ہندوستانی پولس کا اقبالِ جرم

خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات کی حالت میں وہ پوری طرح ہندو بن جاتی ہے اور مسلمانوں کا نہ صرف قتل عام کرتی ہے بلکہ انھیں گرفتار کرنے اور مظالم ڈھانے کا بھی کام کرتی ہے۔ پولس نے یہ بھی قبول کرلیا ہے کہ پولس کوئی سیکولر فورس نہیں ہے بلکہ اس کے جوان پوری طرح ہندو ہیں اور وہ اپنے ساتھ دیوی دیوتاؤں کی تصویریں ،مورتیاں وغیرہ لے کر چلتے ہیں اور پوس اسٹیشنوں میں بھی مندر بنائے جاتے ہیں۔ پولس نے یہ بھی مانا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی کمی ہے اور اس کمی کے سبب بھی مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا جس کے سبب وہ پولس فور س پر یقین نہیں کرتے۔ ان باتوں کو خود پولس نے ایک رپورٹ میں تسلیم کیا ہے جو اس کے حالات پر نظر ڈالنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ ایک طویل سروے اور غور وفکرکے بعد خود پولس افسران نے ہی تیار کی ہے۔اس رپورٹ کو تیار کرنے کی ذمہ داری تین پولس سربراہوں کو دی گئی تھی جن میں ایک مہاراشٹر کے ڈی جی پی سنجیو دیال، دوسرے اتر پردیش کے ڈی جی پی دیوراج ناگر اور تیسرے تمل ناڈو کے ڈی جی پی، رامانج ہیں۔ ان تینوں اعلیٰ پولس افسران نے طویل تحقیق اور سروے کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں ایمانداری سے قبول کیا گیا ہے پولس مسلم مخالف ہیں جس کا احساس مسلمانوں کو بخوبی ہے اور یہی سبب ہے وہ اس پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ یوں تو اس جائزے کا مقصد تمام اقلیتوں کا پولس کے تئیں نظریہ معلوم کرنا تھا مگر اس میں زور دیا گیا ہے مسلمانوں کے بارے میں ہی، کیونکہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ اس کمیٹی نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ پولس کے اندر تبدیلی کی ضرورت ہے اور اسے انصاف پسند بنایا جانا چاہئے۔ پولس میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی۔ 
فسادات کی تاریخ اور پولس کا رویہ
بھارت میں مسلم کش فسادات کی ایک تاریخ رہی ہے۔ اس کی ابتدا تو آزادی سے قبل ہی ہوگئی تھی مگر تب انگریز حکمراں تھے اور ان فسادات پر جلد ہی کنٹرول پالیا جاتا تھا مگر آزاد ی کے بعد اس میں اضافہ ہوا اور اب تک ایسے فسادات کی تعداد اکیاون ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے جن میں عموماً مسلمان ہی قتل کئے گئے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے ساتھ ہی خوفناک فسادات شروع ہوگئے تھے اور ہر طرف افراتفری تھی۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے اس قسم کے فسادات کا سلسلہ چلتا رہا مگر پولس نے ہر بار غیر ذمہ دار اور مسلم مخالف ہونے کا ثبوت دیا جس کے سبب مسلمانوں کا اس کے اوپر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ مذکورہ رپورٹ میں خود پولس نے قبول کیا ہے کہ جب رام مندر تحریک چلی اور بابری مسجد کے بہانے مسلمانوں کے خلاف فسادات شروع ہوئے تو پولس نے خود کو ہندتو وادی بنالیا تھا ۔ اس نے انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے بجائے ہندووں کا ساتھ دیا۔ یہ پولس ہی تھی جس نے فسادات میں مسلمانوں کی شکایتوں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ کئی بار وہ خود قاتلوں کے کردار مین نظر آئی۔ قارئین کے حافظے میں تازہ کرتے چلیں کہ میرٹھ کے مسلم مخالف فسادات ہوں یا بھاگلپور کا قتل عام ہر جگہ پولس کا رویہ ایک جیسا ہی دیکھنے کو ملا۔ میرٹھ میں تو پی اے سی کے جوانوں نے مسلم نوجوانوں کو گھر سے اٹھالیا تھا اور ٹرک میں بھر کر گنگ نہر کے قریب لے گئے اور گولیاں مار دیں۔ آسام میں مسلمانوں کے قتل عام کا ایک دور چلتا رہا ہے اور یہاں بھی ہر بار ہولس نے مسلمانوں کے قاتلوں کے تحفظ کا کام کیا ہے۔ ملک میں کہیں کوئی چھوٹا فساد ہو یا بڑا مگر پولس کا رول یکساں رہا ہے ۔ وہ انصاف کے بجائے قاتلوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے اور ان باتوں کا اعتراف اس رپورٹ کے اندر کیا گیا ہے جو پولس کے ہی اعلیٰ افسران نے تیار کی ہے۔ اس میں گجرات فسادات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور دوسرے کئی واقعات کا ذکر ہے جو پولس کے مسلم مخالف رویہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ 
پولس اسٹیشنوں میں مندر
بھارت کی پولس فورس اصل میں ہندو پولس فورس ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے افراد پوری طرح خود کو ہندو بنائے رکھتے ہیں۔ بھارت کے کسی بھی پولس اسٹیشن میں آپ پہنچ جائیں آپ کو مندر ضرور مل جائے گا اور یہاں مورتیاں بھی مل جائیں گی جو تھانے کے کمروں میں لگی ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال آپ راجدھانی دہلی کے خالص مسلم علاقے جامعہ نگر پولس اسٹیشن میں آکر دیکھ سکتے ہیں۔ تھانے کے احاطے میں ایک مندر قائم ہے ، جو یقیناًپولس جوانوں نے ہی تعمیر کی ہے۔ آپ نے کسی پولس استیشن میں مسجد نہیں دیکھا ہوگا بلکہ اگر کوئی پرانی مسجد موجود بھی ہوگی تو اسے منہدم کردیا جائے گا مگر مندر آپ کو ہرجگہ مل جائے گا۔ انتہا یہ ہے مغربی بنگال میں جن کمیونسٹ سرکار تھی تب بھی ان مندروں کو یونیہی قائم رکھا گیا اور آج تک قائم ہیں۔ حالانکہ کمیونسٹ مذہب کے معاملے میں اس قدر سخت تھے کہ وہ ویران مسجدوں کو آباد کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے اور مدرسوں کو ملک کے سیکولر سسٹم کے خلاف مانتے تھے لہٰذا انھیں منظوری نہیں دیتے تھے۔ باوجود اس کے انھیں ان مندروں پر کوئی اعتراض نہ تھا جو پولس اسٹیشنوں میں قائم تھے اور ان مورتیوں سے بھی کوئی بیر نہ تھا جو تمام تھانوں کے کمروں میں رکھی ہوئی تھیں۔اس قسم کی باتوں کا بھی اعتراف اس رپورٹ میں کیا گیا ہے اور اسے علامتی طور پر پولس کے فرقہ پرست ہونے کی دلیل مانی گئی ہے۔
عیدالاضحی کے بہانے 
عید الاضحی کے موقع پر مسلمان جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں اور اس کے لئے دور دور سے جانور لائے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں جانوروں کی آمد ہوتی ہے اور عام طور پر یہ فرقہ پرست تنظیموں کے لئے اشتعال انگیزی کا وقت بھی ہوتا ہے۔ جانوروں کی قربانی کو بہانہ بناکر وہ طرح طرح سے ماحول بگاڑنے کا کام کرتی ہین۔ حالانکہ قانونی طور پر مسلمان اپنے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے آزاد ہیں اور کوئی قانون انھیں قربانی سے نہیں روکتا ہے۔ البتہ بعض ریاستوں میں گؤ کشی پر پابندی ہے مگر کہیں بھی جانوروں کے لانے اور لے جانے پر پابند ی نہیں ہے مگر ہندتو وادی جماعتیں مسلمانوں کو پریشان کرتی ہیں اور اس کام میں پولس بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔ حالانکہ ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں گائے گوشت کے تمام بڑے اکسپورٹر ہندو ہیں اور مسلمان ان کی کمپنیوں میں صرف نچلے عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف خود وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن سے قبل کیا تھا۔ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ نہ فرقہ پرست جماعتیں کچھ کہتی ہیں اور نہ ہی پولس کچھ کوئی کارروائی کرتی ہے مگر مسلمانوں کے تہوار کو نشانہ ضرور بنای جاتا ہے۔ یہ کام ہرسال کیا جاتا ہے اور اس بات کا ذکر اس رپورٹ کے اندر بھی ملتا ہے۔ 
مشورے اور سفارشیں
اعلیٰ پولس افسران کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں پولس کو سیکولر اور انصاف پسند بنانے کے لئے کئی مشورے دیئے گئے ہیں اور یہ کہا گی اہے کہ اگر پولس کو درست کیا گیاتب ہی اس پر تمام طبقات بھروسہ کرپائیں گے۔ اس میں سب سے اہم مشورہ یہ ہے کہ پولس میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے لہٰذا ان کی تعداد بڑھائی جائے۔ ایسا کیاگیا تو مسلمانوں کا اعتماد قائم ہوسکتا ہے۔ پولس کی تربیت کا مشورہ بھی دیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر تبدیلی کی سفارش کی گئی ہے۔ ان تمام مشوروں اور سفارشوں کے پیش نظر ہم قارئین کو بتانا چاہیں گے کی اس قسم کے مشورے اور سفارشات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ گجرات میں جب کانگریس کی سرکار تھی اور چمن بھائی پٹیل وزیر اعلیٰ ہواکرتے تھے تو فسادات کا ایک دور چلا تھا۔ اس دوارن مرکز میں چندرشیکھر کی سرکار تھی۔ تب کانگریس کے لیڈر کی حیثیت سے راجیو گاندھی نے مدیر ’’نئی دنیا‘‘ شاہد صدیقی کو گجرات بھیجا تھا تاکہ جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔ شاہد صدیقی نے فسادات کا جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ دی تھی جس میں پہلی بار ریپیڈ ایکشن فورس کا آئیڈیا دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ راجیو گاندھی نے اس وقت کے وزیر اعظم چندر شیکھر کو پیش کردی تھی مگر یہ سرکار زیادہ دن نہیں چلی اور راجیو گاندھی کی موت کے بعد کانگریس کی سرکار آئی جس کے سربراہ پی وی نرسمہا راؤ تھے۔ انھوں نے ریپیڈ ایکشن فورس قائم تو کیا مگر اس کے لئے جو مشورے دیئے گئے تھے ان کا دھیان نہیں رکھا۔ شاہد صدیقی نے سفارش کی تھی کہ اسے جدید انداز کی فورس بنائی جائے جو جدید آلات اور ذرائع سے لیس ہو مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ مشورہ یہ بھی تھا کہ اس میں سبھی فرقوں کو نمائندگی دی جائے اور اس کی تربیت سیکولر خطوط پر کی جائے اس پر بھی عمل نہین کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ یہ فساد شکن فورس اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہوئی ہے۔ اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت سے قبل اسے بھیجا گیا تھا مگر تب کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے اسے اجودھیا میں تب تک داخل نہ ہونے دیا جب تک کہ مسجد شہید نہ ہوگئی۔ ظاہر ہے مسئلہ صرف پولس فورس کا نہیں بلکہ حکومتوں کی نیت کا بھی ہے۔ جب مسئلہ ہر سطح پر ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی نیت بھی نہیں ہے تو وہ ٹھیک کیسے ہوگا۔ آج یہ رپورٹ آئی ہے اسے بھی سرد بستے میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ سرکار کی نیت بھی کچھ کرنے کی نہیں ہے۔

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے