اپنی نیک نیتی کے سلسلہ میں وہ اسی وقت حقیقی معنوں میں مخلص ثابت ہو سکتے جب وہ اپنے تصور کے ماڈل ہندوستان کے لیے عملی طور پر کچھ کوشش کرتے تاکہ زبان سے جوش قوی پیدا ہونے کے ان کے دعوں کا کچھ تو بھرم رہ پاتا۔
ان کی چرب زبانی او رکانگریس کو ناکارہ ثابت کرنے کی روایت کے تحت انہوں نے پارلیمانی الیکشن کی مہم کے دوران حسبِ عادت و حسبِ روایت ڈاکٹر من موہن سنگھ کا مذا ق اُڑاتے ہوئے سر دار ہوتے ہوئے بھی ان کی لہجہ کی نرمی کے حوالے سے انہوں نے چین کی داد ا گیری پر اس سے سختی سے جواب طلب نہ کرنے پہ ان کی پریڈ سامعین جلسہ کی واہ واہ کے سوا الیکشن میں ان کے ووٹس بھی ہتھیالیے۔ اسے حسنِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ موصوف کے دورۂ چین سے ایک روز قبل چین کے سر کاری ٹیلی ویژن نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ چین کی خبر کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا نقشہ پیش کرتے ہوئے اس نقشہ میں سے کشمیر کا کچھ علاقہ او رارونا چل پردیش کے تو انگ کو اس نقشہ سے حذف کر دیا ۔ حکومت چین ۔ چینی ٹیلی ویژن کی اس شرارت کے خلاف ہماری وزراتِ خارجہ 249 وزراتِ داخلہ او رہماری با اثر خفیہ ایجنسی Research & Analysis Wingکے سوا آر ایس ایس ‘ بی جے پی اور ہندتوا نوازچھوٹے موٹے پاکٹ ایڈیشن کی جانب سے کسی رد عمل سے گریز کے علاوہ اپنے تین روزہ چین میں قیام کے دوران خود وزیر اعظم کی جانب سے اس مسئلہ سے گریز پر ملک کو شدید حیرت ہے کہ اس مسئلہ پر کانگریس او رمنموہن سنگھ پر تنقید کرنے والے نریندر مودی کا یہ اخلاقی فر ض تھا کہ خود کو سچے محبِ الوطن کی حیثیت سے بڑے دعوی کرنے والے اِس شخص نے اس حساس مسئلہ پر کس مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کی؟
ہماری ناقص معلومات کے بموجب غیر ممالک جانے والے اس طرح کے غیر سگالی وفود میں وزراتِ خارجہ ‘ وزراتِ داخلہ اور جس مقصد کے لیے مذکورہ وفد جا رہا ہو اس کی وزرات کے ذمہ داروں کے سوا ملک کے چنندہ صحافیوں کی ٹیم بھی شامل رہتی ہے۔ مودی میک ان انڈیا کی ما رکیٹنگ کے لیے نکلے ہیں تب ان کے ساتھ وزراتِ صنعت او رکامرس کے ذمہ داروں کا ساتھ رہنا بھی ضروری تھا۔ مصدقہ ذرائع سے محصلہ معلومات کے بموجب ہمارے وزیر اعظم کے اس دورہ میں اڈانی گروپ آف انڈسٹریز کے مختارِ کل او ربھارتی ایرٹیل کمپنی کے ذمہ دار ان کے ہمراہ تھے۔ 2200 کروڑ ڈالر کے اس تجارتی معاہدہ میں ہر دو گروپ کی ایک معنوں میں چاندی ہی رہی ۔ آسٹریلیا کے دورہ کے وقت بھی اڈانی گروپ کے روحِ رواں وزیر اعظم کے ہمر کاب تھے۔ وزیر اعظم مودی کی اسمارٹ سٹی اسکیم کا خواب چین کے تعاون سے گجرات میں ہی شرمند�ۂ تعبیر ہو گا۔ اس پر وزیر اعظم سے یہ کوئی پوچھ بیٹھے کہ اسمارٹ سٹی کی تعمیر او رتجارتی معاہدہ میں صنعتکاروں کا تعلق گجرات سے ہو تب مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں یا صرف گجرات کے؟اس دوران 7200 کروڑ کا بھی ایک تجارتی معاہدہ کیا گیا اس معاہدہ کی خاص بات یہ ہے کہ ہندوستانی بازاروں میں چینی ساخت کی الکٹرانک اشیاء موبائل ہینڈسیٹس او ر بچوّں کے کھلونے سستے رہنے کی وجہہ سے ان کی ہندوستانی بازار میں بہتر مانگ ہے جبکہ چین کے بازاروں میں ہندستانی اشیاء مہنگی ہونے کی وجہ سے وہاں جاپان اور امریکی مصنوعات کا بول بالا ہے ۔ صدر چین جن پنگ کے دورۂ ہندوستان کے وقت وزیر اعظم نے ان کا آبائی ریاست میں خیر مقدم کیا تھا۔ مودی او رجن پنگ کے ساتھ جھولے میں بیٹھ کر ہلکورے بھی لےئے تھے۔ بارک اوباما کی طرح جن پنگ بھی مودی کے دوست ہونے کے طفیل وزیر اعظم اس خوش فہمی کے شکار ہیں کہ وہ ان کے او ران کے ملک کے ساتھ بہتر سلوک کرینگے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کے مقابلہ پاکستان کے لے چینی حکمرانوں کے دل و دماغ میں نرم گوشہ ہے اس سے قبل چین نے اقصائے چین او رتبّت پر قبضہ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا۔اس دعوی سے انحراف کی مثال تبت او رتوانگ میں زبردست تعمیری سر گرمیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے با وجود ہمارے وزیر اعظم نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چینی سیاحوں کا الکٹرانک ویزہ کی سہولت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے شنگھائی میں کانگریس ۔ راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے ان کی غلطیوں کی صفائی کا جس طرح اظہار کیا وہ کسی ملک کے وزیر اعظم کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ بیوہ پڑوسن کی طرح اپنی ساس کے مظالم غیروں کو سناتے پھریں۔
گجرات فساد کے موضوع پر وہاں کے وزیر اعلی کو راج دھرم نبھانے کی تلقین کرنے والے اٹل بہاری باجپئی نے ہندوستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے 1979 میں ان کے دورۂ چین کے موقعہ پر ہی چین کی جانب سے ویتنام پر حملہ کی مذمت میں بطور احتجاج اپنا دورۂ چین منسوخ کر کر ملک واپسی کو ترجیح دی تھی۔ 1954 میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا چین میں زبر دست خیر مقدم کیا گیا تھا۔ پنڈت نہرو نے ان کے خیر مقدمی پروگرام میں چین کے نقشہ میں تبت کی شمولیت پر ان کے اعراض جتانے پر چین کے وزیر اعظم چاؤ این لائی نے اسے وزراتِ خارجہ کے عہدیداروں کی تکنیکی غلطی قرار دیتے ہوئے 1962 میں اس پر عملی قبضہ کے ذریعہ عہدیداروں کی تکنیکی غلطی کو اپنی توسیع پسندی کی شکل دے دی۔ ہمارے وزیر اعظم آر ایس ایس کے تاریخ او رجغرافیہ سے ہٹ کر ہندوستان کی اصل تاریخ کا مطالعہ کریں تب ان کی کئی غلط فہمیوں کے ساتھ ان کی کج فہمی کی کچھ نہ کچھ اصلاح ممکن ہو پائے گی۔صلائے عام ہے یارانِ نکتہ دان کے لئے۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف
جواب دیں