سال بدل گیا لیکن ساکشی مہاراج کی ذہانت، زبان اور فکر نہیں بدلی، فتح پور کی ایم پی ’’سادھوی نرنجن جیوتی‘‘ نے اپنے ایک بیان میں بی جے پی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کو ووٹ دینے والوں کو حرام زادہ تک کہہ دیا، علی گڑھ کے ایم پی’’ستیش گوتم ‘‘نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنائے جانے کے پروگرام کو ا?گے بڑھانے کی قسمیں کھائیں۔
یہ چاروں ایم پی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہیں۔ حزب مخالف نے وزیراعظم نریندر مودی سے اپنے ممبران پارلیمنٹ کے بیانات کی وضاحت طلب کی، راجیہ سبھا میں لگاتار چار دنوں تک کام بند رہا، وزیر اعظم پہلیتوراجیہ سبھا میں ا?نے سے کتراتے رہے اور جب ا?ئے تو انہوں نے ایسا بیان دیا جو حزب مخالف کے نظریہ سے ممبران پارلیمنٹ کے بیانوں کی کلی طور پر اتفاق نہیں کرتاتھا۔ ان متنازع بیانات پر جواخباری بیانات ا?ئے ہیں اس میں ہندوستان میں بسنے والے اقلیتوں کے مزاج و مذاق کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا، ہندوستان جیسے سب سے بڑے سیکولر ملک میں لگاتار دل ا?زار بیانات دینے والے ان چاروں کا تعلق یوپی سے ہے، ان چاروں کو بی جے پی کے موجودہ صدر’’امیت شاہ ‘‘نے ایم پی کا امیدوار بنایاتھا، جنہیں ملک کے سب سے بڑے صوبہ یوپی میں الیکشن کا ذمہ دار بنایا گیا تھا، وزیراعظم کو اپنا نظریہ صاف کرنے کو باربار کہا گیا لیکن کسی نے بھی پارلیمنٹ میں یا اس کے باہر اس شخص کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جس نے ان دریدہ دہنوں کو ایم پی بنایا تھا۔
’’امیت شاہ ‘‘ کا قومی سیاست میں داخلہ نہایت ہی افسوس ناک پہلو ہے۔ ہم ایک ایسے شخص کی بات کررہے ہیں، جو کسی صوبہ کا ایساپہلا وزیر داخلہ تھا، جسے عہدہ پررہتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہو اوراسی وجہ سے سپریم کورٹ نے دوسال کے لئے ان کو اپنے صوبہ سے بے دخل کردیا تھا۔امیت شاہ پر الزام ہے کہ انہوں نے پولیس کا اتنا سیاسی استحصال کیا کہ جو انکی بات نہیں مانتا ان کو سزادی جاتی تھی، جب پارلیمانی الیکشن میں ان کی پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی تو امیت شاہ کی پچھلی تمام غلطیوں کو بھلادیا گیا، یہ کامیابی کافی حد تک اترپردیش پر منحصر تھی، جہاں بی جے پی نے 80/ سیٹوں میں سے 71/ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، اس شاندار کامیابی پر پارٹی نے امیت شاہ جیسے مجرم کو پارٹی کا قومی صدر بنادیا، اورمیڈیا نے بھی اسے ہیرو بناکر پیش کیا، اور اس کے منتخب نمائندوں کی کامیابی کو امیت شاہ کی کامیابی بتلایا، جو امیدوار اس نے پارٹی کو انتخاب کے لئے دیا تھا، ان میں ’’یوگی ا?دتیہ ناتھ ،ساکشی مہاراج ،سادھوی نرنجن جیوتی اورستیش گوتم‘‘ شامل ہیں، اس کے باوجود بی جے پی صدر سے ان کے غلط بیانات پر کسی نے سوال نہیں کئے، اسی درمیان سنگھ پریوار کے دوسرے ممبروں نے اپنے ارادے ظاہر کردئے۔ ’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ‘‘ نے اعلان کردیا کہ ہندستان ایک ہندو ملک ہے، اس ملک کے باشندگان کو مان لینا چاہئے کہ وہ ہندو ہیں، ’’وشو ہندو پریشد ‘‘ نے دھرم پریورتن کا نعرہ دیا۔
نریندر مودی نےِ بحیثیت وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اسی کی حکو مت میں گجرات میں مسلمانوں کا سر عام قتل ہوا، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا گیا، دوکانیں جلائی گئیں، عصمتیں لوٹی گئیں، لیکن جب ان کو پارٹی نے بحیثیت وزیر اعظم پیش کیا تو انہوں نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر نعرہ دیا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘اس موقعہ پر ہندوستانی عوام کو لگا کہ اب نوجوانوں کو کام مل جا ئیگا، سب روزگار سے جڑ جائنگے، اور ملک تیزی کے ساتھ ترقی کریگا، اسی اعتماد پران لوگوں نے بھی ووٹ دئے جو اگر چہ کہ ان کے نظریات سے متفق نہیں تھے،اور کانگریس سے اوب چکے تھے یہ کہتے ہوئے کہ چلو ایک مرتبہ اسے بھی ا?زما کر دیکھتے ہیں اور اس طرح دھوکے میں انسانیت کے سب سے بڑے قاتل ’’نریندر مودی ‘‘اس بڑے جمہوری ملک کے وزیراعظم بن گئے، ان کے دوسرے نمبر کے نیتا امیت شاہ بھی ایک بڑے ہیرو کے رول میں نظر ا?نے لگے یہی وجہ ہیکہ ان کے منتخب ممبران پارلیمنٹ کی باتیں ا?ج پورے ہندوستان میں غلط طریقے سے گشت کرتی رہتی ہیں، اور کوئی بھی اس کو لگام دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
جب وزیر اعظم سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ دم سادھے رہتے ہیں، یہی وجہ ہیکہ ترقی کے نام پر اب تک کوئی کام نہیں ہوسکا ہے، اور اپنے ممبران پارلیمنٹ کے غلط بیانات کی وجہ کر وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں معافی تک مانگنی پڑی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید درست ہوگا کہ کشمیر میں بی جے پی کو منھ کی کھانی پڑی ہے اس میں ان غلط بیانات کو بھی دخل ہے، اور رام لیلا میدان میں مودی جلسہ میں پہلی جیسی بھیڑ کا جمع نہ ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے اب مودی کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گانگریس سے الگ ہوکر مودی کے خیمے میں اس امید کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ اس ملک سے مہنگائی دور ہوجائیگی، نوجوان ہاتھوں کو کام مل جائیگا، دلی کی سڑکوں پر کھلے عام عصمتیں نہیں لوٹی جائنگی، ہندوستانی بیٹیاں بے خوف تعلیمی درسگاہوں تک جاپائے گی، لیکن نہ تو مہنگائی کم ہوئی، نہ ہی نوجوان ہاتھوں کو کام ملا، بلکہ اور زیادہ ہی بے روزگاری ہاتھ لگی اور مہنگائی نے عام زندگی کو خود کشی پر مجبور کردیا، یہی وجہ ہیکہ اب لوگ پھر سے اپنے پرانے گھروں کو واپس ہوتے نظر ا?رہے ہیں، اور گھر واپسی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
اب جب کہ دلی میں اسمبلی الیکشن کا بگل بجادیا گیا ہے، تو مودی اپنی بغلیں جھانکتے نظر ا?رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ پھر پچھلے وعدوں اور معاہدوں کے ساتھ اس اکھاڑے میں کود کراپنی پارٹی کو منجھدھار سے نکالنے کی کوشس کریں گے جب عوام اب دوبارہ اس کے جال میں پھنسنے والی نہیں ہے، عام ا?دمی پارٹی اور کانگریس ا?پسی تال میل کے ساتھ میدان میں ا?جاتی تو بی جے پی کا صفا یا ممکن تھا، وقت کا سب کو انتظار ہے ،دیکھنا ہے کہ ا?خر دلی کی گدی کا بادشاہ کون ہوتا ہے ؟
جواب دیں