ہندوستانی جمہوریت کا فسطائیت سے تحفظ وقت کا تقاضہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
سابق اسوی ایٹ پروفیسر سیاسیات

جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ شہری اپنے دستوری حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے قومی تعمیر میں حصہ لیں
ہندوستان اپنی جمہوریت کے 72سال مکمل کرنے جا رہا ہے۔ 26 جنوری کا دن ہندوستانی قوم کے لیے ایک تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ 26 جنوری 1950کو ملک کی مجلس دستور اسمبلی نے ایک مبسوط دستور قوم کے نام معنون کرتے ہوئے نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی دن سے ہندوستان ایک جمہوری ملک کہلانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے اس طویل سفر کے دوران بہت سے نشیب و فراز بھی آئے لیکن بھارتی قوم نے جمہوری طور طریقوں کو خیر آباد کہہ کرکسی اور نظام کو اپنے لیے قبول نہیں کیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام کی چوکسی نے حکمرانوں کو مکمل مطلق العنانی کے طرف ملک کو دھکیلنے کا موقع نہیں دیا۔ دستور سازوں نے عوام کو مقتدر اعلیٰ کا مقام عطا کرتے ہوئے انہیں اس بات کا حق دیا کہ وہ اس جمہوری نظام کی نکیل کو اپنے ہاتھوں میں رکھیں۔ وقفے وقفے سے ہونے والے انتخابات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عوام اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے کسی دباؤ یا جبرکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یوم جمہوریہ کے اس موقع پر شہریوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہندوستانی جمہوریت کے استحکام اور اس کے فروغ کے لیے انہوں نے کس قدر اپنا رول ادا کیا۔ سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے لیے کام کر تی ہیں، ان کا مقصد سیاسی اقتدار کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ انہیں بر سر اقتدار لانے میں رائے دہندوں کی مرضی ہی شامل رہتی ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی عوامی تائید کے بغیر اپنے اثر و رسوخ کو نہیں بڑھا سکتی لیکن جمہوریت کی کامیابی کا دار ومدار عوام کے سیاسی شعور پر منحصر ہوتا ہے۔ شہری جب تک اپنے حقوق اور فرائض سے کماحقہ واقف نہیں ہوتے اس وقت تک جمہوریت کے حقیقی ثمرات ظاہر نہیں ہوتے۔ ہندوستانی جمہوریت کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں کے شہریوں کو اپنے حقوق اور فرائض کا اس طرح ادارک نہیں ہے جیسا کہ یوروپی شہریوں میں اس کا شعور پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ہو یا امریکہ وہاں جمہوری نظام کو وہ خطرات لاحق نہیں ہیں جن سے ہمارا ملک ہندوستان دوچار ہے۔ دستور ہند کے مدون کرنے والے ماہرین دستور نے ایک مکمل باب شہریوں کے حقوق کے لیے مختص کر دیا ہے۔ دستور کے باب سوم میں دفعہ 12 تا35 شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق کی صراحت کردی گئی ہے۔ یہ حقوق بلا لحاظ، مذہب وذات، رنگ ونسل، جنس وزبان اور علاقہ تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ دستور کی تدوین کے وقت کل سات بنیادی حقوق تھے لیکن دستور کی چوالیسویں ترمیم کے ذریعہ حق جائیداد کو بنیادی حقوق کی فہرست سے حذف کر دیا گیا اور اب جملہ چھ بنیادی حقوق تمام شہریوں کو حاصل ہیں جن میں حق مساوات، حق آزادی، استحصال کے خلاف حق، مذہبی آزادی کا حق، تہذیبی وتعلیمی حقوق اور عدالتی چارہ جوئی کا حق شامل ہے۔ شہریوں کو دیے جانے والے یہ بنیادی حقوق ان کو ایک با عزت زندگی گزارنے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ذریعہ ہر شہری اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق سماج میں اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح 1976 میں دستور کی 42ویں ترمیم کے تحت دس بنیادی فرائض کو دستور ہند میں شامل کیا گیا ہے۔ ان بنیادی فرائض کو شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شہریوں میں دستور اور قانون کے احترام کے ساتھ ان کے درمیان باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ مابعد آزادی ہندوستان میں جو سیاسی اتھل پتھل جاری تھی اس پر قابو پانے کے لیے بنیادی فرائض کی شمولیت کو دستور میں ضروری سمجھا گیا تاکہ ملک کی سالمیت اور یکجہتی باقی رہ سکے۔
ہندوستانی جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ شہری اپنے دستوری حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے قومی تعمیر میں حصہ لیں۔ ملک میں اس وقت جو فضاء پائی جا رہی ہے اس پر شہریوں کی فکر مندی کا اظہار نہ ہو تو ملک کے حکمران جمہوری نظام سے اسی طرح کھلواڑ کر تے رہیں گے جسے ملک کے عوام کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہے ہیں۔ قانونی اور دستوری اداروں کی پامالی کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس سے شہریوں کے حقوق پر بھی ضرب پڑسکتی ہے۔ کثرت میں وحدت کا جو تصور ہندوستان کے آئین نے دیا تھا اس کو حقیقت کا روپ دینے میں ملک کے شہری ناکام ہو گئے۔ نفرت، تعصب، بغض وعناد کا جو ماحول فسطائی طاقتیں پیدا کر رہی ہیں اس کو دور کرنے میں محبان وطن کی جو کوششیں ہونی چاہیے تھیں وہ نہیں ہو سکیں اس لیے قومی زندگی میں ہر طرف انتشار اور افتراق نے اپنے سائے بڑھا دیے ہیں۔ گزشتہ مہینہ میں ہونے والے گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ ابھی شہریوںمیں سیاسی شعور نہیں جاگا ہے۔ کوویڈ-19 کے دوران ناقابل بیان مصیبتوں کو جھیلنے کے باوجود گجرات کی عوام فرقہ پرستی کے سیلاب میں بہہ گئے اور بی جے پی کو تاریخی کامیابی سے نوازا۔ یہی وہ تنگ نظری ہے جو ہندوستانی جمہوریت کی کشتی ڈبو سکتی ہے۔ عوام اپنی فلاح وبہبود کے بجائے فرقہ وارانہ سیاست کو گلے لگانے کے عادی ہوجائیں تو پھر جمہوریت کا یہ ڈھونگ کیوں رچایا جائے؟ 1995 سے گجرات میں بی جے پی راج کر رہی ہے۔ 2022 میں وہ ساتویں مرتبہ گجرات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن ان 27 سالوں میں گجرات نے کن کن شعبوں میں ترقی کی ہے اس کا کوئی واضح جواب وہاں کے حکمراں نہیں دے سکتے۔ محض ہندتوا کا نعرہ لگا کر رائے دہندوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور ان کے ووٹ بٹور لیے جاتے ہیں۔ جس گجرات ماڈل کی بات کی جاتی ہے اگر اسے سارے ملک میں نافذ کیا جائے تو سوائے قتل وغارت گری کی سیاست کے کچھ باقی نہ رہے گا۔ مرکزی کے وزیر داخلہ نے گجرات کی انتخابی مہم کے دوران کہا کہ "ہم نے گجرات میں 2002 میں کچھ لوگوں کو ایسا سبق سکھایا کہ اس کے بعد گجرات میں کبھی فسادات نہیں ہوئے’’ اس قسم کے جارحانہ بیانات کے باوجود گجرات میں بی جے پی اپنی کامیابی کے سارے سابق ریکارڈ توڑ رہی ہے تو یہ ایک لمحہ فکر ہے کہ ہندوستانی شہریوں کا مزاج کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کوئی پارٹی اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر اپنی حکومت کھڑی کرتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے نہایت سنگین صورت حال ہے۔ اس سے وقتی طور پر کسی سیاسی پارٹی کا فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن ملک میں جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی۔ عوام کو دستور نے یہ آزادی دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں لیکن ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے آئین اور قانون کی پاس داری کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے حق میں اپنا ووٹ دیں۔ ہندوستانی جمہوریت کو جو چیلنجس اس وقت درپیش ہیں اس سے نمٹنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ شہریوں کو جمہوریت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اسے ادا کرنے میں کسی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی سیاست کو فروغ دینے کے بجائے جمہوری اقدار کو پیمانہ بناتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ دوسروں کی آزادی کا لحاظ رکھنے سے ہی جمہوریت پنپ سکتی ہے۔ قومی معاملات سے عوام کی عدم دلچسپی حکمرانوں کو من مانی کرنے کا مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس لیے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندستانی شہریوں کو اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ وہ دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ہمیشہ چوکس وچوکنّا رہیں گے۔ اسی سے ہندوستان میں جمہوریت کا تحفظ ہوپائےگا۔

بشکریہ : دعوت

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے