الظواہری کا یہ بیہودہ پیغام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ بد ترین دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے اس پیغام سے نہصرف مسلم دشمن طاقتوں کو ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا موقع ملے گا بلکہ ایسی ہی مسلم دشمن ذہنیت کے حامل سرکاری عملے خصوصاً سیکورٹی عملہ کو مسلم نوجوانوں کی زندگی اجیرن کردینے کا موقع ملے گا ۔ پہلے ہی سیکڑوں مسلم نوجوان ناکردہ گناہ کی کی سزابھگترہے ہیں ظاہری نے مزید مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرنے کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ بظاہر اس کی اصل وجہ الظواہری جیسے دہشت گردوں کا ہندوستانی مسلمانوں کی اصل حاصل یہاں انہیں حاصل آزادی اور حقوق اور اس کی حفاظت کے لئے انہیں غیر مسلموں سے ملنے والے تعاون اور سر پرستی کا علم نہیں ہے ۔ اسے نہیں معلوم کہ یہاں ایک غیر مسلم نے مسلمانوں کی مسجد بچانے کیلئے وزارت عظمی کی کرسی کو لات ماردی تھی جبکہ ایک دوسرے ہندو نے اس مسجد کی حفاظت کے لئے اپنے ہی ہم مذہبوں پر بے دریغ گولی چلانے کا حکم دے دیا تھا۔ الظواہری جیسے ٹھگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ہندوستان میں سیکولر ازم ، انصاف اور حقوق انسانی کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ سیکڑوں غیر مسلموں کے درمیان رہنے والا ایک مسلمان خود کو کبھی غیر محفوظ نہیں سمجھتا ٹھیک ہے انسانی فطرت کے مطابق کبھی کبھی مسلموں اور غیر مسلموں میں ٹکراؤ ہو جاتاہے کبھی غلطی اس طرف سے ہوتی ہے کبھی غلطی اس طرف سے ہندوستان جیسے مختلف النوع ملک میں ایسا سماجی ٹکراؤبالکل فطری ہے لیکن ہندوستانی مسلمان کا ہندوستان کے جمہوری نظام ،سیکولر ازم اور عدلیہ کی غیر جانبداری پر غیر متزلزل اعتماد ہے اور وہ نہ اس سے پہلے ظواہری بغدادی ، حافظ سعید جیسے ٹھگوں کے چکر میں آیاتھا نہ آئندہ آئے گا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو جو شکایت ہیں ان کے ازالے کا راستہ ہندوستان کے سیاسی سماجی اورعدالتی نظام میں موجود ہے اور وہی اس کے لئے کافی ہے ۔ الظواہری کے ٹیپ میں دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ نا انصافی پر فکرمندی ظاہر کی گئی ہے اور اس کے حل کے لئے جہاد کا راستہ اختیار کرنے کی اپیل کی گئی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی نظر اسرائیل مظالم فلسطینیوں کی حق تلفی قبلہ اول صیہونیوں کے قبضہ کی جانب نہیں گئی انہیں فلسطینی مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی فکر کیوں نہیں ہے جبکہ ساری دنیا میں اسکے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں بلا تفریق مذہب فلسطینیوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا جارہا ہے مگر ظواہری کویہ مظالم نہیں دکھائی دیتے نہ ہی البغدادی نے کبھی فلسطین کا ذکر کیا اور نہ ہی حافظ سعید اور ملا عمر نے اسرائیلی مظالم کی طرف سے انکی چشم پوشی ۔ واضح اشارہ کرتی ہے کہ یہ لوگ صیہونی سامراجی ایجنٹوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور اصل میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور جہاد جیسے مقدس لفظ کی مسلسل توہین کرکے جہاد کے اصل مقصد کو ہی ختم کررہے ہیں ۔ یہ کیسا جہاد ہے جس میں بے گناہ ہوں کو قتل کیا جاتاہے ۔ جہاد میں تو نہ لڑنے والے دشمن پر بھی ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ہے ، عورتوں ، بچوں اور بزروگوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم ہے ۔ بزدلوں کی طرح کہیں بم نصف کرنے بے گناہوں کا قتل کسی طرح جہاد نہیں ہوسکتا ۔ دارالعلوم دیو بند ، حامعہ اظہر اور دیگر مذہبی ادارے اس کے خلاف فتویٰ دے چکے ہیں ۔ ظاہری کے حالیہ پیغام کے خلاف ایک بار پھر کھل کر سامنے آکر دارالعوم دیو بند نے فرض کفایہ ادا کردیاہے ۔ اس کے ساتھ ہی والدین علماء سماجد کے پیش امام، مسلم صحافیوں اور دانشوروں پر بھی ذمہداری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان نوجوانوں پر خصوصی نظر رکھیں جو بابری مسجد انہدام ، گجرات کے فساد اور ایسی ہی دیگر شرمناکواقعات کو لے کر ہندوستان کی حکومت اور انتظامیہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوں کیونکہ ایسے ہی منفی جذبات کو بھناکر القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں ان نوجوانوں کو غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں بے شک ہمارے نظام میں بہت سی خامیاں سامنے آئی ہیں لیکن اچھائیوں کی تعداد ان خامیوں پر بھاری ہیں اس لئے ان سے بد دل ہونیکی ضرورت نہیں ہندوستان کا جمہوری نظام اور یہاں کی متحدہ ہندوستانی قومیت ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا حل کرنے کو کافی ہے یہ بات نوجوانوں کے دلوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں ، انتظامیہ، سیکورٹی ایجنسیوں ، سیاستدانوں اور میڈیا پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے سماجی تانے بانے کے استحکام کو اولین ترجیح دیں اور محض شک کی بنیاد پر ایسی کوئی کارروائی نہ کریں جس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا سکیں ۔ عدلیہ کو ایسے معاملات میں زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔10-15 برسوں سے جیل میں بند بے قصور اگر اتنے عرصہ بعد رہا بھی ہوتے تو انہیں اپنی زندگی ڈھر ے پر لانے کا وقت ہی نہیں ملے گا انصاف کے تقاضوں کو جلد از جلد پورا کرنے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔
گذشتہ کچھ عرصے سے بھارت کی چند ریاستوں سے بھی دولتِ اسلامیہ کی بھرتی مہم کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں اور لگتا ہے جہاں القاعدہ کو ماضی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی، وہاں دولتِ اسلامیہ کسی قدر راستہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ مثلاً اس سال مئی میں ممبئی کے نواح سے چار مسلمان نوجوانوں کے عراق جا کر دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کی خبریں آئی تھیں۔ ان نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر بھرتی کیا گیا تھا۔
اس خبر نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور مبصرین نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ کو بھی کل اسی خطرے کا سامنا ہوگا جو مغرب اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو درپیش ہے کہ جب یہ جہادی شام اور عراق سے لوٹیں گے تو اپنے ملکوں میں بھی ’تباہی‘ پھیلائیں گے۔ وادی کشمیر میں مظاہرین کی وہ تصاویر منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں انھوں نے دولتِ اسلامیہ کے پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن بھارت میں دولت اسلامیہ کے خلاف خاصا شدید رد عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے اور نتیجتاً ہزاروں کی تعداد میں شیعہ نے بھی عراق جا کر مقدس مزاروں کو دولتِ اسلامیہ کے حملوں سے بچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ لیکن حکومت ہند سرکاری منظوری کے بغیر کسی بھی شہری کے عراق جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس لئے چوری چھپے اکا دکا لوگ چلے جائیں تو بات دیگر مجموعیطورسیکوئی بھی ادھر کا رخ نہیں کر سکے گا ابھی تک سر کاری طور پر الظواہری کے ویڈیو پیغام پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کے اصلی ہونے کی تصدیق کی جا رہی ہے،
لیکن نئی جہادی مہم میں بھارت کے لیے کئی خطرات پوشیدہ ہیں کیونکہ بھارت مسلمانوں کی حالت زار کی وجہ سے جہادیوں کی بھرتی کے لیے زرخیز زمین ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمان ملک کے غریب ترین طبقوں میں سے ہیں اور انہیں ملازمت اور رہائش کے معاملوں میں اکثر غیر مساویانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ازالہ دوسری جانب انتہا پسند ہندو اور تنظیمیں بھی مسلمانوں کو ملک کے لیے خطرہ قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان پر لگام لگانا بھی ضروری ہے۔
بہت سے افسوس ناک واقعات اور تنگ نظری کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کا ملک کے سیکولر جمہوری نظام پرغیر متزلزل اعتماد ہے اور وہ اپنے مسائل کا حل آئینی حدود میں ہی تلاش کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کبھی ملک دشمن عناصر کو اپنے پاس نہیں بھٹکنے دیا اور نہ آئندہ کوئی ظواہری بغدادی ، سعید اور ملا عمر ان کی حب الوطنی کا سودا کر سکے گا۔
جواب دیں