ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

کبھی انہیں کچھ دے دیتا ہے ، تو کبھی ڈانٹ کر آگے بڑھ جاتاہے۔لیکن یہ کوئی نہیں سوچتاکہ آخر یہ ایسی زندگی گذارنے پر کیوں مجبورہیں۔مسجدوں ،مندروں اور دیگر مذہبی مقامات کے باہر فقیروں کی ایک بھیڑموجود رہتی ہے،کیایہ سماج کی نگاہ سے پوشیدہ ہے۔
ان بچوں کی دنیا کیسی ہے ؟ ان کے خواب کیا ہیں ؟کیا یہ بھی اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح اسکول جانا چاہتے ہیں ؟ یہ اپنی مرضی سے بھیک مانگتے ہیں یا ان کو زبردستی بھیک مانگنے پر مجبوکیاجاتا ہے ؟ بھیک میں ملے پیسوں کا یہ کیا کرتے ہیں ؟ کیا کبھی انہوں نے بھیک مانگنا چھوڑ کر کچھ اور کرنے کے بارے میں سوچا ہے ؟ بڑے ہو کر یہ کیا کریں گے ؟یہ ایسے سوالات ہیں جن پر سوچناہماری سماجی ذمہ داری ہے۔
عام طورپر سناجاتاہے کہ کچھ بچے اغواکرکے لائے جاتے ہیں،ان کو اتنی ذہنی اذیت دی جاتی ہے کہ وہ اپناگھربار اور والدین تک کوفراموش کرکے اس جہنم میں کود نے پر اپنے آپ کو راضی کرلیتے ہیں۔ کچھ گھر سے بھاگ کرآتے ہیں اسی کو اپنی گذربسرکاآسان ذریعہ سمجھ لیتے ہیں ، کچھ اپنے گھر کی غربت یا والد کی شراب خوری کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان بھیک مانگنے والے فقیروں کا بھی باقاعدہ نیٹ ورک ہے۔ بھکاری مافیا جسے’’ دادا‘‘کہاجاتاہے، اس سے یہ لوگ بہت ڈرتے ہیں۔بھیک مانگنے کے بعد ایک متعین حصہ بھی مافیاکو اداکرناپڑتاہے۔ان کے پاس بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہوتا۔
بھارت کے آئین میں بھیک مانگنے کو جرم کہا گیا ہے ۔ پھر ملک کی سڑکوں پر ایک کروڑ بچے آخر کیوں بھیک مانگتے نظرآتے ہیں ؟ بچوں کا بھیک مانگنا صرف جرم ہی نہیں ہے ، بلکہ ملک کے سماجی تحفظ کے لئے خطرہ بھی ہے ۔ ہر سال کتنے ہی بچوں کو بھیک مانگنے کے دھندے میں زبردستی دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کافی خدشہ ہوتا ہے ۔
ہر سال تقریبا 10 لاکھ بچوں کے اپنے گھروں سے دور ہو کر اپنے لواحقین سے بچھڑنے کا خدشہ ہے۔ ان بچوں میں سے کافی بچے بھیک منگوانے والے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یعنی ہر سال ہزاروں غائب بچے بھیک کے دھندے میں جھونک دیئے جاتے ہیں ۔ ان بچوں کی زندگی ایسی اندھیری سرنگ میں قید ہو کر رہ جاتی ہے ، جس کا کوئی دوسرا سرا نہیں ہوتا ۔ ان سے زندگی کی ساری خوشیاں چھین لی جاتی ہیں ۔ہمارے ملک میں زیادہ تر بال بھکاری اپنی مرضی سے بھیک نہیں مانگتے۔ وہ منظم مافیا کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں ۔ تمل ناڈو ، کیرالہ ، بہار ، نئی دہلی اور اوڈیشہ میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ہر اقتصادی بدحالی کے شکار بچوں کا ایساہی حشر ہوتا ہے ۔ ان بچوں کے ہاتھوں میں اسکول کی کتابوں کی جگہ بھیک کا کٹورا آ جاتا ہے ۔ حقوقِ اطفال کے لئے سرگرم کارکن سوامی اگنی ویش کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بھیک مافیا بہت بڑی صنعت ہے ۔ اس سے وابستہ لوگوں پر کبھی آنچ نہیں آتی۔ اس معاملے میں قانون بنانے والوں اور قانون توڑنے والوں کی ہمیشہ ملی بھگت رہتی ہے ۔ ان حالات سے نمٹنے کے لئے نظام کو مزید مؤثرکردار ادا کرنا چاہیے ۔ہندوستان کی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر سال جو ہزاروں بچے چرائے جاتے ہیں یا لاکھوں بچے غائب ہو جاتے ہیں ، وہ بھیک مانگنے کے علاوہ غیر قانونی کارخانوں میں غیر قانونی بال مزدوری، گھروں یا دفاتر میں نوکری ، عصمت فروشی، غیر قانونی طور پر گود لینے اور بچوں کی جبری شادی جیسے کیسیز میں پھنس جاتے ہیں ۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں اب بھی سب کچھ اچھانہیں ہے۔ملک میں غربت کاسایہ اب بھی موجود ہے۔اس سے حکومت کی وہ بہت ساری پالیسیاں بھی ناکام ہوتی ہوئی نظرآتی ہیں جو غربت کوکم کرنے یاختم کرنے کے لئے وضع کی گئی تھیں۔یاپھر یوں سمجھناچاہئے کہ یہ اقدامات کافی نہیں تھے ابھی اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سارے افراد آج بھی حکومت اور اصحاب خیر کے تعاون کے محتاج ہیں ۔یہ تعاون اس طرح کیاجاناچاہئے کہ ان کی سماجی حیثیت مجروح نہ ہو۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ ملک کے لئے ایک بدنماداغ ہے۔
بھیک مانگنے کو سماجی و دینی دونوں اعتبارسے حقارت کی نظرسے دیکھاجاتاہے۔اسلام جہاں ضرورت مندوں کی مددکے لئے ترغیب دیتاہے وہیں کسی کے سامنے دست سوال پھیلانے کے بجائے حلال کمائی کے لئے لوگوں کو ابھارتاہے۔موجودہ سماجی پس منظر میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ معاشرہ میں احساس خودداری کو بیدارکیاجائے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ وہ ضرورت مند افراد کی معاونت کے لئے آگے بڑھیں۔ساتھ ہی ملک میں ہزاروں کی تعداد میں رفاہی ادارے کام کررہے ہیں انہیں بھی اس سمت میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کیونکہ مددکرنا بہترین عمل اور انسانیت نوازی کابہترین ثبوت ہے اور انھیں عوامی چندے بھی عوامی مفادات میں استعمال کرنے کے لیے ہی ملتے ہیں۔اگر ہم نہیں جانتے کہ مانگنے والامستحق ہے یانہیں تو بھی ہمیں کسی مانگنے والے کے ساتھ براسلوک نہیں کرناچاہئے۔
آج ہندوستان نوجوانوں کا ملک ہے، کسی نوجوان ملک کی سب سے بڑی ترجیح بچوں کے بھیک مانگنے پر روک لگانا ہونی چاہئے ۔ اس کے لئے سماجی سطح پرکلی اشتراک کی ضرورت ہے ۔ ایسا کر کے ہی مقامی ، ریاست اور مرکز کی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جا سکے گا اور سماجی شرکت کی بدولت حکومتوں پر بال فقیروں کو روکنے کے لئے دباؤ ڈالا جا سکے گا ۔ اس دباؤ کی وجہ سے حکومتیں اپنی سطح پر کارروائی کریں ، تو اس مسئلہ پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے ۔ سماج کو سرکاری اور غیر سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا ۔ تب بال فقیروں کی آبادکاری ممکن ہوگی ۔ ان کی تعلیم ، صحت اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ۔اسی ضمن میں یہ بات بھی کافی اہم ہے کہ ایسے عناصر جو بچوں کو اغواکرتے ہیں اور ان کو بھیک مانگنے کے ذلیل پیشے میں دھکیل کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں ان پر لگام لگائی جائے۔بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایاجائے کہ قانون کے رکھوالے بھی بھیک مانگنے والوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ ان کو اس غلاظت سے نکالاجاسکے اور ایک بہترزندگی فراہم کی جاسکے۔

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے