میرٹھ میں جو کچھ ہوا اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی ہندوتوا طاقتیں کوشش کریں گی، اترپردیش اور ملک کی ان ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ مظفر نگر میں مسلم خواتین کے ساتھ ایسے ہی واقعات پیش آئے، تاہم میڈیا بھی خاموش رہا، ایوان میں بھی بازگشت سنائی نہیں دی۔ میرٹھ کے واقعہ میں ہندوتوا اور سیاسی طاقتیں تبدیلی مذہب کے معاملہ کو اچھال رہی ہیں، حالانکہ مظفر نگر میں باقاعدہ ’’بیٹی بچاؤ۔ بہو بناؤ‘‘ کی مہم چلائی گئی۔ مسلم لڑکیوں کی عصمت ریزی کرکے انہیں ہندوبنانے کی زبردست تحریک چلائی گئی، اس پر چند ایک زندہ ضمیر صحافیوں کہ کسی اور نے قلم نہیں چلایا۔ جس طرح بی جے پی کو اقتدار پر لانے کے لئے بکاؤ میڈیا نے منظم تحریک چلائی، اب یہی میڈیا ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی مہم میں جٹ گیا ہے۔ جون میں گوا کے وزیر دھوالکر نے کہا تھا کہ مودی ہندوستان کو ہندو راشٹرا بناسکتے ہیں، جس کے لئے سب کا ساتھ مل سکتا ہے۔ وشوا ہندو پریشد کے اشوک سنگھل نے بھی کہدیا کہ انتخابی نتائج مسلم سیاست کے زوال کی علامت ہیں، اب ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانا مودی کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے ہندو اور بدھ آبادی پر مشتمل ہندو کلچرل کامن ویلتھ کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا۔ سپریم کورٹ کے ایک جج تو کچھ اور جوش میں آگئے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ ڈکٹیٹر ہوتے تو، ابتدائی جماعتوں سے ہی ہندوسنا تھن دھرم کی مقدس کتابیں نصاب میں شامل کرتے، رامائن اور بھگوت گیتا کا پاٹھ ہر طالب علم کے لئے لازمی قرار دیتے۔
ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کے لئے یک بعد دیگر مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی اہم ترین شخصیات بیانات بازی میں مصروف ہیں، اور یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند طریقہ سے کیا جارہا ہے۔ جون 2014میں تیسرے آل انڈیا ہندو کنونشن جن میں 20ریاستوں کی 125ہندو تنظیموں کے چار سو نمائندوں نے شرکت کی اور ہند۔نیپال کے تعاون سے دونوں ممالک کو مکمل ہندوراشٹرا بنانے سے متعلق قرارداد منظور کی گئی۔ قرار داد کے مطابق مجوزہ ہندوراشٹرا میں ہندوؤں کو مستحکم بنانے کے لئے حفاظت خود اختیاری کی ملک بھر میں کلاسس کا آغاز، گاؤکشی پر مکمل امتناع، تمام شہریوں کے لئے یکساں سیول کوڈ، پانچ کروڑ بنگلہ دیشیوں کا ملک سے اخراج شامل ہے۔ اس قرار داد میں سنگھل کے مطالبہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان ایودھیا ، کاشی متھرا کی مساجد سے دستبرداری اختیار کرلیں، دستور کی دفعہ 370کو حذف کردیا جائے۔ ہندو کنونشن کا یہ بھی مطالبہ ہیکہ پورے ملک کے لئے ایک قومی تعلیمی بورڈ تشکیل دیا جائے، مدارس اور کرسچین مشنری اسکولس، یتیم خانہ مائناریٹی کمیشن ، مائناریٹی منسٹریز کو برخواست کیا جائے۔
ہندو کنونشن کے بعد ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کی تحریک میں شدت پیدا کردی گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھوٹان کے دورہ سے اپنے بیرون سفر کا آغاز کیا، جہاں بدھ مذہب سرکاری مذہب ہے، اس کے بعد ان کا اگلا پڑاؤ نیپال تھا، جہاں ہندو آبادی دو کروڑ 41لاکھ70ہزار ہے، نیپال کو ویدک سناتھن ہندو راشٹرا کہا جاتا ہے، اگرچہ کہ دستور کی رو سے ہے سیکولر ملک ہے۔ تاہم نیپال کو شیوابھومی (شیوا کی زمین) تاپو بھومی (تزکیہ نفس کی سرزمین) گیان بھومی (معلومات کا سرچشمہ) اور گاؤ رکھشا بھومی (تحفظ گاؤ کی زمین) کہا جاتا ہے۔ نریندر مودی کو نیپال کی مشہور پشپاتی ناتھ مندر میں پوجا کے بعد وہاں کے سوامی نے ’’ہندو دھرم کا چہرہ‘‘ قرار دیا۔
بہرحال ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کی تحریک یوں تو آزادی سے پہلے ہی سے ہندو تنظیمیں چلاتی رہی ہیں، تاہم 1980میں بی جے پی کے قیام کے بعد سے اسے تقویت ملی۔ 6؍ ڈسمبر 1992ء اس سلسلہ میں ہندوتوا طاقتوں کی سب سے بڑی کامیابی کا دن تھا، جب صدیوں قدیم بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ رام مندر تحریک سے رام راجیہ یا ہندوراشٹرا بنانے کی تحریک جاری رہی۔ نام نہاد سیکولر جماعتوں کی کمزوری ، تساہل، ان کے داخلی اختلافات نے ہندوتوا نظریہ کی حامل جماعتوں کو تقویت بخشی۔ گودھرا واقعہ کو بنیاد بناکر، 2002ء میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تو جتنی گجرات حکومت اور اس کے چیف منسٹر کی مذمت کی گئی، اتنی ہی اسے مقبولیت حاصل ہوئی، ہندوتوا طاقتوں کو مودی کے روپ میں اپنا نجات دہندہ نظر آیا، مودی کی مخالفت ، ان کے حق میں ہندوتوا کی سند ثابت ہونے لگی، اور یہی کچھ دیکھتے ہوئے جب بی جے پی نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے ان کا نام پیش کیا تو پورے ملک کے ہندوؤں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا، میڈیا کے صحیح استعمال نے بالآخر ہندوستان کی عنانِ اقتدار مودی کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب اکثریتی طبقہ جن میں سیکولر عوام بھی شامل ہیں، ہندوستان کو ایک ہندو راشٹرا بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ دستور ہند کی رو سے ’’سیکولر‘‘ کہلانے والے ہندوستان میں ہر شعبہ حیات میں ہندوتوا نظریہ کے حامل عناصر غالب آچکے ہیں، پولیس ہو کہ عدلیہ ہر ایک شعبہ حیات پر ہندوتوا طاقتیں غالب ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر چار برس پہلے ہی ممتاز ناول نگار و سماجی جہد کار ارون دھتی رائے نے کرن تھاپر کو سی این این ۔ آئی بی این کے لئے دےئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندوستان ایک کارپوریٹ ہندو سیٹلائٹ اسٹیٹ ہے۔
کشمیر کے ایک کالم نگار سید فردوس نے ڈی این اے میں لکھے گئے مضمون میں کہا کہ جس ملک میں بال ٹھاکرے جیسی شخصیت کی ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسومات انجام دی جائیں، فرقہ وارانہ اور لسانی و علاقائی خطوط پر منافرت پھیلانے والے کے آخری دیدار کے لئے نام نہاد سیکولر قائدین کی موجودگی کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ مستقبل میں گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تائید کرنے والے اکثریت میں آجائیں تو گوڈسے کو ملک کا ’’نیا باپو‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان، ہندوراشٹرا بن سکے گا یا نہیں، ’’ہندو‘‘ یا ہندوستان کا پس منظر آخر ہے کیا۔ ’’ہندو‘‘ وادی سندھ کے مشرق میں رہنے والوں کو بیرونی باشندے پہلے ’’سندھو‘‘ کہا کرتے تھے، یعنی سندھ کے کنارے رہنے والے اور ان کے ملک کو ہندوستان کہا جانے لگا۔ اٹھارویں صدی میں ’’ہندو‘‘ ایک ایسے مذہب کے ماننے والوں کو کہا جانے لگا جن کا کوئی ایک بھگوان ، کوئی ایک بانی اور کوئی ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ وہ کئی دیوی دیوتاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔
ہندوستان میں جو بھارت کے نام سے زیادہ مشہور رہا، مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزار سال حکومت کی، اس ملک کو اپنایا، اسے حسن، شان و شوکت عطا کی۔ 1947میں ملک تقسیم ہوا، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسلامی مملکت پاکستان کو منتقل ہوگئی، مگر ان سے کہیں زیادہ تعداد نے اسی سرزمین پر رہنے کا فیصلہ کیا، جس کے لئے انہوں نے ہر قسم کی قربانیاں دیں۔
آزاد ہندوستان کے دستور سازوں نے اسے سیکولر ملک قرار دیا، جہاں ہر شہری کو مذہبی آزادی، بنیادی حقوق میں شامل ہے۔
ہندوستان میں کل تک اکثریت سیکولر اقدار پر یقین رکھتی تھی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ نظریات بدل گئے، سیکولرزم کی آڑ میں ہندوتوا نظریہ کو فروغ دینے کی پالیسی اختیار کی جاتی رہی۔ بابری مسجد کی شہادت کے لئے صرف سنگھ پریوار ذمہ دار نہیں ہے بلکہ سیکولرازم کے لبادے اوڑھے وہ جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ووٹ بنک کے طور پر استعمال کیا۔ 2014کے انتخابی نتائج کے بعد سیکولرزم کا نعرہ اور دعوی، کھوکھلاہوچکا ہے، جن جماعتوں کو شکست ہوئی، وہ جان گئے ہیں کہ اب سیکولرزم کے نام پر ووٹ حاصل نہیں کئے جاسکتے، اس لئے انہیں بھی وہی روش اختیار کرنی پڑے گی جو بی جے پی اور سنگھ پریوار کی قبیل کی جماعتوں نے کی ہے۔ مستقبل میں ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کے لئے آیا دستور میں ترمیم کی کوشش کی جائے گی، یا 2019کے الکشن کا نعرہ ’’اب کی بار ووٹ ۔ ہندوراشٹرا کے لئے ‘‘کے لئے لگایا جائے گا۔
ہندوستان ہندو راشٹرا بنے یا نہ بنے۰۰ اس کے لئے لگائے جانے والے نعروں سے سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہندوستانی مسلمانوں کو ہے، مشہور پولٹیکل سائنٹسٹ ہنٹنگٹن کے بموجب اسلام کی ایک عالمی تہدیب و تمدن کے طور پر مشرق سے مغرب تک وسعت ہے، مشرق میں ہندو اور مغرب میں یہود و نصاری کی اس سے مقابلہ آرائی میں مصروف ہیں موجودہ حالات ہندوستانی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکر ہیں، بدلتے ہوئے حالات میں انہیں اپنے جان مال، مذہبی، لسانی، تہذیبی و ثقافتی تشخص کے لئے قدم اٹھانے ہونگے۔ مذہبی، سیاسی اور دانشورانہ سطح پر ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے جو مایوسی پیدا ہوئی اسے ختم کرنے مسلم قیادت پر سے جو اعتماد اٹھ گیا، اس کی بحالی کی ضرورت ہے، وہ کیسے ۔ اس پر متحدہ و متفقہ طور پر ایک پلیٹ فارم پر غور و فکر اور پھر عمل کی ضرورت ہے۔ ورنہ
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
جواب دیں