ہندوستانی مسلمان دہشت گرد نہیں محب وطن ہیں، پھر الزاموں کے گھیرے میں کیوں؟

اس قسم کے سوالات میڈیا اور مسلم مخالفین کا ایک طبقہ اکثر اٹھاتا رہتا ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر ان سب لوگوں کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے آسام میں اپنی ایک تقریر کے دوران یہ کہا کہ ملک کے مسلمان ہی القاعدہ کی کوششوں کو ناکام بنائینگے اور اسے یہاں منہ کی کھانی پڑے گی۔ انھوں نے مانا کہ یہاں کے مسلمان محب وطن ہیں اور اتنے بڑے ملک میں صرف ۱۸ مسلم نوجوانوں نے ہی داعش میں کشش کا احساس کیا ہے۔ حالانکہ وہ اسے بھی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ہلکے میں نہیں لینا چاہتے ۔ انھوں نے مغربی بنگال پولس اور این آئی اے کا شکریہ ادا کیا جس نے مغربی بنگال میں ایک بین الاقوامی سازش کو ناکام بنایا۔ اس کے لئے انھوں نے مقامی لوگوں کو نہیں بلکہ بیرون ملک کے افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا۔بات یہیں پر نہیں رک جاتی بلکہ ہندوستان کے جیمس بانڈکہے جانے والے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈھوبھال نے بھی اعلان کیاتھا کہ بھارت کے مسلمان کسی بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں پائے گئے ہیں۔وہ اجیت ڈوبھال جن کے پاس ملک کی سلامتی سے جڑی ہوئی تمام خبریں ہوتی ہیں اور اس معاملے میں وہ حکومت کو مشورے دیتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ بھارت سے صرف چند نواجوانوں کی داعش میں شمولیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ورنہ فرانس کے تو ہزاروں مسلمان داعش میں شامل ہوگئے ہیں۔ 
جہاں فرانس کے مسلمانوں کا ایک طبقہ داعش میں شامل ہوکر اس کی حمایت میں جنگ کر رہا ہے،جہاں برطانیہ کے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ عراق اور شام کے محاذ پر جنگ میں شامل ہیں، جہاں یوروپی ملکوں کے کچھ مسلم داعش کی حمایت کر رہے ہیں ، جہاں عرب ملکوں کے مسلمانوں میں سے کچھ لوگون کی حمایت داعش کو مل رہی ہے اور وہ اس سے جڑ رہے ہیں، وہیں ہندوستانی مسلمان داعش کے خلاف ہیں
اور ہر قسم کی جنگ جوئیت و دہشت گردی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔وہ نہ تو داعش کے ممبر ہیں اور نہ ہی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کو اس میں کسی کشش کا احساس نہیں ہور ہا ہے اور وہ اس کے خلاف ہیں۔ اس حقیقت کو قبول کیا ہے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ یہاں کے مسلمان امن پسند ہیں اور محب وطن ہیں۔ وہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیم کی کوششوں کو ناکام بنا دینگے۔ مودی نے پہلے امریکی ٹی وی چینل سی این این اور پھر اپنے امریکی دورے کے دوران کہا تھا کہ یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناانصافی ضرور ہوئی ہے مگر وہ شدت پسندی میں یقین نہیں رکھتے اور القاعدہ جو یہاں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔اب اسی قسم کی بات قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے بھی کہی ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت کے مسلمان امن پسند ہیں اور ان کا عراق وشام میں برسر پیکار اسلامی اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس ) سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پانچ شکایتیں ایسی ملی ہیں کہ یہاں سے کچھ بھٹکے ہوئے نوجوان اس میں شامل ہونے کے لئے گئے ہیں جس کی تحقیق چل رہی ہے۔ وزیر اعظم کے بعد اجیت ڈوبھال کی طرف سے مسلمانوں کی امن پسندی کی بات قبول کرنے پر ان لوگوں کے منہ پر کالک پت گئی ہے جو مسلمانوں کو دہشت گرد ہونے کے طعنے دیتے رہتے ہیں اور ان پر شدت پسندی کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ داعش میں شریک ہونے والے ہندوستانیوں کی تعداد ۱۸ بتاتے ہیں۔
ممبئی کے چار مسلم نوجوانوں کی کہانی
اجیت ڈوبھال نے حال ہی میں ایک پروگرام کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں نے داعش کی حمایت نہیں کی ہے اور نہ اس جنگ میں کوئی دلچسپی دکھائی ہے جو مشرق وسطیٰ میں جاری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فرانس کے دوہزار مسلم نوجوان اس جنگ میں حصہ لے رہے ہیں مگر بھارت والوں نے اس میں شرکت پسند نہیں کی۔ البتہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک ایسی پانچ اطلاعات ملی ہیں جن کی جانچ کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ممبئی کے چار مسلم نوجوانوں کے عراق جانے اور اس میں حصہ لینے کی شکایت ان کے گھرو الوں نے کی ہے۔یہی بات وزیر داخلہ نے بھی دہرائی ہے کہ جو لڑکے عراق کے محاذ پر لڑنے گئے ہیں ان کے گھر والوں نے ہی اس کی شکایت حکومت سے کی تھی اور ان کی گھر واپسی کے لئے سرکار سے مدد مانگی تھی۔حالانکہ اتنے بڑے ملک میں جہاں کروروں مسلمان بستے ہیں وہاں صرف ۱۸ افراد کی شرکت معمولی بات ہے۔ غور طلب ہے کہ ممبئی کے چار مسلم نوجوانوں کے عراق جانے کی اور داعش میں شامل ہونے کی خبر سے ملک میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق یہ نوجوان عراق میں جاری جنگ میں حصہ لینے گئے تھے۔ان نوجوانوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ چاروں تعلیم یافتہ ہیں اور ان کا ماضی کبھی بھی دہشت گردی یا غیر سماجی سرگرمیوں سے آلودہ نہیں رہا ہے ۔تھانے علاقے میں رہنے والے فہد تنویر شیخ، عارف فیاض مجید، شاہین فاروقی او ر امان نعیم ٹنڈیل چند مہینے قبل غائب ہوئے تھے۔ان کے گھر والوں نے پہلے ان کی گمشدگی کی رپورٹ پولس میں درج کرائی تھی مگر جب ان میں سے کسی ایک نوجوان نے اپنے عراق میں ہونے کی اطلاع فون کے ذریعے دی تو اس کے گھر والوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اسی نے دوسروں کے بارے میں
بھی اطلاع دی کہ اس کے ساتھ موجود ہیں۔ فہد کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ انگلش میڈیم سے تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس نے انجینرینگ میں ڈپلومہ کیا ہوا ہے۔ اس نے کسی کمپنی میں گزشتہ مئی مہینے میں نوکری پکڑی تھی مگر اس کے دو دن بعد ہی وہ اچانک غائب ہوگیا۔ وہ گھر سے کہہ کر نکلا تھا کہ وہ جاب پر جا رہا ہے۔ گھر والوں نے اسے بہتیرا ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملا تو مقامی پولس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرادی۔اسی طرح کی تین رپورٹیں درج ہوئیں جو تین الگ الگ نوجوانوں کے بارے میں تھیں۔ عارف فیاض مجید کے والد ڈاکٹر اعجاز مجید نے کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا عارف عراق میں ہے اور اس نے اطلاع دی ہے کہ وہ عراق میں جنگ کے خاتمے کے بعد واپس آئے گا۔ حالانکہ عارف حال ہی میں عراق سے لوٹ آیا ہے اور اسے یہاں لانے میں سرکار کی مدد بھی شامل رہی ہے ۔ اس وقت وہ پولس کسٹڈی میں ہے اور اس سے پوچھ تاچھ کا سلسلہ جاری ہے۔اس ساتھ عراق جانے والے دوسرے نوجوانوں کے گارجین بھی فکر مند ہیں۔ ان تما م گمشدہ مسلم نوجوانوں کے گھر والے اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں تشویش میں مبتلا ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کے بچے عراق کی جنگ کا حصہ بن کر اپنی زندگی گنواسکتے ہیں۔ پولس اس پورے معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور ان لڑکوں کے موبائل فون نمبروں کی جانچ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیپ ٹاپ وغیرہ کی بھی چھان بین کی گئی ہے۔
کہانی پوری فلمی ہے
ممبئی کا عارف جو کہ عراق جاکر داعش کی حمایت میں لڑ رہا تھا وہ بھارت واپس آچکا ہے اور کورٹ نے اسے این آئی اے کی تحویل میں دے دیا ہے جو اس سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ اس کی کہانی کسی فلمی کہانی جیسی ہے۔ وہ اپنے دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ بھارت سے بغداد پہنچا تھا۔ وہ لوگ زائرین کے ایک گروپ کے ساتھ بغداد گئے تھے مگر وہاں سے ان لوگوں نے اس گروہ کو خیرآباد کہا اور داعش کے کنٹرول والے فالوجہ میں علاقے تک ایک ٹیکسی کے ذریعے گئے۔ فالوجہ میں ان کے ہتھیار چلانے اور جنگی تربیت کا انتظام کیا گیا اور ٹریننگ پوری ہونے کے بعد ان سب لوگوں کو ترکی سے متصل علاقے الرقہ میں لڑنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ یہاں وہ لوگ ایک کیمپ میں تھے جہاں اس کے ساتھ اور بھی جنگ جو موجود تھے ۔ یہاں کسی غلط فہمی کے نتیجے میں اس کے ساتھیوں سے گولیاں چل گئیں اور عارف زخمی ہوگیا تھا اوراسے علاج کے لئے ایک اسپتال میں داخل کردیا گیا جو ایک کیمپ میں ہی بنایا گیا تھا۔ اسے دو گولیاں لگی تھیں اور اس کے زندہ بچ جانے کی امید بہت کم بچی تھی۔ اس واقعے کی اطلاع اس کے ان تین ساتھیوں کو بھی مل گئی تھی جو اس کے ساتھ ممبئی سے گئے تھے اور انھیں کسی دوسرے مقام پر رکھا گیا تھا۔ انھیں اس کی موت کی خبر ملی اور کسی ایک نے یہ اطلاع ممبئی فون کر کے اس کے والد کو دے دی۔اس خبر سے عارف کے گھر میں ماتم پھیل گیا مگر جب صحت یاب ہونے کے بعد اس نے اپنے گھر فون کیا تو دوبارہ خوشیاں لوٹ آئین اور اس کی گھر واپسی کی امید والدین کو ہوئی۔ انھوں نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے مل کر اس کو واپس لانے کی درخواست کی۔ اصل میں وہ کسی طرح ترکی چلا آیا تھا اور استنبول میں تھا جہاں سے اسے واپس بھارت لانے میں ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے مدد کی۔ 
اپنا گڈو مل گیا
ممبئی پہنچتے ہی عارف نے اپنے والد کو فون کرکے اطلاع دی کہ وہ ممببئی پہنچ چکا ہے۔ یہ خبر اس کے والد کے لئے خوش کن تھی اورانھوں نے اپنے ایک رشتہ دار کو فوراً فون کر کے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ اپنا گڈو مل گیا ہے۔ اس وقت عارف این آئی اے کی تحویل میں ہے اور ممبئی پولس سمیت کئی خفیہ ایجنسیاں سے اس سے پوچھ تاچھ کر رہی ہیں۔ عارف خود کو خوش قسمت مانتا ہے کہ وہ گولیاں لگنے کے بعد بھی زندہ و سلامت بچ گیا مگر اسے افسوس نہیں کہ وہ داعش کی حمایت میں لڑ رہا تھا۔ وہ قیام خلافت کو مذہبی فریضہ مانتا ہے جس کے لئے جد وجہد کرنا چاہئے۔ اس نے پوچھ تاچھ کے دوران بتایا کہ اس کا برین واش کسی شخص نے نہیں کیا اور نہ کسی نے اسے عراق جانے پر اکسایا۔ وہ اور اس کے دوستوں نے انٹرنیٹ پر موجود مواد پڑھ کر یہ فیصلہ لیا تھا۔ بہر حال اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ ۱۲۵ کے تحت معاملہ درج کرلیا گیا ہے۔ یعنی اس پر بھارت کے دوست ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا کیس درج کیا گیا ہے اور پوچھ تاچھ جاری ہے۔ حکومت اب ان نوجوانوں کو بھی واپس لانا چاہتی ہے جو اب تک واپس نہیں لوٹے ہیں۔یہ اچھی بات ہے کہ حکومت ہند ایسے لڑکوں کو ایک موقع دینا چاہتی ہے کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔
خفیہ ایجنسیوں کی نظر مسلمانوں پر
خیلجی ملکوں کے حالات کے جانکار مانتے ہیں کہ یہاں کی جنگ میں ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یوروپی ملکوں کے ہزاروں جنگ جو یہاں جنگ میں شریک ہیں اور امریکہ و یوروپ کے خلاف بھی لڑائی کر رہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ عرب ملکوں کے نوجوان بھی اس جانب کھنچے آرہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے بھی وہ اس جانب متوجہ ہورہے ہیں ۔ یہاں لڑنے والوں میں مقامی لوگوں سے کم نہیں ہیں بیرونی جنگجو مگر بھارت کے مسلمانوں نے ا س سے جڑنا پسند نہیں کیا۔ جس ملک میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں وہاں سے صرف ۱۸ نوجوانوں کا عراق جانا قابل توجہ نہیں ہے۔ بھارت سرکار بھی ان تمام معاملات کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے ارو ھالاات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ خفیہ ایجنسیاں نیٹ ورکنگ سائٹس اور سائبر ورلڈ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کی بو سونگھنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہین مگر انھیں اب تک کسی قسم کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ موجودہ سرکار مسلمانوں کی ہمدرد ہرگز نہیں ہے ایسے میں اگر وہ کہہ رہی ہے کہ مسلمان دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں اور محب وطن ہیں تو اسے دشمن کی گواہی کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ اس کا یہ اعلان سنگھ پریوار کی ان تنظیموں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مسلمانوں کو دہشت گردی کے طعنے دیتی رہتی ہیں ۔ اس اعلان کے بعد میڈیا کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئے جو خواہ مخواہ مسلمانوں کو بدنام کرنے میں اپنی انرجی لگاتا ہے۔

«
»

پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

بعثت رسول سے قبل عرب کے حالات کا اجمالی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے