ہندوستان کی سیاسی تصویراوریوپی انتخابات کاعکس!ایک جائزہ

 

   از :ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

 

اترپردیش ملک کا سب سے بڑ ااسمبلی وپارلیمانی صوبہ ہے،جہاں بیس فیصد آبادی صرف مسلمانوں کی ہے،اسی صوبہ کیوجہ سے ملک کی سیاسی تصویر سنورتی اور بگڑتی ہے ،مگراس بار  پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے درمیان یوپی کا الیکشن اور سلیکشن 2024 میں پارلیمانی انتخاب کیساتھ ساتھ پورے ملک کے لئےبہترین آئینہ ثابت ہوگا، یہ تاثر بڑے بڑے قائدین اور دانشوران  کیساتھ اب آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت کے بیان سے بھی ظاہر ہورہا ہے، یوپی میں بی جے پی کی  پریشانیاں ملک کی حالیہ تصویر ،انکی  اوچھی سیاست کو فروغ دینے ، ضابطے اور قانون کی دھجیاں اڑانے ، جذبات واحساسات کے شعلوں کو بھڑکانے، مذہب ودھرم کی آڑ میں رکیک اور اوچھے تبصرے کرنے ،  مفاد پرستی اور خود غرضی کی مثالیں قائم کرنے  اور جمہوری قدروں کو پامال کرنے کی وجہ سےکافی بڑھ گئی ہیں،موہن بھاگوت کے بقول اگر یوگی کی حکومت اس بار جاتی ہے تو 2024 کا الیکشن بھی مودی کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اللہ کرے یوپی کی عوام اسی حکمت عملی اور دانشمندی کا ثبوت فراہم  کرے جس طرح بنگال کے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بنگالی عوام نے پیش کیا ہے کہ فرقہ پرستوں کے لاکھ حربوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود بھی انکو وہاں شکست نصیب ہوئی، گودی میڈیااور اندھ بھکتوں کے ذریعے جیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود جوسبق آموزنتیجہ نکلا، جس میں ممتا دیدی کو زبردست جیت اورفرقہ پرستوں کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا۔پھر بھی انہوں نے سبق حاصل نہیں کیا۔

 اب یوپی کے حالیہ اسمبلی الیکشن میں بنگال کے طرز پررجحان وگمان کا بخوبی اندازہ  ہوتا جارہا ہے! اور فرقہ پرستوں کی شکست کایہاں بھی اثرنمایاں ہے اورقوی امید لگائی جارہی ہے کہ ووٹروں اور ملک کے باشندوں نےبے روزگاری، مہنگائی، پولرائزیشن ،نفرت و عداوت کی سیاست اور ملک کی مسلسل بگڑتی تصویر سے تنگ اور عاجزآکر ملک کی ترقی،جمہوریت کی حکمرانی اور ذلت و پستی کے غاز سے نکلنے کے نام پر سیکولر پارٹی کو ہی ووٹ دیاہے،سیکولر پارٹی کےالگ الگ سپریمو کے خوش کن بیانات اور ملک کے بڑے بڑے سیاسی تبصرہ اور تجزیہ نگار کے صحیح تبصرے وتجزیے سےاسی رجحان وخیال کی تائید ہوتی ہے، بلکہ یوپی کے بشمول پنجاب،اتراکھنڈ اور گوا کی زمین بھی بی جے پی کے ہاتھوں سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہے، اللہ کرے، غلط  سیاست کا انجام ناکامی ہو،اکڑ اور نخوت کا نتیجہ ایسا ہی ہو، جیسا کہ متعدد رجحانات سے پتہ چلتا ہے، پھر تو یقینا یہ قوم وملک کے مفاد  میں بہت بہتر ثابت ہوگا، سیکولر اورجمہوری اقدار کی بقا میں مودی اور یوگی کے تمام ناپاک عزائم ومنصوبے پر کاری ضرب ثابت ہوگا، بھارت کے عوام پر اپنی ثقافتی اورقوم پرستی کے نظریات کو جبرا تھوپنے کے خلاف یکجہتی ویگانگت اور اخوت ومودت کی صدیوں پرانی موروثی نظام اورگنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کا ضامن ہوگا، جنکے اثرات 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر پڑنا لازمی ہے اور انکے نتائج بھی ہندومسلم بھیدبھاؤ اور نفرت وعداوت کی پالیسی کے خلاف فیصلہ کن پیغام ثابت ہوگا۔

 اسی طرح  نہ صرف صوبہ اترپردیش بلکہ پورے ملک  میں فرقہ پرستوں کو ایک متاثر کن   سندیش بھی جائے گا کہ جو کوئی بھی ملک کی گنگاجمنی تہذیب سے کھلواڑ کرنے کی سیاست کرے گا انکا حشر اسی طرح زوال وانحطاط ہوگا اور انکے کالے کرتوتوں  کی یہی سزا ہوگی، ملک کے کونے کونے سے ایسے عناصروذرائع کو ہار کا منہ دیکھنا پڑے گا، برادران وطن کے مزاج و امتزاج کے مطالعے اور ان کے رجحانات سے اب یہی بات جھلکتی  ہوئی نظر آرہی ہے کہ قوم و ملک کی ترقی وعروج سے منہ موڑ کر صرف شیخی بگھارنے والے تمام لیڈران  و امیدواروں کو عوام اپنی عدالت اور ووٹوں کی طاقت سے دس مارچ یعنی نتیجے کے دن سبق سکھانے جارہی ہے ،جوبہت خوش کن فیصلہ ہوگا، بلکہ پورے ملک کے لئے جمہوریت کی بقا میں آئینہ ثابت ہوگا۔جن سے فرقہ پرستوں کی بولتی بند ہو جائے گی، ان کے چہروں پر ہوائیاں جھلکتی ہوئی نظر آئیں گی، اب تو بعض ارباب اقتدار اور امیدواروں کے رویے اور انداز گفتگو سے بھی اسی خدشے اور اندیشے کا برملااظہار ہورہا ہے ،جوانکی بہکی بہکی باتوں اور بدزبانی سے صاف ہوتا جارہا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کی کتاب سے اب اخلاقیات اور تہذیب وشرافت کے ابواب وفصول کو کھرچ کھرچ کر پھینک دیا گیا ہے، کرسیوں کے نشے اور لالچ میں وزیراعلی یوگی جی، ملک کے  وزیر داخلہ کیساتھ ساتھ پردھان منتری  صرف پرچار منتری بن  کررہ گئے ہیں،  اس سے پتہ چلتا ہے کہ نتائج انکے حق میں بڑے حیران کن ثابت ہونگے اور یقینا تمام ہندوستانیوں بشمول ہندومسلم،سکھ عیسائی سب کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہوگا۔ ظالموں اور بدخواہوں کے لئے یقینا سبق و عبرت کا دن شمار کیا جائےگا۔

 جس عوام کو 2014 میں مودی جی نے اپنے بڑےبڑے چناوی جملے مثلا "بہت ہوئی مہنگائی کی مار اب کی بار مودی سرکار۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس۔ کالا دھن کی واپسی۔ 15 لاکھ کا جھانسہ اور اچھے دنوں کاخواب اور سپنے وغیرہ" دکھا اورسنا کرجیت کے بعد قوم وملک کیساتھ اب تک جو دھوکہ کیا گیا، ملک کی عوام  نے انکی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اور کھلے عام دھوکہ کھا کر انکو ملک کی سب سے اونچی مرکزی گدی کیساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں وزیر اعلی کی کرسی پر براجمان کیا، آج وہی عوام انکے ساتھ جھوٹے وعدوں اور نعروں کو پورا نہ کرنے اور صرف شیخی بگھارنے والے تمام لیڈران اور امیدواروں کو انکے سیاسی چالبازیوں، پولرائزیشن، غلط اقدامات و فیصلے، ناپاک عزائم ومنصوبے، بینکوں میں لوٹ کھسوٹ ،نفرت و عداوت کی فضا، نوٹ بندی، کرونا اور لاک ڈاؤن کے برے اثرات، معیشت کی تباہی وبربادی، بےروزگاری کی کثرت، مہنگائی کا عروج، آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لاکھوں اموات، ندیوں میں تیرتی ہوئی لاشوں کا انبار، ریل سے کٹتے ہوئے مزدوروں، زرعی حقوق کی واپسی کیلئے طویل عرصے تک دھرنوں میں بیٹھنے والےکسانوں، سی اے اے کے خلاف شاہین باغ اور ملک کے دیگر حصوں میں بیٹھنے والی شاہینوں، اقلیتوں، مظلوموں، بے سہاروں، اور بے زبانوں کے ساتھ ناروا سلوک و برتاو،ظلم و زیادتی اور قتل وغارت گری کے واردات، حق تلفی و ناانصافی کے واقعات اور حجاب ونقاب کے معاملے پر کرارا سبق سکھانے کے لئے پر عزم اور پرجوش ہے، کیونکہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔۔۔ فرقہ پرستوں کو اب بنگال کے بعد یوپی اور دیگر ریاستوں میں بھی کراراجواب ملنے ہی والا ہے۔ جو انکے لیے قابل افسوس و تعجب ہوگا۔نفرت وعداوت  اور ظلم وزیادتی کا پھل کبھی میٹھا نہیں ہوسکتا۔کھیتوں میں جیسا بیج ڈالیں گےویسا ہی آپ کواناج ملے گا۔

 اب عوام کو سب کچھ معلوم ہوچکا ہے کہ کون کیسا ہے؟ سچ اور جھوٹ کا کھیل کون کھیل رہا ہے، ملک کو بیچ کر کھانے والے مغل امپائر کے لٹیرے تھے؟ یا چکنی چپڑی باتیں کرکے  اپنے جھانسوں میں پھنسا کر شیخی بگھارنے والے ابھی کے لیڈران ہیں؟ جوملک وریاست میں تقریبا ہر محاذ میں بالکل صفر بلکہ فیل ہوگئے ہیں، صرف وعدوں، نعروں اور من کی باتوں سے ملک کا نظام چلنے والانہیں ہے، جن سے قوم و ملک کا اب تک کچھ بھلا نہیں ہوسکا، بھلا کل وہ ہمارے کام کیسے آئے گا! پہلے سے ہی ملک کورونا کیوجہ سے ہر طرف سے نامساعد حالات اور مختلف پریشانیوں سے دوچار ہے، پھر اسی دوران ہندومسلم بھید بھاؤ، موب لنچنگ کے واقعات، دہلی، آسام، تریپورہ اور اب شیموگہ کے فسادات، حجاب، اذان اور اب برقعہ جیسے معاملے کو جنم دے کر بھارتی جنتا پارٹی اس طریقے سے ملک کی پانچوں ریاستوں میں جاری انتخابات کو متأثر کرکے اپنے حق میں ووٹوں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے، اسی لیے تو بی جے پی لیڈران سیاسی پولرائزیشن کررہے ہیں، بلکہ اب تو ان میں سے بعض کا ذہنی توازن بھی بگڑتا نظر آرہا ہے،  کوئی بدزبانی و بدکلامی میں بھی اپنا ریکارڈ بنا رہا ہے، یعنی فتنہ پرور بیانات کا دور دورہ سوار ہوگیا ہے، شکست کا خوف ایسا لاحق ہو چکا ہےکہ بات بات میں وہ اپنی اصلیت اور سیاہ چہرہ دکھانے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں، اسی لئے اب تو چھوٹے لیڈر کیساتھ ساتھ انکے قدآور لیڈران بھی ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی ہرممکن سازش کرتے نظر آرہے ہیں، وزیر اعظم بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، اندھ بھکت، گودی میڈیا اور ان کے تلوے چاٹنے والے اینکرس اپنی ڈیبیٹ میں بی جے پی کی کارکردگی اور کارنامے کو واشگاف کرنے کے بجائے راشٹریہ بھکتی کا ڈھنڈورا پیٹ کر حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہیں۔انکے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے؟صرف مندر، مسجد، قبرستان، شمشان، پاکستان، مسلمان، نفرت، عداوت، طلاق، حجاب یہی وہ مدعے ہیں جن پر وہ اپنی ہی قوم وملک کو بے وقوف بنا کر حکومت کی کرسی کو پھر سے اپنے حق میں محفوظ کرلینا چاہتے ہیں۔ جو کسی طرح انکے کالے کارناموں کیوجہ سے بالکل ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو اب انسانیت بھوکے مر رہی ہے، جب انسان کی زندگی ہی مامون و محفوظ نہیں تو کوئی مندر اور ہندوراشٹریہ لے کر کیا کرے گا۔ ملک کو اب جن چیزوں کی ضرورت ہے حکمراں طبقہ بشمول گودی میڈیا اس پر سے عوام کا ذہن بھٹکا رہے ہیں۔ اسی لئے اب کوئی ان کے جھانسے میں آنے اور مصالحت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب عوام بی جے پی مکت بھارت کا رجحان بنا چکی ہے اور اپنے اس میلان سےکسی بھی طریقے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے کہ ہندوتوا پالیسی سے اب وہ بھی بیزار ہوتی دکھائی دے رہی ہے، عوام کے سامنے ملک کی ترقیات کے مدعے ہی زیادہ اہم اور ضروری ہیں، جن میں بی جے پی سرے سے ناکام و نامراد ہوکر رہ گئی ہے، اس لیے بشمول وزیراعظم، یوگی اور امت شاہ اقتدار کی کرسی کو محفوظ رکھنے کے لیےسیاسی چال کا ہرممکن سہارا لے رہے ہیں، مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کر کے ملک کے ماحول کو پراگندہ کررہے ہیں اور کسی طرح سے بھی ہندوؤں کو متحد کرلینے میں کوئی کسر چھوڑنا نہیں  چاہتے، مگر ملک کے عوام پہلے سے ہی ان کے ہر حربے و سازش سے بخوبی واقف ہے۔ مودی اور یوگی خواہ کتنا ہی کیوں نہ جھوٹ کا سہارا لے لے، اس بار عوام انکے بہکاوے میں نہیں آسکتی، اور نہ ہی کوئی تدبیر کامیاب ہوسکتی ہے!

بہت افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم بھی اپنی سطح سے گر کر اشتعال انگیز بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ خود یوگی جی بھی کہیں اسی بنام بیس فیصد کا فتنہ پرورہتھکنڈہ استعمال کرکے ہندومسلم کے مابین ذات پات کی لکیر کھینچنا چاہتے ہیں، مگر یہ لکیر تالاب کے پانی کے اوپر لکیر کھینچنے کی مترادف ہوگی، یوگی جی اب تو ووٹ نہ دینے پر ایسے علاقوں کی نشاندہی کرکے جی سی بی اور بلڈوزر سے ان کے گھروں کو منہدم کرانے کی غلیظ دھمکیاں بھی دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں، اسی طرح خود ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ بھی بار بار ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف خوف دلا کر ان کو فرقہ پرستی کی سیاست میں دھکیل دینا چاہتے ہیں، ان کی اوچھی سیاست کی حد ہوگئی کہ اب وہ یہ کہتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں کہ اگر بی جے پی نہیں جیتی تو پھر یہاں مسلمانوں کی حکومت آجائے گی، کبھی کہتے ہیں کہ یوپی سے پورے ملک میں دہشت گرد بھیجے جائیں گے، کبھی ہندوؤں کی مبینہ نقل مکانی کی بات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تو کبھی کوئی اور شوشہ چھوڑکر ماحول کو ہندومسلم پولرائز کردینا چاہتے ہیں، کبھی ایس پی، بی ایس پی کی حکومت کو ریاست میں مافیا کاریڈورکی حکمرانی کا ذریعہ بتا کر لوگوں کو ان سے ڈراتے ہویے بھی نظر آرہے ہیں۔

اصل میں  بی جے پی کے اندر اسمبلی الیکشن میں ہار کے ساتھ ساتھ 2024 کے الیکشن کی شکست کاڈر بھی ابھی سے ستا رہا ہے، اسی لئے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اور اسی لئے وہ بہکی بہکی باتیں کررہی ہے، خود وہ اپنی زبان پر لگام نہیں لگاپا رہی ہے، تو کوئی ادنی لیڈر انتہا کی حد تک کیوں کر نہیں پہونچ سکتا؟ ہرجگہ اتر پردیش کے وزیر اعلی کے حق میں شاندار جھوٹ بولا جارہا ہے اور جھوٹی تعریف کر کے ووٹ مانگنے کی کوشش کی جارہی ہے، 2020 کی رپورٹ کے مطابق یوپی میں تمام زمزوں کے تحت جرائم کے چھ لاکھ 57 ہزار نو سو پچیس معاملے درج ہوئے ہیں، بہتر سکیورٹی والی ریاستوں کے معاملے میں ملک کی تمام 36 ریاستوں میں یوپی کا مقام 34 نمبر پر ہے جو بہت ہی کمتر اور گھٹیا ریاستی حالت کی علامت ہے، اس سے بھی زیادہ خراب حالت گجرات اور تامل ناڈو  حکومت کی ہے، بھلا! فرقہ پرستی، چرم زبانی، وعدے اور نعرے بازی کیلئے ملک کو پھر سے ان فرقہ پرستوں کے حوالے کیوں کیا جائے!! جن کے پاس ترقی اور انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے۔اسلئے عنقریب آپ فرقہ پرستوں کے خلاف یوپی، اتراکھنڈ ،پنجاب کیساتھ گوا کے الیکشن میں خوش کن نتائج  کی خبر سنیں گے اور جمہوریت کے حق میں اکثریت والے فیصلے برآمد ہوں گے۔

اترپردیش کے  ووٹروں کیساتھ ساتھ ہم سیکولر سیاسی جماعتوں کو بھی صحتمندشعوری تبدیلی کی مبارکبادی پیش کرتے ہیں اور پورا ملک اسی بیداری کا  متقاضی بھی ہے۔جہاں تک سیاسی وسیع النظری اور لائحہ عمل میں بہتری لا کر اسے ہمہ جہت انسانی ترقی کے جذبہ و تڑپ سے منسلک کرنے کا تعلق ہے تو اس پر کسی پارٹی کی اجارہ داری نہیں۔ یہ توفیق حکمراں پارٹی کو بھی ہو سکتی ہے اور اپوزیشن میں بیٹھے تمام پارٹیوں کو بھی ہونی چاہیے۔ دونوں چاہیں تو سیاست کو اقتدار اور انتظار کے محدود دائرے سے باہر نکال کر  ذہنی کنڈیشننگ کرنے والے اور دلوں کو جیتنے پر یقین رکھنے والے اگر مل بیٹھ کر کوئی بیچ کا راستہ نکال لیں،تو نئی نسل اور قوم وملک کے حق میں یہ نئی حکومت کا انتہائی امید افزا اور حیات بخش تحفہ ہوگا۔جس میں قوم وملک کا بڑا فائدہ بھی ہوگااور اسی چیز کی ملک وملت کو شدید ضرورت بھی ہے۔

مجھے ملک کی عوام، برادران وطن کے جمہوری رجحان اور احباب ورفقا کے میلان اور علما و صلحا اور دانشوران عظام کی محنتوں اور کاوشوں پر بھروسہ ہے! بلکہ بہت اطمینان و سکون ہے کہ وہ   صدیوں پرانی موروثی روایت کو زندہ وجاوید رکھیں گے،جمہوری اقدار کی بقا وتحفظ کیلئے ہمیشہ ایک پلیٹ فارم پر کھڑے رہیں گے۔ اس  راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو گرد راہ  کی طرح اڑا دیں گےاورامن وامان کی فضا اور اسکے جھنڈے کوکبھی باطل کے سامنے جھکنے نہیں دیں گے۔ سازگارماحول ، سازگار فضا آپ کا مقدر ہو۔ یوپی اسمبلی الیکشن کابہترین عکس ملک ہندوستان کی سیاست پرنمودار ہو!

کیونکہ جمہوریت اور ملک کو بچانے کی لڑائی میں براداران وطن کو ساتھ لے کر لڑنا اشد ضروری ہوگیا ہے ہے،بحیثیت مسلم قوم ہمارا  کرداراور رول سب اہم اور پاکیزہ ہونا چاہئے، ماضی میں ہمارے ہی آباواجداد تھے جنہوں نے ملک ہندوستان کو فرنگیوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیاتھاجب یہ ملک ان سے آزاد ہوا تھا،آج ایک بار پھر اس ملک کو فکری، تہذیبی اورمعاشی غلامی سے نجات دلانے کی شدید ضرورت پڑ گئی ہے،ہماری معمولی غفلت اور کوتاہی اس ملک کو تباہی وبربادی کے کگار پر پہونچا سکتی ہے۔اسلئے ہم مسلمانوں کو بھی سیاست  کے میدان میں قدم جماتے ہوئے برادران وطن کو ساتھ لے کر ایک ملک ،ایک قوم کامشن بن  جانا چاہیے۔

مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں لیکچرار ہیں 

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے