ہندوستان کو ہندواستھان بنانے کی سازش

لیکن کچھ ایسے واقعات و بیانات بھی ہیں جنھوں نے پورے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ سب سے پہلے تو وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری اشول سنگھل نے ایک بیان میں کہا کہ الیکشن میں بی جے پی کی جیت مسلم سیاست کی شکست ہے اور یہ کہ اگر مسلمان ہندووں کے جذبات کا احترام نہیں کریں گے تو انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ زیادہ دنوں تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ اس کے بعد انتہائی منہ پھٹ اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے میں ماہر پروین توگڑیا نے منہ کھولا۔ انھوں نے بھی مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اگر گجرات بھول گئے ہوں گے تومظفر نگر تو یاد ہوگا۔ دھمکیوں کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ دہلی کے نیو مہاراشٹرا سدن میں مسلمانوں کو ہرا سانپ کہنے والی پارٹی شیو سینا کے معزز ارکان پارلیمنٹ نے ایک مسلم منیجر کو روزے کی حالت میں روٹی کھلا کر روزہ تڑوانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد شیو سینا نے اس معاملے کو خطرناک رنگ دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اس معاملے پر ہنگامہ کرنے والے رمضان میں مسلمانوں کے ذریعے ریپ کیے جانے پر کیوں خاموش رہتے ہیں۔ ابھی اس پر ہنگامہ ہو ہی رہا تھا کہ تلنگانہ ریاست میں بی جے پی کے لیڈر کے لکشمن نے ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی حب الوطنی پر ہی سوال کھڑے کر دیے اور یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان کی بہو ہیں اس لیے باہری ہیں ہندوستانی نہیں ہیں، تلنگانہ حکومت کے ذریعے ان کو ریاست کا برانڈ ایمبسڈر مقرر کیے جانے کی مخالفت کی۔ ابھی بات اور بھی آگے جانے والی ہے.

۔ دہلی کے نیو مہاراشٹرا سدن میں مسلمانوں کو ہرا سانپ کہنے والی پارٹی شیو سینا کے معزز ارکان پارلیمنٹ نے ایک مسلم منیجر کو روزے کی حالت میں روٹی کھلا کر روزہ تڑوانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد شیو سینا نے اس معاملے کو خطرناک رنگ دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اس معاملے پر ہنگامہ کرنے والے رمضان میں مسلمانوں کے ذریعے ریپ کیے جانے پر کیوں خاموش رہتے ہیں۔ ابھی اس پر ہنگامہ ہو ہی رہا تھا کہ تلنگانہ ریاست میں بی جے پی کے لیڈر کے لکشمن نے ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی حب الوطنی پر ہی سوال کھڑے کر دیے اور یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان کی بہو ہیں اس لیے باہری ہیں ہندوستانی نہیں ہیں، تلنگانہ حکومت کے ذریعے ان کو ریاست کا برانڈ ایمبسڈر مقرر کیے جانے کی مخالفت کی۔ ابھی بات اور بھی آگے جانے والی ہے۔ گوا حکومت کے ایک وزیر دیپک دھوالیکر نے اسمبلی میں جاری ایک بحث میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستان کو ایک ہندو راشٹرا میں تبدیل کر دیں گے۔ اگلے روز ان سے دو قدم آگے جاتے ہوئے نائب وزیر اعلی ڈی سوزا نے اس کی وضاحت کی اور کہا کہ ہندوستان تو ہندو راشٹر ہے ہی اس کو ہندو راشٹرا بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان کا ہر باشندہ ہندو ہے او رمیں عیسائی ہوں مگر ہندو بھی ہوں یعنی میں عیسائی ہندو ہوں۔ یہ تمام بیانات اور دھمکی آمیز بیانات اپنی جگہ پر۔ انھیں اشتعال انگیز اور تنگ ذہن افراد کی کارستانی کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ملک کے فرقہ وارانہ تانے بانے کو منتشر کرنے کے لیے اندر ہی اندر جو خطرناک کوششیں چل رہی ہیں ان کو فوری رد عمل قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کوششوں میں آر ایس ایس کی تعلیمی شاخ ودیا بھارتی کے نیشنل ایکزیکٹیو کے رکن اور شکشا بچاو 191 آندولن کے کنوینر دینا ناتھ بترا کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ وہ ملک کے اسکولی نصاب میں تبدیلی کی ایک مہم چلائے ہوئے ہیں اور ان کی کئی کتابوں کو گجراتی میں ترجمہ کر کے وہاں کے اسکولی نصاب میں شامل کر دیا گیا ہے.


اگر ہم اوپری بیانات کا تجزیہ کریں تو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں بالواسطہ طور پر آر ایس ایس کی حکومت قائم ہونے کے بعد مسلم دشمن اور فسطائی قوتوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ ان میں نیا جوش آگیا ہے او رجس طرح پہلی بارش کے بعد بہت سے خود رو پودے سر اٹھانے لگتے ہیں اسی طرح بہت سے فاشسٹ عناصر بھی سر اٹھانے لگے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان میں اس قسم کے خطرناک بیانات دینے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ ایک ہوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون خطرناک سے خطرناک بیان دے سکتا ہے۔ غالباً ایسا مودی کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ سنگھل اور توگڑیا کا تو بس نہیں چلتا ورنہ وہ مسلمانوں کو بحر ہند میں غرقاب کر دیں۔ ان کی لن ترانیاں نئی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ان کے اشتعال انگریز بیانات کی عادت پڑ گئی ہے۔ لیکن جس طرح معمولی معمولی باتوں کو بہانہ بنا کر سماجی ماحول کر خراب کرنے کی بالخصوص اتر پردیش میں، کوششیں ہو رہی ہیں ان کی روشنی میں ان کے بیانات کی سنگینی بڑھ جاتی ہے اور انھیں کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شیو سینا بھی پکی مسلم دشمن پارٹی ہے۔ اس سے اسی کی توقع تھی کہ وہ ایک روزہ دار کو روزے کی حالت میں روٹی کھلانے کی کوشش کرے۔ اس سے اس کی توقع بالکل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو عزت و احترام کے ساتھ افطار کی دعوت دے گی۔ در اصل شیو سینا کے کارکنوں اور لیڈروں کو ممبئی کی سڑکوں پر غنڈہ گردی کرنے کی عادت ہے۔ لیکن اس کے معزز ممبران پارلیمنٹ اس بات کو بھول گئے کہ وہ یہ حرکت ممبئی کی سڑکوں پر یا اپنے گھر او راپنے گڑھ میں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ملک کے دارالحکومت دہلی میں کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ عام کارکن نہیں ہیں بلکہ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں او راس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس بھی چل رہا ہے۔ اگر یہ باتیں ان کے ذہن میں آگئی ہوتیں تو شائد وہ ایسی گھٹیا اور گھناونی حرکت کرنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ بہر حال جو رسوائی ان ممبران پارلیمنٹ کی ہوئی ہے ویسی شائد ہی کسی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کی ہوئی ہو۔
جہاں تک ثانیہ مرزا کا سوال ہے تو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک طبقہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر ہمیشہ سوال اٹھاتا رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں کی قربانیاں دوسروں کی قربانیوں سے زیادہ ہیں۔ لیکن ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ایک تو مسلم مجاہدین کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا جاتا اور دوسرے مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور بارہا اس کے ثبوت ملے ہیں کہ ملک کے رازملک دشمنوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی خطرناک کاوشوں میں برادران وطن ہی شامل رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ملک کے وقار کا تحفظ کیا ہے اور وہ اس کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی سازش میں شریک نہیں رہے ہیں۔ مجموعی طور پر مسلمان اس ملک کا وفادار ہے، محب وطن ہے۔ مگر یہ بات فاشسٹ قوتوں کے گلے سے نہیں اترتی۔ اسی لیے وہ موقع بے موقع اس قسم کے راگ الاپتے رہتے ہیں۔ لیکن مبارکباد کی قابل ہیں ثانیہ مرزا جنھوں نے یہ بیان دے کر بی جے پی لیڈر اور ان جیسے دوسرے عناصر کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا کہ وہ ہندوستانی ہیں اور مرتے دم تک ہندوستانی رہیں گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انھوں نے پاکستانی کرکیٹر سے شادی کی ہے۔ ان کی یہ بات کتنی وزن دار ہے کہ شعیب ملک سے شادی کرنے کے بعد بھی وہ ہندوستان ہی کے لیے کھیلتی رہی ہیں۔ ان کے پاس ہندوستانی پاسپورٹ ہے۔ وہ ہندوستان کی شہری ہیں پاکستان کی نہیں۔ شکر ہے کہ اس ملک میں ایسے لوگ اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اس قسم کی گھٹیا ذہنیت کے مخالف ہیں۔ ثانیہ مرزا کے معاملے پر بی جے پی کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جو لوگ اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں اس سے ان کی سوچ اور ان کی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے بی جے پی لیڈروں نے بھی کے لکشمن کے بیان کی مذمت کی اور ثانیہ کو ایک ہندوستانی بتایا۔ گویا پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہ تجربہ نیپال میں ناکام ہو گیا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک ہندو ملک تھا۔ مگر بالآحر اسے بھی جمہوریت کی گود میں آنا پڑا۔ کیا ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانا اتنا آسان ہے جتنا کچھ بھاجپائی سمجھتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ یہ ملک جب آزاد ہوا تھا تو اس کے معماروں نے اسے ایک سیکولر اسٹیٹ قرار دیا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی سردار ولبھ بھائی پٹیل موجود تھے۔ لیکن وہ بھی ہندوستان کو ایک ہندو اسٹیٹ نہیں بنا سکے۔ سیکولرزم اس ملک کی جڑوں میں ہے۔ اس کے سماجی تانے بانے میں ہے۔ اس کی رگوں میں ہندوتو کا نہیں سیکولرزم کا خون گردش کرتا ہے۔ جس دن اس کو ہندو اسٹیٹ بنانے کا اعلان کیا گیا ملک میں قیامت آجائے گی۔ مسلمانوں سے پہلے ہندووں کا بہت بڑا طبقہ اٹھ کھڑا ہوگا اور ہندو اسٹیٹ بنانے والوں کو سبق سکھائے گا۔ گوا کے نائب وزیر اعلی کے اس بیان کا اگر تجزیہ کریں کہ ہندوستان ہندو اسٹیٹ ہے اور وہ خود ایک ہندو عیسائی ہیں، تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ مودی کی خوشامد میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ مودی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایک ہندو نیشنلسٹ ہیں اور اس پر زبردست ہنگامہ ہوا تھا۔ ڈی سوزا کا بیان مودی کے اس بیان کی اگلی کڑی ہے۔ وہ یہ کہہ کر کہ وہ ایک عیسائی ہندو ہیں در اصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے مسلمان صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ 148مسلمان ہندو147 ہیں۔ یہ آر ایس ایس کا وہی نظریہ ہے کہ اس ملک کے تمام شہری ہندو ہیں کیونکہ ان کے آبا و اجداد ہندو تھے۔ لہٰذا دوسرے مذہب کو لوگوں کو اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنے آبائی گھر میں لوٹ آنا چاہیے۔ یعنی انھیں اس 148حقیقت147 کو تسلیم کرکے دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لینا چاہیے۔ آر ایس ایس نے اس کے لیے بارہا شدھی کرن کی تحریک چلائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈی سوزا سے جان بوجھ کر یہ بیان دلوایا گیا ہے تاکہ شدھی کرن کی تحریک کو زندہ کرنے کا ایک بہانہ مل جائے۔ جو بھی ہو، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ فاشست قوتیں اس قسم کے بیانات دے کر مسلمانوں اور ملک کے دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک ہی رہے گا۔ دینا ناتھ بترا او ران جیسے دیگر عناصر کی کوششوں کی تفصیلات اگلے کسی کالم میں پیش کی جائیں گی

«
»

مردانہ جوابی کارروائی

فلسطین: ہم رنجیدہ بھی ہیں شرمندہ بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے