2020میں بھارت، جرائم سے پاک ملک بنے گا؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    آرایس ایس کے قیام کو سو سال پورے ہونے کو آئے۔ اس کے قیام کا مقصد ہی تھا بھارت کو ہندوراشٹر بنانا اور ملک میں رام راج قائم کرنا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد اس بھگوا جماعت کی سیاسی ونگ بی جے پی کو مکمل اقتدار مل چکا ہے اور آرایس ایس کی شاکھاؤں کے پروردہ نریندر مودی ملک کے وزیراعظم نیزامت شاہ وزیرداخلہ ہیں۔ بی جے پی کئی دہائیوں سے رام مندر کے ایشو پر تحریک چلاتی رہی ہے جس کا مقصد بابری مسجد کے مقام پر شاندار رام مندر کی تعمیر ہے۔ پارٹی اس مقصد میں بھی کامیاب ہوچکی ہے اور عنقریب مندر کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوجائے گا مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں ’رام راج‘ آیا،جس کا وعدہ تھا؟ ’رام راج‘ کا مطلب یہ ہے کہ جرائم کا خاتمہ ہوجائے؟ دشمنی اور نفرت معاشرے میں باقی نہ رہے اور شیروبکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں۔ اگر ملک میں ہونے والے جرائم کے اعداد وشمار پرنظر ڈالیں جو خود حکومت نے مہیا کئے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی نے اگرچہ وعدہ کیا تھا رام راج کا، مگر وہ لائی ہے راون راج۔ماضی میں کبھی بھی ملک میں اس قدر جرائم نہیں ہوئے تھے جتنے حالیہ ایام میں ہوئے ہیں اور اس فہرست میں سب سے اوپر وہ ریاست ہے جسے شری رام چندر جی کی جنم بھومی قرار دیا جاتا ہے اور جہاں رام جی کے سب سے بڑے مبینہ بھکت یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے۔ایسے میں اگر کوئی شخص حکومت کی خرابی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو سنگھ پریوار کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب حکومت خود بتاتی ہے کہ ملک میں سنگین جرائم بڑھ گئے ہیں تو ملک کی بدنامی نہیں ہوتی ہے؟  حکومت، جرائم سے پاک معاشرہ بنانے میں ناکام ثابت ہوتی ہے تو ملک کی بدنامی نہیں ہوتی؟جب پولس والے خود قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو بدنامی نہیں ہوتی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نئے سال میں ہمارا ملک جرائم سے پاک ہوگا؟ کیا حکومت اس جانب توجہ دے گی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو بہتر بنائے گی؟ کیا ریپ کے واقعات میں کمی آئے گی؟ کیا ماب لنچنگ پرکنٹرول کیا جائے گا یا حکومت کنٹرول کرنا چاہے گی؟یہ سوال اس لئے بھی اٹھ رہے ہیں کہ 2019میں ریپ اور ماب لنچنگ کے واقعات بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں مگر نئے سال سے مثبت امیدیں فطری ہیں۔
 یہ تو راون راج ہے
     این سی آربی کے اعداد بتاتے ہیں کہ ’رام راج‘کاوعدہ کرنے والوں نے ملک کو ’راون راج‘ میں تبدیل کردیا ہے اور دن بہ دن جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جرائم کے اعداد جاری کرنے والا ادارہ این سی آر بی وزارت داخلہ کے ماتحت آتاہے جس نے 2019میں 2017 کے اعداد و شمار ایک سال کی تاخیر کے بعد جاری کردیئے ہیں۔ نیشنل کرائم رکارڈ بیوروکی رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں 2017میں جرائم کے کل 50 لاکھ معاملے درج ہوئے، جو 2016 کے مقابلے میں 3.6 فیصد زیادہ ہیں۔حالانکہ اغوا کے واقعات میں نو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں قتل کے 30ہزار،450 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2017 میں  28ہزار،653قتل کے معاملات درج ہوئے۔ 2016 میں اغوا برائے تاوان کے 88ہزار،8 واقعات ہوئے جو 2017 میں بڑھ کر 95ہزار،893 ہو گئے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت، این سی آر بی 1954 سے مسلسل جرائم کے اعدادوشمار جاری کرتا رہا ہے۔
یوپی میں سب سے زیادہ جرائم
     جرائم کے لحاظ سے اگرریاستوں کو دیکھیں تو اس میں یوپی سرفہرست ہے، جہاں کل 3لاکھ،10ہزار،084 معاملات درج ہوئے، جو پورے ملک کے جرائم کا 10.1 فیصد ہے۔ یوپی کے بعد مہاراشٹر (9.4)، مدھیہ پردیش (8.8)، کیرالا (7.7) اور دہلی (7.6) کا نمبرہے۔ملک میں اغوا کے کل کیسوں میں سے 20.8 فیصد صرف یوپی سے ہیں۔ 2016 میں ملک کی سب سے بڑی ریاست میں اغوا کے 15ہزار،898 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ 2017 میں، یہ اعداد 4ہزارتک بڑھ گئے۔ بچوں کے خلاف جرائم میں بھی یوگی کا یوپی سب سے اوپرہے۔یہاں ایسے معاملات 2016 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ درج کیے گئے تھے۔ 
خواتین کے لئے خطرناک یوگی راج
    پورے ملک میں اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم سب سے زیادہ درج ہوئے ہیں۔ 2017 میں، یوپی میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر 56011 کیس درج ہوئے جبکہ پورے ملک میں اسی سال 3.60 لاکھ ایسے جرائم درج ہوئے۔ 2015 میں خواتین کے خلاف جرائم کے کل 35908 اور 2016 میں 49262 معاملات درج ہوئے تھے۔ ان میں سے 2524 مقدمات جہیز قتل، 12600 گھریلو تشدد اور 15ہزار اغوا کے تھے۔ 2017 میں ریاست میں زنا کے کل 4246 واقعات درج ہوئے تھے۔
 جرائم کی راجدھانی 
    قومی دارالحکومت دلی میں درج معاملوں سے شہر میں جرائم میں غیرمعمولی اضافہ کا پتہ چلتا ہے۔یہاں ممبئی، چنئی، کولکاتہ اور بنگلورو کے مقابلہ میں جرائم دوگنا اور تین گنا بڑھے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے نئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی میں ہندوستانی تعزیراتی قانون کے تحت جرائم کے رجسٹریشن میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔ 19 میٹروپولیٹین شہروں میں جرائم کے لحاظ سے نمبرایک پر دلی ہے۔ان میٹرو سیٹیز میں ممبئی، بنگلور، لکھنؤ،کلکتہ، حیدرآباد، چنئی، پٹنہ اور کانپور بھی شامل ہیں۔ این سی آر بی کے اعدادوشمار کے مطابق، 2017 میں دہلی میں خواتین کے ساتھ ریپ کے 1ہزار،168 واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ ممبئی میں اسی سال کے دوران 287 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جے پور 210 مقدمات کے ساتھ تیسرے نمبر پر، اندور 206 کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ کولکاتہ میں 15 زنا کے واقعات ہوئے مگر کوئمبٹور میں 2017 میں زنا کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ دہلی میں قتل کے چار سو مقدمات درج ہوئے اس لحاظ سے تمام بڑے شہروں میں یہ سرفہرست ہے۔ اس دوران بنگلورمیں 235 افراد اور پٹنہ میں 183لوگوں کا قتل ہوا۔پٹنہ اس معاملے میں ملک کاتیسرا سب سے زیادہ قتل کی وارداتوں والاشہر بن گیا۔واضح ہوکہ دلی میں اگرچہ عام آدمی پارٹی کی سرکار ہے مگر پولس مرکزی سرکار کے ماتحت ہے اور وزیرداخلہ کی ذمہ داری ہے شہر کے جرائم پر نظر رکھنا۔
ہندوستان یا ریپستان؟
     ایک دوسری رپورٹ یہ ہے کہ 1 جنوری سے 30 جون 2019کے دوران، ملک میں بچوں سے ریپ کے تقریبا 24 ہزار واقعات رجسٹرڈ ہیں۔اس فہرست میں 3457 معاملوں کے ساتھ اترپردیش سب سے اوپرہے۔جب کہ سب سے کم 9 معاملے ناگالینڈ سے سامنے آئے ہیں۔ یوپی میں بچوں سے ریپ کے حساس مقدموں میں بھی پولیس کی لاپرواہی سامنے آئی ہے۔حد یہ کہ اس طرح کے 50 فیصد سے زیادہ یعنی 1779 معاملوں کی تحقیقات ہی مکمل نہیں ہو پائی ہے، درندگی کے ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس بلیک لسٹ میں، مدھیہ پردیش 2389 مقدمات کے ساتھ دوسرے نمبرپر ہے لیکن پولیس نے 1841 مقدموں میں ہی انکوائری مکمل کر چارج شیٹ داخل کی ہے۔ ریاست کی عدالتوں نے 247 مقدموں میں سماعت بھی مکمل کرلی ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جو اعداد و شمار ہمیں ملے وہ پہلی جنوری سے 30 جون تک کے ہیں۔ اس سے پہلے کے اعداد و شمار اور زیادہ ہوں گے۔ جنسی جرائم میں مبتلا بچوں کا ضلعی پیمانے پر ڈیٹا چاہئے۔    
ہندتووادیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش
    بھارت میں ماب لنچنگ اور مذہب کے نام پر تشدد عام بات ہے جس میں بھگواوادی ہی عموماً ملوث پائے جاتے ہیں۔ چند مہینے پہلے جب جرائم کے اعدادوشمار سامنے آئے تو مرکزی حکومت نے بے حد چالاکی سے ماب لنچنگ کے اعدادوشمار چھپالئے۔یہ نہیں بتایا گیا کہ مودی سرکار کے دوران کتنے لوگ ہجومی تشدد کا شکار ہوئے؟ حکومت نے پہلے بھی بے روزگاری کے اعدادوشمار چھپا ئے تھے، لیکن شدید دباؤ کے بعد اسے جاری کرنا پڑا۔ کسانوں کی مسلسل خودکشیوں کے باوجودان کے اعداد و شمار تیار نہیں کیے جارہے ہیں۔ جی ڈی پی نمو میں ہیرا پھیری کے الزامات پہلے ہی حکومت پر لگے ہیں۔اس قسم کی معلومات حاصل کرنے والے قانون آر ٹی آئی کو بھی مشکل بنایا جارہا ہے تاکہ عوام سے وہ معلومات چھپائی جاسکیں جنھیں حکومت چھپانا چاہتی ہے۔ اب آرٹی آئی کو مستقل طور پر کمزور کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شفافیت کے دعوے کرنے والی، حکومت کو حقیقت ظاہر کرنے والے اعداد و شمار سے پریشانی کیوں ہے؟کیا امت شاہ کی وزرات داخلہ حقیقت کو سامنے لانے سے ڈرتی ہے؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

04جنوری 2020

 

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے