیکشن 2024‘ سے قبل سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج سے یہ واضح ہوجائے گا کہ ملک کے عوام کا رجحان کیا ہے۔ ہندی پٹی کی تین ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے، یہاں کوئی تیسرا بڑا کھلاڑی نہیں ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان زبردست مقابلہ ہے جبکہ بی جے پی اور ایم آئی ایم تیسرے اور چوتھے کھلاڑی کے طور پر میدان میں ہیں۔ میزورم ایک ایسی ریاست ہے جہاں کی کل 40 سیٹوں میں سے 39 سیٹیں ایس ٹی کے لیے محفوظ ہیں۔ منی پورکی تازہ صورت حال نے شمال مشرقی ریاستوں میں آباد مختلف النسل قبائلیوں کے سامنے مستقبل کے تعلق سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ شہری ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد ان علاقوں میں آبادیاتی ہیئت (ڈیموگرافی) میں تبدیلی کا خطرہ کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے، اس لیے میزورم کے انتخابات کے اثرات صرف اسی ریاست تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ شمال مشرق کی دیگر ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
ہندی پٹی کی تین ریاستوں میں بی جے پی نے پہلی مرتبہ شیوراج سنگھ چوہان، رمن سنگھ اور وسندھرا راجے سندھیا جیسے معروف چہروں پر بھروسا کرنے کی بجائے وزیر اعظم مودی کی شخصیت کے طلسم اور ہندوتوا کے ایجنڈے کے نام پر فتح حاصل کرنے کے لیے پوری قوت جھونک دی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ بالخصوص کانگریس اقتصادی مسئلہ کو ذات پات پر مبنی شناخت سے جوڑ کر کاسٹ سنسیس، آبادی کے لحاظ سے حصہ داری، تعلیم و ملازمتوں اور منتخب اداروں میں نمائندگی جیسے ایشوز کے ذریعہ مذہبی پولرائزیشن کے ہتھکنڈے کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ اقتصادی طور پر پسماندہ مگر سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست بہار نے ذات کی بنیاد پر کرائے گئے سروے کی رپورٹ کو عام کرتے ہوئے فرقہ وارانہ صف بندی کے رتھ کو روک کر مقابلہ آرائی کی ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ اس سروے نے ہندوتوا کے علمبرداروں کو مایوس کردیا ہے۔حالیہ دنوں میں وزیر اعظم مودی کے بیانات سے ان کی جھنجھلاہٹ عیاں ہے۔ ایک طرف جہاں وہ ذات کی بنیاد پر سروے کو ہندوؤں کے خلاف سازش اور تقسیم کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں، وہیں سابق وزیر منموہن سنگھ کے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کررہے ہیں۔پہلے بھی وہ ایسا کرچکے ہیں۔
ملک کی آزادی کے بعد آئین سازی کے اس پورے عمل کے دوران آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے سماجی اور سیاسی شعبوں پر ہندو ذات پات کے نظام کے خوفناک اثرات کو مٹانے اور جدید قوم پرستی کی شناخت کی تشکیل کی ہرممکن کوشش کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا 73 سال گزر جانے کے بعد اعلیٰ ذات کی شناخت سے منسلک اختیارات اور مراعات جمہوری ہوگئے؟ کیا روایتی سماجی اشرافیہ کا سیاسی اقتدار پر قبضہ اور معاشی، سماجی اور ثقافتی شعبوں سے کنٹرول ختم ہوگیا؟ دراصل بہار میں ذات کی بنیاد پر سروے نے مذکورہ سوالات کے جوابات فراہم کرتے ہوئے بھارت کی جمہوریت کے اصل چہرہ کو بے نقاب کردیا ہے؟ 70 سال گزر جانے کے باوجود اس ملک سے بھید بھاو، تفریق اور چھوت چھات کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ سماجی طور پر پسماندہ طبقات نہ صرف اقتدار کی راہداریوں سے دور ہیں بلکہ ریاست کی فلاحی پالیسیوں کے غیر فعال استفادہ کنندگان کی صف میں شامل ہیں اور محض زندہ ہیں۔
ذات پات پر مبنی ہندوستانی سماج ایک حقیقت ہے اور اس کی جڑیں کئی ہزار سال قبل وسطی ایشیا کے دریائے آرموز کے کنارے آباد آریائی باشندوں کی بھارت آمد سے وابستہ ہیں۔ مشہور مصنف حکیم روپ چندوپلی کی مشہور زمانہ کتاب ’تاریخ چھتری‘ میں آریاوں کی بھارت آمد اور ذات پات کی شروعات کی وجوہات پر تاریخی حوالوں سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پیشہ کی بنیاد پر محض شناخت کے طور پر شروع ہونے والی ذات پات کی تقسیم نے جلد ہی مذہبی شکل اختیار کرلی اور طبقاتی نظام کو وید کے ایک اشلوک کے ذریعہ ہندوازم کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک تاریخی اور علمی بحث ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ ہندوازم کو عظیم مذہب ثابت کرنے کے لیے ہندوتوا کے پرچارکوں کے لیکچرس اور کتابوں میں ہندوازم میں پائی جانے والی سماجی و معاشرتی خرابیوں کے لیے مسلم دور حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان سماجی لعنتوں کا تعلق بھارت میں مسلم دور حکومت سے جڑا ہوا ہے، حتیٰ کے ستی کی قبیح رسم کے لیے بھی مسلم حکم رانوں کو مورد الزام ٹھیرایا گیا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے بیوہ خواتین کو مسلم حکمرانوں سے بچانے کے لیے ستی کی رسم شروع کی گئی تھی مگر دیوداسی اور چھوت چھات جیسی سماجی لعنتوں سے متعلق سوالات کا ان کے پاس جواب نہیں ہے۔
بہار میں ذات کی بنیاد پر سروے رپورٹ میں جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے بعد سے ملک میں ایک بار پھر سماجی انصاف کی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ اس سماجی کروٹ کے بعد ملک بھر میں اس تجربے کو دہرانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی ایوزیشن جماعت کانگریس نے 10؍ اکتوبر کو ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں ملک بھر میں ذات کی بنیاد پر سروے کرانے کی قرارداد کو منظور کیا ہے۔ کانگریس نے وعدہ کیا ہے کہ پانچ ریاستوں میں انتخابات کے بعد اقتدار ملنے کی صورت میں فوری سروے کرائے جائیں گے اور آبادی کے اعتبار سے حصہ داری اور شراکت کو یقینی بنایا جائے گا۔ کانگریس نے ریزرویشن کے 50 فیصد کی حد کو ختم کرنے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی یہ نظریاتی تبدیلی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ کانگریس ماضی میں ان مطالبات کی شدید مخالف رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بہار میں ذات کی بنیاد پر سروے اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ کیا یہ ایک بار پھر منڈل اور کمنڈل کی سیاست کی واپسی کا آغاز ہے؟ کیا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ ہندوتوا کی سیاست کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس طرح کے سروے مسلمانوں کے لیے مفید ہیں کیوں کہ ذات کی بنیاد پر اگر مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا تو مسلم ووٹوں کی اہمیت مزید کم ہو جائے گی۔
ہندوتوا کی سیاست بمقابلہ بی جے پی کا جامع ہندوتوا کا تصور بھارت کی انتخابی جمہوریت کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سماجی انصاف اور سیکولر کردار کے علمبرداروں نے گزشتہ چند دہائیوں میں مختلف مرحلوں میں موقع پرستی اور مفاد پرستی کا مظاہرہ کیا، ضرورت اور مواقع کے اعتبار سے اس کا اس استعمال کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف نظریاتی اور فکری طور پر دیوالیہ ہوگئے ہیں بلکہ ہندوتوا اور فسطائیت کا مقابلہ کرنے کی طاقت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔
بی جے پی نے ہندوتوا کی بالادستی کے نام پر ہندوؤں کے تمام طبقات کو فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم و متحد (Polarization) کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ او بی سی اور دیگر پسماندہ طبقات کی معاشی و سماجی محرومیوں اور ناکامیوں کے لیے پسماندہ طبقات کے روایتی لیڈروں کو ذمہ دار ٹھیرا کر اپنی ذمہ داریوں سے پلڑا جھاڑ لیا ہے۔ جواہر لال یونیورسٹی میں سنٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز، اسکول آف سوشل سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہریش ایس وانکھیڑے کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی  2014 سے قبل اور اس کے بعد نچلی ذات کے گروہوں کے ثقافتی علامات کا استعمال کرتے ہوئے ان برادریوں کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب رہی۔ وہ بہار، اترپردیش، ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات اور عام انتخابات میں نچلی ذات اور اوبی سی برداری کے ووٹ بٹور کر اقتدار میں پہنچی ہے‘‘۔ بی جے پی کی ثقافتی سیاست نے او بی سی برادریوں کے اتحاد میں گہری دراڑ ڈالنے کا کام کیا اور سماجی انصاف کی سیاست کو پیچھے دھکیل دیا۔ ہندوتوا کی سیاست اور مسلمانوں پر بالادستی کے خواب میں اوبی سی اور دیگر پسماندہ طبقات اپنی روایتی سیاسی جماعتوں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ جنتادل کو ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے۔ یوں بی جے پی، او بی سی، درج فہرست طبقات و قبائل کو  ’جامع ہندوتوا‘ کے تصور کا حامی بناکر دو مرتبہ مرکز اور مختلف ریاستوں میں اقتدار پر پہنچنے میں کامیاب رہی، لیکن خود او بی سی اور دیگر پسماندہ طبقات کو بی جے پی کی اس سیاست کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، طبقاتی یا سماجی حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ انہیں کوئی اختیارات حاصل نہیں ہوئے۔ اقتدار اور ملک کے وسائل اور اقتصادیات (بڑے کاروبار، مینوفیکچرنگ انڈسٹریز وغیرہ) میں ان برداریوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے جبکہ سماجی نام نہاد اشرافیہ ان تمام شعبوں میں غالب ہیں۔ جذباتی اور ثقافتی علامات کے ذریعہ ان طبقات کا استحصال تو کیا گیا مگر طاقت اور سیاسی اثاثوں کی منصفانہ تقسیم، بااثر ریاستی اداروں میں نمائندگی اور ذات پات کے مظالم کو روکنے کے لیے سماجی انصاف، قوانین کے منصفانہ نفاذ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، اگرچہ دروپدی مرمو اور ان سے قبل رام ناتھ کووند کو صدر جمہوریہ جیسے دلتوں کو با وقار عہدہ پر فائز کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ ان برادریوں کو بااختیار بنانے کے عہد پر وہ قائم ہیں۔
ثقافتی علامات کے ذریعہ ہندوؤں کے تقریباً تمام طبقات ہندوتوا کے ایجنڈے کا حصہ بن کر سماجی انصاف و سیکولرازم کے نظریات سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کی اس سیاسی حکمت عملی کے سامنے سیکولرازم، جمہوریت اور آئین کی حفاظت جیسے روایتی نعرے اپنی جاذبیت کھو چکے ہیں۔ کانگریس کرناٹک اور ہماچل پردیش میں فلاحی اسکیمیں اور بہتر اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب رہی مگر یہ سوال اہم ہے کہ کیا محض ’نیائے یوجنا‘ اور اقتصادیات کے نام پر اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتس گڑھ، ہریانہ اور دہلی جیسی ہندی ریاستوں میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ پھر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جنہیں بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا وسیع تجربہ رہا ہے، انہوں نے ایک بار پھر سماجی انصاف کے راستے سے بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کی راہ سجھائی ہے، مگر اس کے لیے انہوں نے پرانی حکمت عملی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔’’ذات کی بنیاد پر سروے‘‘ کے فیصلے اور اس کے بعد قانونی روکاوٹوں کو عبور کرکے اس سروے رپورٹ کے اجرا کے ذریعہ وہ بھارتی سماج کی پیچیدگیوں اور ذات کی بنیاد پر ناانصافی کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہے ہیں تاہم اس سروے رپورٹ کا پہلا حصہ ہی منظر عام پر آیا ہے اور اقتصادی سروے آنا ابھی باقی ہے۔اس رپورٹ نے بھارتی سماج کی اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے کہ اقتدار، وسائل اور اقتصادیات پر ملک کے ایک چھوٹا سا طبقہ قابض ہے جب کہ تعداد کے اعتبار سے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کئی گنا زیادہ ہیں۔ آکسفیم انڈیا کی 2023کی رپورٹ کے مطابق سماجی، اقتصادی ناہموار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ معیشت اور ملک کے وسائل چند مخصوص طبقات کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک یقیناً دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے طور پر ابھرا ہے لیکن امیر ترین اور غریب ترین لوگوں کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔ آکسفیم انڈیا نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کی 60 فیصد دولت امیر ترین 5 فیصد شہریوں کے پاس ہے۔ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز (TISS) میں پسماندہ ذاتوں کی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ایک ریسرچ اسکالر یشونت زگڑے کہتے ہیں کہ اعداد و شمار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ کس طرح غالب ذاتوں کے ایک چھوٹے سے طبقے نے سیاست سے لے کر میڈیا تک ہر چیز پر قبضہ کر رکھا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس سروے سے شناخت کے بحران کی شکار مختلف برداریوں اور ذاتوں میں بے چینی میں اضافہ ہونا فطری بات ہے۔ جامع ہندوتوا کے تصور کی آڑ میں بھارت کے سماج کی ان پیچیدگیوں کو چھپانے میں کامیاب رہنے والی بی جے پی کی بے چینی میں اضافہ کر دیا ہے۔ کانگریس بالخصوص راہل گاندھی کو اس حقیقت کا ادارک ہوچکا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں تو انہیں سماجی پیچیدگیوں کو اجاگر کرکے مختلف طبقات کی حمایت حاصل کرنا ہوگا۔ چنانچہ خواتین ریزرویشن بل پر بحث کے دوران انہوں نے پسماندہ خواتین کا ایشو اٹھایا، جو کانگریس کے روایتی اور برہمن واد سوچ کے برعکس تھا۔ انہوں نے کھلے دل کے ساتھ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے بی جے پی کی طرف سے اٹھنے والے ہر سوال کو خاموش کر دیا۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں ایک نامہ نگار کے سوال کے جواب میں کڑوے سچ کو رکھ دیا کہ کس طرح بی جے پی جامع ہندوتوا کا تصور میڈیا کے ذریعہ تیار کرتی ہے اور اس میڈیا میں کام کرنے والے کون سے طبقات ہیں۔ راہول گاندھی کا یہ کہنا بالکل بجا ہے مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا کانگریس اور اپوزیشن اتحاد آئینی جمہوریت کا دفاع، سیکولرازم اور سماجی انصاف کے اقدار کو فروغ دینے کی متاثر کن لڑائی میں کامیاب ہوں گے؟
ریسرچ اسکالر یشونت زگڑے کہتے ہیں ’’ذات کی مردم شماری کا مطالبہ مختلف پسماندہ ذاتوں میں ذات پات کا ایک نیا شعور پیدا کر سکتا ہے اور بی جے پی کے ہندوتوا منصوبے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر ذات پات مرکزی مسئلہ بن جاتا ہے تو یہ ہندوتوا کے جامع تصور کو پاش پاش کردے گا۔ دیگر کئی ماہرین کہتے ہیں کہ بہار میں ذات کی بنیاد پر سروے نے یقینی طور پر سماجی انصاف کی سیاست کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہوا ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات کے سماجی اور معاشی خدشات کی مرکزی دھارے کی سیاسی گفتگو میں واپسی ہوئی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر نوال کشور چودھری کہتے ہیں کہ ذات کے سروے کی رپورٹ کا اجرا عظیم اتحاد (انڈیا) کی طرف سے ایک ماسٹر اسٹروک ہے جو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے مذہبی پولرائزیشن اور ان کی مذہبی طاقت کو کمزور کردے گا۔ امید ہے کہ اگلے انتخابات میں سخت ترین مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بہار میں ذات پات کا سروے اور اس کے نتائج
1931 کی مردم شماری میں او بی سی کی آبادی سے متعلق سروے آخری بار شائع کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 52 فیصد آبادی اوبی سی کی تھی۔ اس کے بعد کسی بھی مردم شماری میں ذات کا سروے نہیں کیا گیا ہے، جبکہ دوسرے پسماندہ سماجی گروپوں کا سروے کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے مختلف علاقوں، ریاستی اداروں اور تعلیمی اداروں میں ان کی موجودگی کی صحیح تعداد دستیاب ہے۔ لیکن او بی سی کی موجودگی کے بارے میں قومی سطح کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ بہار کے ذات پات کی مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں اعلیٰ ذات کی آبادی 15.5 فیصد ہے۔ جبکہ پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ذاتیں ریاست کی 84 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں۔اس کے باوجود انہیں صرف 50 فیصد ریزرویشن حاصل ہے جبکہ کل آبادی کی 15.5 فیصد آبادی کو معاشی بدحالی کوٹہ کے تحت 10 فیصد ریزرویشن حاصل ہے۔ او بی سی آبادی 63 فیصد ہے مگر ان کے لیے صرف 27 فیصد سیٹیں محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر تمل ناڈو، کرناٹک، یا آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں اونچی ذاتیں، جہاں وہ کل آبادی کا 5 فیصد سے بھی کم ہیں، 10 فیصد ریزرویشن کے حقدار ہیں، یہاں تک کہ بہار جیسی ریاستوں میں اعلیٰ ذاتوں کی آبادی 15 فیصد سے کچھ ہی زائد ہے مگر انہیں 10 فیصد ریزرویشن حاصل ہے۔
مودی حکومت نے 2019 میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے کو ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے 50 فیصد کی حد کو ختم کردیا اور عدلیہ نے بھی ان کی مدد کی۔اگر بہار کے تناظر میں ملک بھر میں اعلیٰ ذات کی آبادی کا سروے کیا جائے تو یہ آبادی 15 فیصد سے بھی کم ہوگی۔ ملک کے وسائل اور اقتصادی شعبہ پر اس طبقے کا قبضہ ہونے کے باوجود معاشی پسماندگی کے نام پر انہیں 10 فیصد ریزرویشن دیا گیا ہے۔ ایسے میں او بی سی کے لیے محض 27 فیصد ریزرویشن انتہائی کم ہے۔
1970 کی دہائی کے اوائل میں زراعت سے وابستہ ذاتوں کے لیڈروں نے قومی سطح پر کانگریس کی بالادستی چیلنج کرتے ہوئے سماجی انصاف اور سوشلزم کا متاثرکن بیانیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔لالو پرساد یادو، دیوی لال، ملائم سنگھ یادو، رام ولاس پاسوان، شرد پوار اور دیگر جیسے بہت سے او بی سی، دلت لیڈروں نے نچلی ذات کی شناخت کو انتخابی سیاست کا حصہ بنا دیا تھا۔ تاہم حالیہ برسوں میں مذکورہ بالا لیڈروں کی نسلیں سماجی انصاف اور سوشلزم کے بیانیہ کو عوامی مقبولیت دینے میں ناکام رہیں اور یہی بی جے پی کے عروج کی وجہ بن گئی۔ اب جب کہ بہار نے ایک نئی راہ دکھائی ہے تو امید کی جارہی ہے کہ اس کے اثرات ملک کی قومی سیاست پر مرتب ہوں گے۔ کانگریس کو بحران سے نکلنے کی راہ اس سیاست میں نظر آرہی ہے اس لیے کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی بار بار پسماندہ طبقوں کی آبادی میں ان کے حصے کے مطابق ان کے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے متناسب نمائندگی پر اصرار کر رہے ہیں۔
ماضی میں بھی سماجی انصاف کی آوازیں بلند ہوئی ہوتی رہی ہیں، حصہ داری کی باتیں کی گئی ہیں مگر اس کے باوجود اقتدار، اقتصادیات اور سماجی ہم آہنگی اور مساوات کیوں مفقود رہے؟ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس  سماجی انصاف قائم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طبقاتی اور سماجی تفریق اور سماجی عدم مساوات کا اندازہ لگانے کے لیے اعداد و شمار کا سامنے رہنا ضروری ہے۔ بہار نے اپنے طور پر یہ کام کرلیا ہے مگر یہ اسی وقت مفید اور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب یہ صرف انتخابات جیتنے اور پولرائزیشن کا ذریعہ نہ بنے۔ اسے ایک بڑی اور متنوع جمہوریت میں نمائندگی کے تصور کے ٹوٹنے اور سکڑنے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ سیاست دانوں کو اپنے آپ کو بڑے مقصد کی یاد دلانے کی ضرورت ہوگی۔ ذات کو اس سے بالاتر کرنے کی کوششوں کو مضبوط کرنے کے لیے شمار کیا جانا چاہیے۔
اس پورے عمل میں مسلمان کہاں ہیں؟
مسلمانوں میں ذات پات موجود ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلم سماج میں شدید اختلافات ہیں۔ اگر بہار میں سماجی انصاف کے علمبردار مسلم لیڈروں کے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ یہ تصور قائم کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں ذات پات کی تفریق اور بھید بھاو اسی طرح موجود ہے جس طرح ہندوؤں میں ہے۔ حال ہی میں سابق ممبر پارلیمنٹ علی انور کی کتاب ’’سماجی مساوات‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے مختلف واقعات کے تناظر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں میں بھی بھید بھاو پایا جاتا ہے تاہم مغربی بنگال کے مسلمانوں کے سماجی و معاشی صورت حال پر ریسرچ کرنے والے اور جادو پور یونیورسٹی کلکتہ کے شعبہ سیاسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر عبدالمتین کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمانوں میں بھی برداریاں پائی جاتی ہیں جو پسماندگی کا شکار ہیں مگر مسلمانوں میں ورن آشرم نظام نافذ نہیں ہے۔ چونکہ پسماندگی پائی ہے اس لیے مسلمانوں کو بھی ریزرویشن ملنا چاہیے۔
آل انڈیا او بی سی محاذ کے سربراہ شبیر انصاری ہفت روزہ دعوت سے کہتے ہیں کہ بہار کے سماجی انصاف کے علمبرداروں نے اس پوری جدوجہد کو نقصان پہنچایا ہے۔ان لیڈروں نے پوری بحث کا رخ غلط جانب موڑ دیا ہے۔دوسری طرف بی جے پی ہے جس نے مسلمانوں کے ریزرویشن کو مذہبی رنگ دینا شروع کردیا ہے ۔بی جے پی کے سینئر لیڈران بشمول امیت شاہ نے مسلم برادری کے رزیرویشن کو ختم کرنے کی پرزور وکالت کی ہے۔ اس لیے ہمارا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں کے پیشہ وارطبقات کی نشاندہی کی جائے اور اسی بنیاد پر ریزرویشن کے مطالبات کیے جائیں ۔

«
»

موت کے بعد آنسو

تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے