ہندوستان اسلحوں کا سب سے بڑا خریدار! نظر کس کی!

اس میں ایک وجہ جہاں ایک طرف ابھی حال ہی میں بی جے پی کی سیاسی طاقت کا گجرات میں کم ہونا ہے جس سے بی جے پی کے حامیوں میں ایک مایوسی آرہی ہے اس کو دور کرنا ہے۔ کیونکہ گزشتہ دنوں اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو شکست نصیب ہوئی اور بلدیاتی الیکشن میں بی جے پی نے کافی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس لئے ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے طور پر بی جے پی کا عام کارکن اس کو لیتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ ابھی تک ہندوستان کے بڑے سرمایہ دار اور آر ایس ایس کے نظریے کے حامی دانشور نریندرمودی کو ملک کا وزیر اعظم بنانے کی بات کرتے تھے تو اس میں یہ راز پنہاں تھا کہ مرکز میں یو پی اے کی سرکار معاشی اصطلاحات کی رفتار کو بہت سست رفتار سے آگے بڑھا رہی ہے جس سے ان سرمایہ داروں کو ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے میں دیر لگ رہی ہے۔ جب کہ منموہن سنگھ کی سرکار اپنے تمام حلیف جماعتوں کو ساتھ لے کر اعتماد سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب مسلم مخالف طاقتیں نریندرمودی کو ہندوستان کا وزیراعظم اس لئے بنانا چاہتی ہیں تاکہ وہ گجرات جیسے حالات ایک بار پورے ہندوستان میں پیدا کرکے پورے ملک کے حالات کو فرقہ وارانہ بنادیں۔ اور اس کام میں نریندر مودی ان کے لئے سب سے معاون ثابت ہوں گے۔
اب رہی یہ بات کہ آخر امریکہ کے اخبارات نریندرمودی کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں تو اس کے درپردہ جو ادارہ ہے اس کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آخر امریکہ ہی کی میڈیا میں کیوں نریندر مودی کی تعریف ہوتی ہے تو ایک بات ہم کو سمجھ لینی چاہئے کہ امریکہ میں اسرائیل نواز یہودی لابی بہت مضبوط ہے اور میڈیا تقریباً اس کے قبضے میں ہے اور یہ لابی ہندوستان میں سنگھ پریوار کے نظریات سے ہم آہنگی رکھتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سنگھ پریوار اور صہیونی لابی بنادی طور پر اسلام مخالف لابی ہے اس لئے سنگھ پریوار کا اور اس کے نظریات سے متاثر افراد اور سرکاری افسران کا رجحان اسرائیل کے موافق رہتا ہے۔ اور یہودی لابی کو امریکہ اور یوروپ کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں اپنا ہمنوا مل رہا ہے۔
اس لئے وہ ان تنظیموں سے قربت بنارہی ہے۔ دوسری بات جو ہے وہ معاشی فائدے کی ہے اور شاید سب سے اہم ہے کیوں کہ امریکہ اور یہودی قوم ساری دنیا میں اپنے مفادات کے لئے کوئی بھی کارنامہ انجام دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں سب سے بڑا فائدہ اور سب سے بڑی منڈی ہندوستان کی دفاعی ضروریات ہیں۔ جس پر امریکہ اور اسرائیل کی نظر ہے۔ اس سال ہندوستان دنیا میں اسلحوں کا سب سے بڑا خریدار ملک بن کے ابھرا ہے۔ اور ہندوستان کے سامنے اس وقت دفاعی چیلنج بہت زیادہ ہیں جہاں پہلے پاکستان سے ہی جنگ کا خطرہ بنا رہتا تھا وہیں پر آج چین ہندوستان کے لئے سب سے بڑا فوجی خطرہ بن کے ابھرا ہے اس لئے ہندوستان کی سرکار اس سلسلے میں بہت محتاط نظر آرہی ہے اور وہ اپنا دفاعی خرچہ اور بجٹ بڑے پیمانے پر بڑھا رہی ہے۔ ہندوستانی فوج کا اس سال کا بجٹ 36ارب ڈالر ہے اور چین کا فوجی بجٹ 100کروڑ ڈالر سے آگے جاچکا ہے۔ اس لئے چین کے خطرے کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی سرکاربھی آئندہ ایک دہائی میں اپنا فوجی بجٹ 100کروڑ ڈالر تک بڑھانا چاہتی ہے چونکہ ہندوستان اسلحوں کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار ہے اور نے اس سال اپنے بجٹ کا 44% فیصد اسلحوں کی خریدپر خرچ کیا ہے۔ اس لئے دنیا بھر کی اسلحہ کمپنیوں کی نظر ہندوستان پر ٹکی ہوئی ہے چونکہ ابھی تک امریکہ اور سرائیل نواز اسلحہ کے کاروباریوں کو لگتا تھا کہ ہندوستان اب سارے اسلحے امریکہ اور اسرائیل سے خریدے گا۔ اسی لئے امریکی صدر نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اور آر ایس ایس کی جو لابی سرکاری مشینری میں پائی جاتی ہے اس کے ذریعے اسرائیل سے گذشتہ سالوں میں ہندوستان فوج کے لئے 5 ارب ڈالر کے اسلحے خریدے گئے۔ لیکن یہ اسلحے اتنے کارآمد ثابت نہیں ہوئے جتنا ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس لئے ہندوستان کی سرکار نے بہت سوچ سمجھ کر فضائیہ کے لئے جدید طیارے فرانس کی کمپنی سے خریدے ہیں اور ان کی قیمت 50 ہزار کروڑ روپئے ہیں جب کی کئی امریکی اور یوروپی کمپنیاں ہندوستان کے ہاتھوں اپنے جدید ترین طیارے فروخت کرنے کے لئے تیار تھیں۔ لیکن ہندوستان نے اعلیٰ ٹکنالوجی کا ایک کفایتی طیارہ ہندوستانی فضائیہ کے لئے خریدا ہے اور آئندہ دہائی میں تقریباً دس لاکھ کروڑ کے ہتھیار ہندوستان کی فوج کو درکار ہے۔ اور امریکہ و اسرائیل نواز لابی کو یہ خدشہ ہے کہ ہندستان کی موجودہ سرکار کہیں آئندہ کا سودا بھی کسی یوروپی ملک یا وس کے ساتھ کرے تو دنیا کے سا سب سے بڑے خریدار کو وہ کھو دے گ۔ اسی طرح اسرائیل بھی اسلحوں کے بازار کا بڑا کھلاڑی بننا چاہتا ہے اس لئے اس کی لابی بھی ہندوستان میں کام کررہی ہے اور ہندوستان میں یہودی لابی کے سب سے بڑے رفیق آر ایس ایس کے نمائندے اور اس کی ذہنیت کے سرکاری افسران ہیں ۔ اس لئے امریکہ اور اسرائیل کا مقصد ہے کہ ہندوستا ن میں بی جے پی کی حکومت بنے تو وہ اپنی لابی اور پریشر کے ذریعے ہتھیاروں کے اس سب سے بڑے سودے کو اپنے حق میں کرے۔جس سے دنیا کی تیسری سب سے بڑی فوج کی ضرورت کو سالہا سال تک پورا کیا جاسکے اور دن دونا رات چوگنا منافع کمایا جا سکے۔ اور اس کام کے لئے سب سے موضوع ترین شخص نریندر مودی ہی ہوسکتے ہیں اور اس کے لئے ابھی سے میڈیا کے ذریعے مہم شروع کردی گئی ہے اسی ضمن میں ٹائم میگزین نے نریندر مودی اور اہل گاندھی کے درمیان معارکہ دکھایا ہے کہ سن2014 میں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے راہل گاندھی اور مودی آمنے سامنے ہیں۔ لیکن اس معارکہ میں مودی کا پلّہ بھاری ہے۔ جب کہ آج کے ہندوستان میں جو سیاسی صورت حال ہے اس میں نہ تو اگلا وزیر اعظم مودی کو بنایا جاسکتا ہے اور نہ راہل گاندھی کو۔ کیونکہ علاقائی پارٹیاں الیکشن میں اتنا اہم رول ادا کرنے والی ہیں کہ اس میں نہ تو راہل گاندھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور نہ نریندر مودی کیونکہ آئندہ ہندوستان کا وزیر اعظم وہیں بنے گا جس کی سیاست اقلیتوں دلتوں اور پسماندہ سماج کے مفادات کے حق میں ہوگی اور بدقسمتی سے راہل گاندھی اور نریندر مودی ان خصوصیات پر کھرے نہیں اتر رہے ہیں۔

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے