ہندستان میں مخلوط حکومتوں کی تاریخ

ملی جلی حکومت کی کامیابی کی کنجی فکری ہم آہنگی ہے 

عبدالعزیز

اب جبکہ نریندر مودی کی حکومت کے بارے میں دن بدن اس بات کا یقین ہوتا جارہا ہے کہ وہ جتنا بھی شور مچالیں اور جتنا بھی گورکھ دھندہ کرلیں اور ان کی پارٹی جتنا بھی جے جے کار کرلے ان کی دوبارہ آمد ممکن نظر نہیں آرہی ہے لیکن اسی کے ساتھ کئی سوالات بھی ووٹروں کے دل میں پیدا ہورہے ہیں کہ اپوزیشن کا لیڈر کون ہوگا؟ وزیر اعظم کون بنے گا؟ مخلوط حکومت کتنے دنوں تک قائم و دائم رہے گی؟ جہاں تک اپوزیشن کے لیڈر کا سوال ہے یہ تو اپوزیشن پارٹیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ اتحاد عظیم (Grand Alliance)کا لیڈر پارلیمانی انتخاب کے بعد طے کیا جائے گا۔ مگر کوئی اصول طے نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر اتحاد کا لیڈر طے کیا جائے گا۔ جبکہ یہ کنونشن پہلے تھا کہ جس پارٹی کے ممبران لوک سبھا میں زیادہ ہوتے تھے اسی پارٹی کو یہ حق دیا جاتا تھا کہ وہ اپنا لیڈر چنے اور دوسری پارٹیاں اس کے منتخب کردہ لیڈر کو دیگر اپوزیشن پارٹیاں خوش دلی کے ساتھ تسلیم کرلیں۔ ابھی جو صورت حال ہے وہ گنجلک بھی ہے اور لوگوں میں کنفیوژن بھی ہے۔ ممتا اور مایا وتی کا نام بھی ہنسی مذاق کے ساتھ لیتے ہیں جو اپوزیشن کیلئے کوئی اچھی بات نہیں ہے کیونکہ دونوں پارٹیاں ملک گیر کہلانے کے لائق نہیں ہیں اورنہ ہی کانگریس پارٹی سے زیادہ لوک سبھا میں ان کے ممبران ہوں گے۔ اس طرح جس کا نام آئے تو اس کی طرف سے دیانت داری تو یہی ہے کہ وہ یہ اصول بتا دے کہ جس پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ زیادہ ہوں گے اسی کا لیڈر ہوگا تو عوام کے اندر سے بھی کنفیوژن دور ہوجائے گا۔ اور مخالف پارٹی کی طرف سے اس معاملے میں جو وار ہوتا ہے وہ بھی بند ہوجائے گا۔ 
تاریخ: مرارجی ڈیسائی کی سربراہی میں جو حکومت قائم ہوئی تھی وہ دو سال چند مہینے تک ہی ٹکی رہی۔ دو سال کے بعد ہی آپس میں چپقلش اور رنجش کا سلسلہ شروع ہوگیا، یہاں تک کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگے۔ اسی زمانے میں کل ہند مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال کی جانب سے راقم کی سربراہی میں ایک وفد نے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی سے ملاقات کی تھی۔ جب میں نے مرارجی ڈیسائی سے پوچھا کہ یہ جو آپس میں ناخوشگوار تعلقات کا سلسلہ دراز ہورہا ہے تو کیا حکومت دیر تک قائم رہ سکے گی؟ مرارجی ڈیسائی نے جواب میں کہا تھا کہ ’’ہمارے ملک میں جب بھی باہمی لڑائی ہوئی ہے تو اس سے ملک میں غلامی کا دور شروع ہوا ہے۔ اس وقت جو آپسی لڑائی ہے وہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ہم سب پھر غلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘۔ کچھ دنوں کے بعد ہی جنتا پارٹی کی حکومت جو مرارجی ڈیسائی کی سربراہی میں قائم تھی ختم ہوگئی۔ چودھری چرن سنگھ کی حکومت مشکل سے چھ مہینے رہی۔ پارلیمنٹ کا بھی سامنا کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ اندرا گاندھی بھاری اکثریت سے جیت کر آگئیں اور ان کی حکومت قائم ہوئی۔ راجیو گاندھی بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے پھر ان کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد وی پی سنگھ (وشوناتھ پرتاپ سنگھ) کی حکومت بنی جو صرف گیارہ مہینے چلی۔ چندر شیکھر کی حکومت جو کانگریس کی حمایت سے قائم ہوئی تھی وہ چار مہینے میں ہی ختم ہوگئی اور چندر شیکھر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ایچ ڈی دیوے گوڑا ایک سال تک وزیر اعظم رہے۔ آئی کے گجرال (اِندر کمار گجرال) ان کے جانشیں ہوئے جو صرف چار مہینے تک حکومت کرسکے۔ واجپئی I کی پہلی حکومت 13 دن کی اور واجپئی II کی حکومت 13مہینے کی مدت پوری کرسکی۔
یہ حقیقت بہت ہی تلخ ہے جس کی وجہ سے مودی کیمپ مخلوط حکومت کی چٹکیاں لیتا ہے۔ لیکن مودی کیمپ کے لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہندستان میں مخلوط حکومتیں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ مثلاً 1991ء سے 1996ء تک پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت تھی۔ وہ ان کی حکومت اقلیت میں تھی جو باہری حمایت کے بغیر چل نہیں سکتی تھی پھر بھی انھوں نے پانچ سال کی مدت پوری کی۔ واجپئی III کی حکومت بھی پانچ سال تک قائم رہی۔ وہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد الیکشن میں ہار گئے لیکن مخلوط دھرم کا نقش چھوڑ گئے۔ ان کی مخلوط حکومت میں 22، 23 پارٹیاں شامل تھیں۔ سب سے کامیاب مخلوط حکومت منموہن سنگھ کی سربراہی میں چلی جس کی سرپرستی سونیا گاندھی کر رہی تھیں۔ یوپی اے II میں مارکسی پارٹی نے حمایت واپس لے لی تھی پھر بھی منموہن سنگھ کی حکومت باقی رہی۔ اٹل بہاری واجپئی اپنی پنجسالہ حکومت کے بعد الیکشن نہیں جیت سکے لیکن یو پی اے جس کی سربراہی سونیا گاندھی کر رہی تھیں اس وقت کانگریس لوک سبھا کی 206 سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ جبکہ یوپی اے I میں کانگریس کو صرف 140 سیٹیں ملی تھی۔ کانگریس کا یہی وہ کارنامہ ہے جو اسے دوسری پارٹیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ 
اتحاد کا عمل اس وقت شروع ہوا ہے۔ اختلافات ختم ہورہے ہیں۔ اتحاد کا چراغ روشن ہورہا ہے پھر بھی یوپی اے III کا چراغ ابھی پورے طور پر روشنی بکھیرنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت کے دن ختم ہونے کو ہیں ، ابھی سے اپوزیشن پارٹیوں کو آگے کی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور اتفاق کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیڈر اگر طے نہیں کریں لیکن لیڈر طے کرنے کا اصول ضرور واضح کردیں جو لوگوں کیلئے قابل قبول ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ نے مخلوط حکومت دس سال تک چلائے اور پہلی مدت کے بعد جیت کا بھی سہرا دونوں کے سر جاتا ہے ۔ اس لئے 2004ء سے 2014ء تک جس حکومت سے روشنی ملتی ہے وہ منموہن سنگھ کی حکومت ہے جس کی سرپرستی سونیا گاندھی کر رہی تھیں۔ یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی تھیں اور حکومت کی قیادت منموہن سنگھ کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جس کو مودی کیمپ آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اگرچہ مخلوط حکومتوں کی روایت بہت اچھی نہیں رہی بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 
اترپردیش میں کانگریس نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیا ہے۔ پرینکا گاندھی کو یوپی کے مشرقی حصے کا انچارج بنایا گیا ہے جبکہ مغربی حصے کا انچارج جیوترادتیہ سندھیا کو بنایا گیا ہے۔ دونوں کے اندر قابلیت ہے۔ جیوترادتیہ سندھیا نے دو تین ماہ پہلے ہی مدھیہ پردیش میں کانگریس کو زندہ کیا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اگر چہ کمل ناتھ مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر تھے لیکن مدھیہ پردیش میں انتخابی مہم کے انچارج سندھیا تھے۔ اس طرح ان کو انتخاب لڑنے کا تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔ پرینکا گاندھی نے پہلی بار عملی سیاست میں قدم رکھا ہے۔ اس سے پہلے وہ رائے بریلی اور امیٹھی میں ہی انتخابی مہم کی ذمہ داری سنبھالتی تھیں اور کامیاب ہوتی تھیں۔ اگرچہ کئی سال سے پرینکا گاندھی کو عملی سیاست میں لانے کیلئے کانگریس کے ورکروں اور لیڈروں کا مطالبہ ہوتا تھا لیکن کسی خاص وجہ سے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی اس طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ دونوں سیاسی بیان دے کر ٹال دیتے تھے کہ جب پرینکا گاندھی چاہیں گی تو وہ عملی سیاست میں آسکتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ جب یوپی میں مایا وتی اور اکھلیش یادو کا اتحاد ہوا اور دونوں نے کانگریس کو نظر اندازکیا تو راہل گاندھی کیلئے ہی نہیں بلکہ پرینکا گاندھی کیلئے بھی ایک چیلنج ہوگیا۔ دونوں نے اس چیلنج کو قبول کرلیا اور بہت ہی حکمت سے کانگریس کے دو بڑے نوجوان لیڈروں کا انتخابی میدان میں اتار دیا گیا۔ چند روز پہلے پرینکا گاندھی راہل گاندھی اور جیوترا دتیہ سندھیا کے ساتھ روڈ شو میں شامل رہیں اور روڈ شو کا مظاہرہ بہت کامیاب ہوا جس کی وجہ سے پرینکا گاندھی کا حوصلہ بڑھ گیا۔ گزشتہ روز کانگریس لیڈروں اور ورکروں کے ساتھ انھوں نے 16گھنٹے میٹنگ کی اور اپنے رفقاء کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ انتخابی میدان میں لڑنے کا مشورہ دیا اور یہ بھی مشورہ دیا کہ جس کو امیدوار بنایا جائے سب مل کر اس کی جیت کیلئے ہر ممکن کوشش کریں۔ اسی موقع پر انھوں نے کانگریسی کارکنوں سے کہا کہ آئندہ الیکشن میں راہل گاندھی اور نریندر مودی کا مقابلہ طے ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے کہا تھا کہ راہل گاندھی میں وزیر اعظم بننے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اس پتہ چلتا ہے کہ پرینکا گاندھی اپنے بھائی کو وزیر اعظم کی شکل میں دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوپی میں وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گی۔
پہلے بھی ہم نے لکھا تھا اور آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد میں اگر کانگریس کو شامل کیا جائے تو یوپی میں اتحاد کو زبردست کامیابی حاصل ہوگی اور بی جے پی کو دس پندرہ سیٹوں سے زیادہ نہیں ملے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پرینکا گاندھی یوپی میں کیا گل کھلائیں گی۔ ان کی کوششوں سے اتحاد، اتحادِ عظیم ہوجائے گا یا کانگریس تنہا انتخابی میدان میں لڑائی لڑے گی۔ جہاں تک مخلوط حکومت کا معاملہ ہے اس کیلئے فکری ہم آہنگی ضروری ہے۔ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی جوڑی کامیاب ہوئی اور حکومت دس سال تک قائم رہی۔ راہل گاندھی کے سرپر دونوں کا ہاتھ ہے۔ امید ہے کہ اگر راہل گاندھی کو انتخاب کے بعد ملک کا وزیر اعظم بننے کا موقع ملا تو ان دونوں کی سرپرستی راہل گاندھی کو حاصل رہے گی۔ اپوزیشن پارٹیوں کو مخلوط حکومتوں کی روشنی میں یہی راہِ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
:14؍فروری2018(ادارہ فکروخبر)
 

«
»

اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر

مرثیہ بروفات : استاد گرامی قدرحضرت مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے