’ہندستان میں ماحول مسلمان نہیں ہندو خراب کرتے ہیں‘

راجیو دھون کا انٹرویو- ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘

 عبدالعزیز 

    27نومبر 2019ء کو ایک ٹی وی چینل کو سپریم کورٹ کے سینئر وکیل مسٹر راجیو دھون نے ہندستان کے موجودہ حالات پر ایک انٹرویو دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مودی میڈیا میں کافی ہلچل مچ گئی اور فرقہ پرست عناصر خاص طور پر سنگھ پریوار والے حد سے زیادہ چراغ پا ہوگئے ہیں۔ ان کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ جب بابری مسجد کی طرف مسٹر راجیو دھون سپریم کورٹ میں وکالت کر رہے تھے تو اس وقت بھی فرقہ پرستوں کی طرف سے ان کو دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ سوشل میڈیا میں ان کو ڈرانے اور دھمکانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی تھی لیکن اس وقت بھی انھوں نے بڑے حوصلے اور ہمت سے کام لیا اور بابری مسجد کے حق میں دلائل و شواہد اور دستاویزات پیش کئے۔ ان کے دلائل سے مخالف وکلاء پریشان تھے اور لاجواب بھی ہوجاتے تھے۔ ان کی مخالفت اور ان کو ڈرانے دھمکانے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اب جو انھوں نے انٹرویو دیا ہے اس سے ہندو فرقہ پرستوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی ماحول کو خراب نہیں کیا ہے۔ ہندو ہیں جو ماحول کو خراب سے خراب تر کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے آر ایس ایس پہ الزام لگایا کہ آر ایس ایس کے لوگ ملک بھر میں فساد برپا کرتے ہیں۔ ’ماب لنچنگ‘ اور فسادات کے واقعات سے وہ جڑے ہوئے ہیں۔ لفظ ’ہندو‘ کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہندو سے مراد سارے ہندو نہیں ہیں بلکہ وہ ہندو جو شرپسندی، فساد و فتنہ اور لڑائی جھگڑے کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں انہی سے مراد ہے۔انھوں نے کہا کہ ”میں نے سپریم کورٹ میں بھی ججوں کے سامنے برملا طور پر کہا کہ بابری مسجد کو طالبانی ہندوؤں نے گرایا تھا۔ پولس اور فوج کی موجودگی میں ان طالبانی ہندوؤں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا“۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نظر ثانی کی درخواست سنی وقف بورڈ کے چیئرمین کی طرف سے نہیں دی جارہی ہے تو اس پر کہاکہ سنی وقف بورڈ پر دباؤ دیا جارہا ہے کہ وہ کسی حال میں بھی نظرثانی کیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر نہ کرے۔
     ایک سوال کے جواب میں نظرثانی کے بارے میں کہاکہ ”سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نا انصافی اور زیادتی ہوئی ہے، لہٰذا انھیں نظر ثانی کیلئے پٹیشن دائر کرنا چاہئے۔ یہ ان کا قانونی اختیار ہے جس کا انھیں بلا خوف و خطر استعمال کرنا چاہئے۔ اس سے ہی وہ سپریم کورٹ میں ریکارڈ کراسکیں گے کہ فیصلہ کس قدر زیادتی اور ناانصافی پر مبنی ہے۔پانچ ایکڑ زمین کے بارے میں انھوں نے صاف صاف کہا کہ یہ سپریم کورٹ کو زیب نہیں دیتا تھا کہ بابری مسجد کے بدلے مسلمانوں کو دوسری جگہ پر پانچ ایکڑ زمین بھیک یا خیرات کی شکل میں دے۔ اور نہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس بھیک اور خیرات کو وہ تسلیم کریں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے اور بابری مسجد کے ساتھ زیادتی ہے۔ مسلمانوں کو مسجد کیلئے زمین بدلے میں لینا ان کے مقام و مرتبے سے فروتر ہے۔ اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا میں راجیو دھون کے خلاف دھمکی آمیز پوسٹ تیزی کے ساتھ آنے لگے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی ان کے انٹرویو کو اشتعال انگیزی کے مترادف قرار دیا جانے لگا۔ انگریزی نیوز چینل ’ٹائمس ناؤ‘ نے گزشتہ رات (27نومبر) ان کے خلاف زور دار مباحثہ کرایا اور ان کو ہندو مخالف اور ہندو دشمن قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن راجیو دھون کے جو دلائل تھے اس کی کاٹ کیلئے ان کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی۔ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولس ایس. ایم. مشرف نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ آر ایس ایس ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے۔ انھوں نے 17 جگہوں کے بم بلاسٹ کے مقدمات جو ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان کا ایک ایک کرکے ذکر کیا ہے۔ مالیگاؤں، اجمیر شریف، مکہ مسجد حیدر آباد، سمجھوتہ ایکسپریس وغیرہ اس طرح کے کئی مقامات کی اپنی کتاب میں نشاندہی کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان کی کتاب منظر عام پر آئے پانچ چھ سال ہوگئے لیکن ان کی کتاب کے خلاف کسی نے نہ چیلنج کیا ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ وکیل راجیو دھون نے یقینا یہ کتاب پڑھی ہوگی۔ اگر پڑھی نہیں ہے تو ایک اچھے اور بڑے وکیل کو اس طرح کی باتیں آر ایس ایس کے بارے میں ضرور معلوم ہوں گی۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ بابری مسجد کو گرانے میں آر ایس ایس، بی جے پی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی ساری ذیلی تنظیمیں شامل تھیں یہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی مسجد گرانے کو غیر قانونی بتایا ہے اور جن لوگوں نے حصہ لیا ہے ان کے خلاف سزا مقرر کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
     راجیو دھون نے ہندستان کے معروف اور ممتاز وکلاء میں سے ایک ہیں۔ اور خاص طور سے انھیں دستور کے معاملے میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے بابری مسجد کے مقدمے میں دل و جان سے حصہ لیا۔ تیاری بھی رات رات بھر کرتے رہے۔ مسلمانوں کی طرف سے اجرت پیش کرنے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے ایک پیسہ بھی قبول نہیں کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو ہوتے ہوئے بھی وہ حق پرست ہیں۔ اور حق کیلئے وہ کتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں۔ مقدمہ لڑکر انھوں نے وقت اور پیسے کی قربانی دی اور اپنی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساری طاقت مقدمے میں کامیابی کیلئے جھونک دی۔ اب وہ مسلمانوں کی وکالت سچائی اور بے باکی کے ساتھ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے فرقہ پرستوں کا ناراض ہونا یا چراغ پا ہونا فطری بات ہے۔ ایسی حالت میں جب مسلمانوں پر جبر و ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمانوں کو ہر طرح سے ستایا جارہا ہے۔ ہندستان کے ایک بڑے اور سینئر وکیل کی طرف سے حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ اتنے برے اور کشیدہ ماحو ل میں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مصرع  ”پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“ حرف بحرف راجیو دھون پر چسپاں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہر مسلمان کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ظاہراً بھی صاحب ایمان بنادے۔ موصوف جو لڑائی لڑ رہے ہیں ایسے پرآشوب دور میں وہ بھی ایک کمزور اور مظلوم ملت کیلئے بغیر کسی لالچ اور غرض کے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل کے گوشے میں کہیں نہ کہیں ایمان نے اپنی جگہ بنالی ہے۔ سپریم کورٹ میں جب ہندو مہاسبھا کے وکیل کی طرف سے مقدمے کی سماعت کے دوران رام مندر کا نقشہ پیش کیا گیا تو انھوں نے جج کی اجازت سے اسے پھاڑ دیاتھا۔ جس پر عدالت اور عدالت کے باہر زبردست چہ میگوئیاں ہوئیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اور اس قدر بڑے پیمانے پر کہ ان کو ایک مضمون لکھنا پڑا۔ 
    وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:”بہر حال جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس معاملہ کی یہ بتائے بغیر، بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت مجھے خود چیف جسٹس آف انڈیا نے دی تھی، میں نے 16 اکتوبر کی دوپہر کو سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس کو اس بات سے آگاہ کردیا کہ صبح میں میرے ہاتھوں نقشہ پھاڑنے کا معاملہ وائرل ہوگیا ہے۔ میں نے چیف جسٹس سے گذارش کی کہ وہ اس بات کی وضاحت کردیں کہ میں نے یہ کام آپ کی اجازت سے کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کہنے پر ہی میں نے یہ نقشہ پھاڑا تھا۔ انہوں (چیف جسٹس) نے میڈیا کے نمائندوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ان کا یہ جواب بھی اسی طرح وائرل ہونا چاہئے جیسا کہ نقشہ پھاڑنے کی بات وائرل ہوئی ہے تاکہ یہ غیر ضروری تنازع ختم ہو“۔
    آگے کی سطروں میں بابری مسجد کے کیس کی سماعت کے دوران ان پر کس طرح کا دباؤ ڈالا گیا، انھیں کس طرح دھمکیاں دی گئیں اور کس طرح انھوں نے ان دھمکیوں کا کوئی اثر، کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ثالثی کمیٹی کے غلط کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ لکھا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے اور بعد میں بھی جب یہ کیس لکھنؤ میں زیر سماعت تھا اس پر قضیئے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کیلئے متعدد کوششیں کی گئیں، لیکن یہ کوششیں بڑی حد تک ہندو فریق کے سخت موقف اور اس بات پر رٹ لگائے رہنا کہ ”مندر وہیں بنائیں گے“ کی وجہ سے بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔ ایک خاص حقیقت کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے:”جب 1985ء میں نیاس (ایک ٹرسٹ) قائم کیا گیا جس میں آرایس ایس، وی ایچ پی، سنت سادھو، سیاستداں اور سبکدوش جج صاحبان شامل تھے۔ اس کے بعد سے ہندوؤں کا موقف مزید سخت ہوتا گیا اور نیاس نے 1989ء میں ایک مقدمہ دائر کیا۔اس وقت تک اجو دھیامیں مال و دولت کی ریل پیل ہوچکی تھی اور غنڈہ گردی بھی عروج پر تھی۔ وہاں کئی مندر بھی تعمیر کئے گئے جن میں دولت کے انبار لگا دیئے گئے، نیز غنڈ ے بھی پالے گئے تھے جنہوں نے خوف و تشد د کاایک بازار گرم کر رکھا تھا“۔ 
    وکیل مسٹر راجیو دھون نے مشہور صحافی خاتون برکھا دت کو انٹرویو دیتے ہوئے نہایت دلیری سے مقدمے کی پیروی کی وضاحت کی ہے اور صاف صاف باتیں بیان کی ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو حق و انصاف سے گہرا لگاؤ ہے۔ یہ بات بھی شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ  جن کی فیس 15، 20 لاکھ سے کم نہیں ہے بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کیلئے موصوف نے ایک پیسہ بھی لینا گوارا نہیں کیا۔ خاکسار نے اپنے ایک مضمون میں سابق وزیر اعلیٰ مغربی بنگال سدھارت شنکر رائے سے وکیل راجیو دھون تک کی وکالت کا تذکرہ کیا ہے۔ سدھارت شنکر رائے بھی ہندستان کے بڑے وکلاء میں سے ایک تھے۔ انھوں نے بھی دلیری کے ساتھ بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کی تھی اور ایک پیسہ بھی اجرت کے طور پر قبول نہیں کیا۔ بابری مسجد کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ان دو وکلاء کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ ہم مسلمانوں کو ایسے وکلاء کی مخلصانہ اور بیش بہا اور بے لوث خدمات پر سلام کرنا چاہئے اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جو کچھ ہم لوگوں سے ممکن ہوسکے ضرور کرنا چاہئے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30نومبر2019(فکروخبرنیوز)
 

«
»

بے باک صحافی حفیظ نعمانی

کیا دِنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ بلیک ڈے ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے