ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

امریکہ کے اس وقت کے ملعون صدر جارج بش نے افغانستان پر حملہ کرتے وقت اسے صلیب و ہلال کی جنگ کہا تھا جبکہ جنگ دوطرفہ ہوتی ہے اور امریکہ کی کارروائی بالکل یک طرفہ تھی۔ امریکہ نے کنکر پتھر کی طرح بم برسائے لیکن یہ حسرت بش کے دل میں ہی رہ گئی کہ وہ اسامہ بن لادن کو اپنے بموں کا نشانہ بنا سکے۔
اسامہ بن لادن کے بعد ایمن الظواہری القاعدہ کے امیر ہیں۔ وقفہ وقفہ سے وہ دنیا کو خطاب کرتے رہتے ہیں لیکن تازہ ترین خطاب میں انہوں نے ہندوستان میں ایک ایک نئے وِنگ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ جس سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حکومت تو وہ کررہی ہے جو اُسے کرنا چاہئے اور مسلمان ان کے اس اعلان سے حکومت سے زیادہ پریشان ہیں۔ ہم یہ تو نہیں مان سکتے کہ انہیں ہندوستان کے حالات کا علم نہیں ہے اس لئے کہ آج کے زمانہ میں ابلاغ کے اتنے وسائل ہوگئے ہیں کہ سمندر میں بھی اگر مچھلیاں لڑیں تو ہم زمین والوں کو خبر ہوجاتی ہے۔ ایمن الظواہری کو بھی معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں سیکڑوں مسلمان نوجوان پاکستان کے شیطان نما دہشت گرد حافظ سعید اظہر مسعود وغیرہ سے رشتوں کے الزام میں شہید کردیئے گئے ہیں اور ہزاروں پورے ملک کی جیلوں میں انتہائی تکلیف برداشت کررہے ہیں جن میں سے اکثر بے قصور ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ابھی تک طالبان اور القاعدہ سے تعلق کا کسی پر الزام نہیں آیا ہے لیکن اب ایمن الظواہری کے ٹیپ کے بعد ہر نوجوان کے سر پر تلوار لٹک جائے گی۔ ہماری آواز تو بہت کمزور ہے اور ہماری حیثیت بھی کیا ہے؟ لیکن یہ مسئلہ نظر انداز کرنے والا بھی نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء، جامعہ سلفیہ بنارس، مظاہر العلوم سہارن پور وغیرہ اور جمعیۃ علماء ہند کے دونوں صدور پر زور آواز میں ظواہری سے کہیں کہ وہ ہندوستان کے نوجوان مسلمانوں پر رحم کریں اور اگر کوئی سرپھرا نوجوان جوش جہاد میں القاعدہ کا رُکن بننا بھی چاہے تو اسے واپس کردیں۔
اس وقت ہندوستان میں جو حکومت ہے اس کے ذمہ دار تو اپنی مصلحت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں لیکن ان کے لگوبھگو یوگی آدتیہ ناتھ، ڈاکٹر پروین توگڑیا، ونے کٹیار، کلراج مشرا جیسے سیکڑوں ہیں جن کا کام انڈین مجاہدین اور لو جہاد جیسے جہالت سے بھرپور مسئلے اُٹھاکر سادے اور شریف ہندوؤں کو شرپسند بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ ہندوستان میں اگر نام کے لئے بھی القاعدہ یا طالبان نے کسی سرگرمی کا مظاہرہ کیا تو یہ نہ صرف مسلمان بلکہ اسلام کے خلاف کارروائی ہوگی اور ہم ہندوستانی مسلمان امریکہ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے۔
الظواہری کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ابھی تک ان ہی زخموں کو چاٹ رہے ہیں جو مسلمانوں کے دشمن مسٹر جناح کے فیصلہ سے اس وقت لگے تھے جب انہوں نے ملک کو تقسیم کرایا تھا صرف اسی شوق میں کہ ان کا نام بھی دنیا میں ایک نیا ملک بنانے والوں میں لکھا جائے گا اور جس کا انجام یہ ہوا کہ ہم ہندوستانی مسلمان بے قصور مارے جارہے ہیں اور جو ملک مسٹر جناح بنا گئے وہاں ہندوستان سے زیادہ آپس میں لڑلڑ کر مررہے ہیں۔ ایمن الظواہری کو اگر کچھ کرنا ہے تو وہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی ایسا کام کریں کہ دونوں ملک ترقی کرکے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوجائیں۔ آج دونوں مسلم ملک ہیں اور دونوں کا حال یہ ہے کہ وہاں سب کچھ ہے بس اسلام نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت امیرالمومنین وہ نواز شریف ہیں جو آٹھ برس مدینہ منورہ میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے کے بعد بھی جب ہندوستان کے وزیر اعظم شری نریندر مودی کے برابر کھڑے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کسی کی ایسی کی اولاد ہیں جس کا باپ عیسائی ہو اور ماں پنجابی مسلمان۔ آٹھ برس مدینۃ الرسولؐ میں رہ کر بھی اسلامیت کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی اور جو کرکٹ کے کھلاڑی لنگوٹ کے انتہائی کچے ہر ملک کی لڑکیوں کی آبرو سے کھیلنے کے لئے بدنام عمران خان ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں وہ نواز شریف سے بھی دس گنا زیادہ ننگ اسلام ہیں اور جو اُن کی مدد کرکے اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں یعنی طاہر القادری وہ پاکستان کا کیا کریں گے یہ مولا ہی جانتا ہے؟
ایمن الظواہری اور القاعدہ کے لئے سب سے بڑا کام پاکستان کو اسلامی ملک بنانا ہے اس کی سرحد افغانستان سے ملی ہوئی ہے وہ جو اسلامی حکومت اور اسلامی نظام چاہتے ہیں اسے پہلے پاکستان میں نافذ کریں جس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے وزیر اعظم کی صورت اسامہ بن لادن، ملاعمر یا ایمن الظواہری جیسی ہو وہاں سے عروج بامفروج کی لعنت کو ختم کرایا جائے اور اس رشوت کو ختم کیا جائے جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ الظواہری اور القاعدہ کے لئے پاکستان میں ہی اتنا کام ہے کہ ان کی عمر ختم ہوجائے گی اور کام پورا نہیں ہوگا۔ وہاں وہ کام کریں گے تو مسلمانوں کا اور اسلام کا بھلا ہوگا اور اگر انہوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تو یہ ہم مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ دشمنی ہوگی اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی بات پر اَڑے رہیں تو ہندوستان میں داخل ہونے سے پہلے اپنی شکل صورت بدل کر نواز شریف، مشرف اور عمران جیسی بنا لینا چاہئے؟۔

«
»

’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

مسئلہ فلسطین کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے