ہندوستان کی سیکولرازم امیج پر دھبہ ہے بابری مسجد کا انہدام

’’وہ مریادا پرشوتم رام کو ایسے پیش کر رہا ہے گویا وہ بی جے پی کے ممبر ہوں۔‘‘ دراصل بھارت میں بابری مسجد کا انہدام آزادی کے بعد کے سب سے اہم واقعات میں سے ایک ہے، جس نے ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے کو کمزور کیا۔اس واقعے کو عرصہ بیتا لیکن آج بھی اس مسئلے کی گونج ہندوستان کی سیاست میں سنائی دیتی ہے۔یہ ایک تنہا ایسا واقعہ تھا جس نے ملک کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا اور ہندوستان کے سیاسی افق پر بھارتیہ جنتاپارٹی نمودار ہوئی جو آج ملک کے اقتدار پر قابض ہے۔اس مسئلے کا سیاسی استعمال کیا گیا اور اسی کے سبب ملک بھر میں بہت سے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں ہزاروں معصوم شہریوں کی جانیں گئیں۔فرقہ وارانہ دنگوں کی کوکھ سے ہی دہشت گردی نے جنم لیا جس کے سبب ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے اور ملک کی سلامتی خطرے میں پڑی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہزاروں کی جانیں لینے والے دنگوں کے ذمہ داروں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی اور نہ ہی بابری مسجد منہدم کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی ہوئی۔ الٹے انھیں اقتدار کی اعلیٰ کرسیوں پر بیٹھنے کا موقع ملا اور وہ قانون ساز اداروں تک پہنچے۔ یہ واقعہ ہمارے ملک میں آئین وقانون کی صورت حال بتانے کے لئے کافی ہے۔ بہرحال ایک پرانے تنازعے نے نئی شکل کیسے اختیار کی اس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
اجودھیا تنازعہ تاریخ کے آئینے میں
اجودھیامیں تنازعہ اس بات پر ہے کہ ملک کے ہندوؤں کا ایک طبقہ بابری مسجد کے مقام کو رام جنم بھومی مانتا ہے جبکہ ملک کے مسلمانوں کی نظر میں یہ بابری مسجد ہے۔ مسلم شہنشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی نے سال 1528 میں اسے تعمیر کرایا تھا۔ مسجد کی تعمیر کے صدیوں بعد انگریزی دور حکومت میں پہلی بار یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ مسجد، مندر کے مقام پر بنائی گئی ہے۔ 1853میں پہلی بار ہندوؤں کی طرف سے الزام لگایا گیاکہ بھگوان رام کے مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ اس معاملے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی بار تشدد کا واقعہ ہوا۔1859میں برطانوی حکومت نے تاروں کی ایک باڑھ کھڑی کرکے متنازعہ زمین کے بیرونی احاطے میں ہندووں کو پوجا کی اجازت دیدی۔جب کہ1885میں پہلی باریہ تنازعہ عدالت میں پہنچا۔ مہنت رگھوبرداس نے فیض آباد عدالت میں بابری مسجد سے متصل ایک رام مندر کی تعمیر کی اجازت کے لئے اپیل دائر کی۔23 دسمبر، 1949کو تقریبا 50 ہندوؤں نے مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھ دی۔ اس کے بعد اس مقام پر ہندو باقاعدگی سے پوجا کرنے لگے اور مسلمانوں نے نماز پڑھنا بند کر دیا۔اس بیچ کئی مقدمے فیض آباد ضلع عدالت میں پہنچے مگر جب 1984میں وشو ہندو پریشد نے بابری مسجد کاتالا کھولنے اور رام جنم بھومی کو آزاد کرانے اور ایک بڑے مندر کی تعمیر کے لئے مہم شروع کی تو اس تنازعے سے عام لوگوں کو واقفیت ہوئی۔1 فروری، 1986میں فیض آباد ضلع جج نے مسجد کے مقام پر ہندووں کو پوجا کی اجازت دیدی۔ تالا کھول دیا گیا اور ناراض مسلمانوں نے مخالفت میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم کی،تب یہ تنازعہ سب کی نظر میں آیا اور اسی وقت سے اس کو سیاسی رنگ بھی دیا جانے لگا۔ اس واقعے نے بی جے پی کو ایک سیاسی قوت کے طور پر ملک میں ابھرنے کا سنہرا موقع دیا۔جون 1989میں بی جے پی نے وی ایچ پی کو باضابطہ حمایت دینا شروع کر مندر تحریک کو نئی زندگی دے دی۔9 نومبر، 1989میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے قریب مندر کے سنگ بنیاد کی اجازت دی۔25 ستمبر، 1990کو اس وقت کے بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اتر پردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔6 دسمبر، 1992کو ہزاروں کی تعداد میں کارسیوکوں نے ایودھیا پہنچ کر بابری مسجد ڈھا دی، جس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ جلدی بازی میں ایک عارضی رام مندر بھی بنادیا گیا۔30 ستمبر 2010کوالہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اس معاملے پرتاریخی فیصلہ سنایا جس میں ملکیت کے تنازعے کو چھوڑ اس نے زمین کو تین حصوں میں بانٹنے کا حکم دے دیا مگر اسے نہ تو ہندووں نے تسلیم کیا اور نہ مسلمانوں نے۔اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔
بابری مسجد کے ساتھ انصاف نہیں ہوا
بابری مسجد انہدام کے واقعے کو انجام دینے کی ذمہ داری اگرچہ پورے سنگھ پریوار اور اس وقت سرگرم تمام سیاست دانوں پر جاتی ہے مگر چند افراد خاص طور پر اس کے لئے ذمہ دار تھے جن کے خلاف سی بی آئی نے مقدمہ بھی دائر کیا تھا مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔آج ان میں سے کچھ زندہ نہیں اور کچھ عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں۔ ان سبھی لوگوں نے اس تنازعے کے سبب اقتدار کے خوب مزے لوٹے۔ سی بی آئی کی اصل چارج شیٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈر لال کرشن اڈوانی ایودھیا میں متنازعہ بابری مسجد گرانے کے سازش کے اہم محرک ہیں۔انھوں نے مسجد گرانے کی تحریک شروع کی جو اکتوبر 1990 میں شروع ہوکر دسمبر 1992 تک چلی ۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ وشو ہندو پریشد نے ایودھیا، کاشی اور متھرا کے مندروں کو آزاد کرنے کی مہم چلائی اور اس کے تحت لال کرشن اڈوانی نے سومناتھ سے اجودھیا تک رتھ یاترا کی۔ اڈوانی نے بار بار کہا کہ بابری مسجد کبھی بھی مسجد نہیں رہی اور ہندو پریشدہر حالت میں ایودھیا میں رام مندر بنائے گی۔چارج شیٹ کے مطابق 1991 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے اس کی منصوبہ بندی میں فعال کردار نبھایا۔ پانچ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بی جے پی لیڈر ونے کٹیار کے گھر پر ایک خفیہ میٹنگ ہوئی، جس میں تاریخی بابری مسجد کے ڈھانچے کو گرانے کا آخری فیصلہ کیا گیا۔ اڈوانی نے چھ دسمبر کو کہا تھا’’آج کارسیوا کا آخری دن ہے۔ کارسیوک آج آخری بار کارسیوا کریں گے۔‘‘ استغاثہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اڈوانی نے کلیان سنگھ کو فون پر کہا کہ وہ متنازعہ ڈھانچہ مکمل طور پر گرائے جانے تک اپنا استعفی نہ دیں۔ اڈوانی نے رام کتھا منچ سے چلا کہا کہ ’’جو کارسیوک شہید ہونے آئے ہیں، انہیں شہید ہونے دیا جائے۔‘‘
مقامی انتظامیہ نے مسجد کا ڈھانچہ گرائے جانے سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔استغاثہ کے مطابق اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ آر این شریواستو اور پولیس سپرنٹنڈنٹ DB کے رائے اس ’سازش‘میں شامل تھے۔ رائے کااب انتقال ہو چکا ہے۔لیکن ہائی کورٹ کے حکم کے تحت اڈوانی پر فی الحال بابری مسجد گرانے کی سازش میں شامل ہونے کا پہلا مقدمہ نہیں چل رہا ہے۔ اڈوانی اور ان کے سات دیگر ساتھیوں پر رائے بریلی کی عدالت میں صرف مسلم کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کر کارسیوکوں کو اکسانے کا الزام ہے، جس کے نتیجے میں مسجد گرا دی گئی۔یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ ان تیرہ لوگوں میں ہیں جن پر اصل چارج شیٹ میں مسجد گرانے کی ’سازش‘ میں ملوث ہونے کا الزام ہے، لیکن کچھ تکنیکی وجوہات سے اب مقدمہ نہیں چل رہا ہے۔
وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل ایودھیا کے متنازعہ مقام پر رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کی تحریک کے اہم ستون رہے ہیں۔چارج شیٹ کے مطابق اشوک سنگھل 20 نومبر 1992 کو بال ٹھاکرے سے ملے اور انہیں کارسیوا میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ چارج شیٹ میں اشوک سنگھل پر الزام ہے کہ وہ چھ دسمبر کو رام کتھا کنج کے منچ سے دیگر ملزمان کے ساتھ ساتھ کارسیوکوں سے نعرہ لگوا رہے تھے کہ ’’رام للا ہم آئے ہیں، مندر یہیں بنائیں گے‘‘’’ ایک دھکا اور دو بابری مسجد توڑ دو۔‘‘
ونے کٹیار کی شناخت وشو ہندو پریشد کے اتحادی تنظیم بجرنگ دل کے رہنما کے طور پر رہی ہے۔ وہ اپنے اشتعال انگیز بیانات کے لئے جانے جاتے ہیں۔چارج شیٹ کے مطابق 14 نومبر 1992 کو ونے کٹیار نے ایودھیا میں کہا کہ بجرنگ دل کا خودکش دستہ کارسیوا کے لئے تیار ہے۔ مسجد گرنے سے ایک دن پہلے پانچ دسمبر کو ایودھیا میں ونے کٹیار کے گھر پر ایک خفیہ میٹنگ ہوئی، جس میں اڈوانی کے علاوہ شیو سینا لیڈر پون پانڈے موجود تھے۔ اسی اجلاس میں متنازعہ ڈھانچے کو گرانے کا آخری فیصلہ کیا گیا۔
مرلی منوہر جوشی اڈوانی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوسرے بڑے رہنما ہیں جو رام مندر تحریک میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے رہے ہیں۔جوشی، ۶ دسمبر کو مسجد کے احاطے میں موجود تھے۔ چارج شیٹ کے مطابق مسجد کا گنبد گرنے پر اوما بھارتی اڈوانی اور ڈاکٹر جوشی کے گلے مل رہی تھیں۔
بابری مسجد انہدام معاملے میں اگرچہ کچھ لوگوں کے نام آئے مگر مانا جاتا ہے کہ اس کے لئے سب سے زیادہ ذمہ دار اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہاراؤ تھے جو چاہتے تھے کہ مسجد شہید ہوجائے۔ان کی مرضی کے بغیر اتنا بڑا کام نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب تک مسجد شہید نہ ہوگئی تب تک انھوں نے یوپی میں صدر راج کا نفاذ نہیں کیا اور ان لوگوں سے ملاقات نہیں کی جواس معاملے کو روکنے کی فریاد لے کر ان کے پاس گئے تھے۔

«
»

غدارِ وطن کون؟شاہ رخ ،عامر،دلیپ کمار ،یاآر ایس ایس

سنگھ پریوار کے نشانے پر ہر مسلمان، عامرخان ہو یا ٹیپوسلطان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے