ہرسال جب نیا تعلیمی سیشن شروع ہوتا ہے تو عام لوگ جس طرح کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر تعلیم کے محاذ پر ساری ترقیات مہمل نظر آنے لگتی ہے۔ طلباء کو اسکولوں میں داخلہ کے لئے مارا مارا پھرنا پڑتا ہے۔ ان کے سرپرستوں کو نئی کتابوں، اسکول کی پوشاکوں اور فیس وغیرہ کی پریشانی ہفتوں پہلے سے لاحق ہوجاتی ہے اسکولوں میں پہلی مرتبہ داخل ہونے والے بچوں کے لئے پیدائش سرٹیفکٹ کا مسئلہ ایک جنجال بن چکا ہے جس کا حصول عام آدمی کے پوتے سے باہر ہے۔
ماہرین تعلیم کی رائے ہے پرائمری سطح پر کتابوں کی تعداد اور پڑھائی کے اوقات کو کم رکھا جائے تاکہ بچوں کی ذہنی نشوونما ان کے قدرتی رجحانات کے مطابق ہوسکے اور ان میں تجسس کی صلاحیت پیدا ہو مگر آج بھی پرائمری اسکولوں کے بچوں کو اسکول اور گھر کے درمیان کتابیں ڈھوتے دیکھاجاسکتا ہے۔
موجودہ پرائمری اسکولوں میں سے ۴۰ فیصد بچے جھونپڑیوں ، شامیانوں یا کھلے میدانوں میں پڑھتے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی اسکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کے لئے پھٹی تک موجود نہیں ہے اور قریب قریب اتنے ہی اسکول بلیک بورڈ یا تختہ سیاہ سے جو ایک ضروری چیز ہے محروم ہیں آدھے سے زیادہ اسکولوں کے احاطے میں پینے کے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے اور ۶ لاکھ پرائمری اسکولوں میں سے دو لاکھ سے زیادہ اسکول صرف ایک ٹیچر چلا رہا ہے اور جب وہ غیر حاضر ہوتا ہے تو تعلیم ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہے۔
آج ملک کے نونہالوں کے لئے جس قدر اسکول درکار ہیں موجودہ اسکولوں کی تعداد اس سے بہت کم ہے، ان کے لئے ۲۰ لاکھ کلاس روم چاہئے جن کی تعمیر کا تخمینہ ۲۵ ارب روپے لگایاجاتا ہے اور یہ سردست ناممکن ہے اور بظاہر اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مختلف ادارے تعلیم کے میدان میں اتریں اور شہروں کی طرح گاؤں قریہ بستی میں بھی پرائیویٹ اسکولوں کا نظام چلایاجائے مگر تجارتی اعتبار سے یہ نفع کا سودا نہیں ہوسکتے اس لئے علاقے کے مخیر حضرات اپنی دولت کا کچھ حصہ تعلیم کو پھیلانے میں صرف کریں۔ چٹکی بھر آٹا یا مٹھی بھر اناج کی اسکیموں سے ان اسکولوں کو چلایا جاسکتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہر ایک سو بچوں میں سے جو پہلے درجے میں داخل ہوتے ہیں ان میں ۶۰ بچے پانچویں درجے کے اور ۸۰ بچے آٹھویں درجے کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں اور وہ ان کی تعلیم پر رقم صرف کرنے کے بجائے اولاد کی محنت مزدوری سے گھر کی آمدنی بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اگر پڑھائی کے دوران کمائی کی صورت نکل سکے تو بہت سے بچوں کی تعلیم پرائمری سطح کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔
اسی طرح نصاب کو ہلکا کرکے اس کے حجم کو کم کرنے کی ضرورت سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن اس تبدیلی میں علاقائی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی آبادی کے تقاضوں کا خیال رکھنا چاہئے اور یہ بھی کہ تعلیم کو معیاری بنانے کے شوق میں پرائمری سطح پر متعدد مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اول بچے گھبراتے ہیں دوسرے ان کے کھیلنے کودنے یا دیگر کاموں کے لئے وقت نہیں بچتا۔ اکثر ان کے اسکول سے غائب رہنے کا بھی یہی سبب بنتا ہے اس لئے پرائمری سے لے کر ثانوی سطح تک کتابوں کا بوجھ کم کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ملک کے سب بچوں کے لئے تعلیم کے انتظام کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی لازمی ہے کہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ درمیان میں ختم نہ ہوجائے اور اس سلسلے کی جو روکاوٹیں ہیں ان کو دور کردیاجائے۔*
جواب دیں