جسٹس کرنن نے چاہے کسی بھی تناظر میں یہ فیصلہ دیا ہو ظاہر ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں اس قسم کے عدالتی فیصلوں یا ریمارکس پر شدید ردعمل ہونا ہی ہے۔ یہ کیسا عدالتی فیصلہ ہے۔ جس سے ہندوستانی معاشرتی، مذہبی اقدار، روایات کو زبردست ٹھیس لگ سکتی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستانی عدالتوں نے ایسے بہت سارے فیصلہ سنائے ہیں جس سے ہندوستانی سماج اخلاقی گراوٹ کے دلدل میں دھنستا چلاتا جاتا ہے۔ ہم جنسی کو جائز قرار دیا جانا ایک ہی جنس کے مرد و خواتین کی آپس میں شادی کی اجازت کے علاوہ رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت یا اسے تعذیری جرم نہ قرار دینا افسوسناک ہے۔ چونکہ ہندوستان تیزی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی جدوجہد کررہا ہے۔ ہر ایک شعبہ حیات پر مغربی تہذیب و ثقافت کے اثرات غالب ہوچکے ہیں۔ تو پھر عدلیہ اس سے کیوں کر محفوظ رہ سکتا ہے۔ ہندوستانی عدالتوں نے ہندوستان کو مغربی تہذیب کے سانچوں میں ڈھلنے کی راہیں ہموار کردی ہیں۔ ہر برائی اور عیب کو اب روشن خیالی اور ترقی یافتہ سماج کی علامت تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ جس کے بعد یہ کہنا اب مشکل ہے کہ آنے والے برسوں میں ہندوستان بے راہ روی میں بھی سب سے آگے ہوجائیگا۔ معزز جج نے شادی سے پہلے کے تعلقات کی بنیاد پر میاں بیوی کا رشتہ تو قائم کردینے کی بات کہی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ اگر عورت یا مرد دونوں کے ایک سے زائد افراد سے جسمانی تعلقات ہیں تو پھر ان کا رشتہ اور موقف کیا ہوگا۔ اگر کوئی مرد بیک وقت ایک سے زائد خواتین سے تعلقات رکھتا ہے تو اس کے بارے میں کیا رائے ہے اور یہی حال اگر خاتون کا ہو تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ اس قسم کے فیصلے دراصل بے راہ روی، آوارگی کو عام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ہر ایک مذہب میں شادی سے پہلے کے تعلقات کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ناجائز تعلقات رکھنے والے مرد و عورت دونوں ہی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہی سب سے بڑی سزا ہے۔ اسی سزا کے خوف سے بیشتر برائیاں پنپ نہیں پاتیں۔ جب قانون خود بلاواسطہ نرمی اختیار کرے اور شادی سے پہلے کے تعلقات کی بناء پر میاں بیوی قرار دے تو اس سے لڑکیوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اب کوئی بھی گناہ یا جرم کرے گا تو اسے قانون کے دائرہ ہی میں سمجھا جائے گا۔ جو ہندوستانی سماج کی تباہی کا سبب بن جائے گا۔ ماقبل شادی تعلقات کے نتیجہ میں اولاد ہوگی تو کیا اسے عدالتیں جائز قرار دے گی۔ اور کیا اسے ہندوستانی سماج قبول کرپائے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناجائز تعلقات کی بنیاد پر ہونے والی اولاد کو بھی کسی ایک فریق کے دعوے کی بنیاد پر ڈی این اے کی بنیاد پر عدالتیں والدین کے حقوق کے حقدار تو قرار دیتی ہے مگر انہیں سماج میں جو مقام ملنا چاہئے وہ نہیں مل پاتا۔ عدالت کے فیصلے یا ریمارک کو کسی بھی مذہب کے ماننے والے قبول نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ عدالتی فیصلوں سے مذہبی اصول و قوانین تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔
ہندوستانی عدالتوں کے یہ فیصلے ہندوستانی سماج کے لئے فکرمندی کا سبب ہیں۔ جن اداروں پر ملک کی تہذیب، ثقافت، اقدار، روایات کے تحفظ اور بقاء کی ذمہ داری ہے اس کے اہم منصب پر فائز ارباب کا انداز فکر انحطاط یا گراوٹ کا شکار ہونے لگا ہے۔ جس کا اثر پورے سماج پر ہوتا ہے۔ ہندوستانی عدلیہ کے انداز فکر کو بدلنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ اس کے لئے قانون کے طلبہ، ماہرین اور محافظین کو اخلاقی اقدار پر مبنی تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔
جواب دیں