پاکستان نے دوسرے روز اسلام آباد میں ہندوستانی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کرتے ہوئے سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر احتجاج درج کروایا اور پاکستانی دفتر خارجہ نے ڈپٹی ہائی کمشنر سے کہا کہ ہندوستان کو اس واقعہ کی تحقیقات کرکے پاکستان کو واقف کروایا جائے جس میں ہندوستانی سپاہیوں کی فائرنگ میں 15سیویلینس زخمی ہوئے ہیں۔دونوں ممالک کی جانب سے ہائی کمشنر اور ڈپٹی ہائی کمشنر سے جواب طلبی کے باوجود بونچھ میں گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاکستان نے پھر ایک مرتبہ خلاف ورزی کی ہے جس کے جواب میں ہندوستانی سپاہیوں نے بھی کارروائی کی اس دوران کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ، معتمد خارجہ اور وزرائے اعظم کے درمیان بہتر تعلقات کے سلسلہ میں بات چیت کا ماحول فراہم کرنے کی بات ہوتی ہے تو دوسری جانب سرحد پر جنگ بندی کے خلاف کارروائیوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا جاتا ہے اس طرح دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے مراحل لیت و لعل کا شکار ہوجاتے ہیں اور دونوں ممالک کے دہشت گرد عناصر کو پڑوسی ملک کے خلاف کہنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی سپاہی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
صوبہ پنجاب، پاکستان کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ (ریٹائرڈ کرنل) کو16؍ اگسٹ ،اتوار کے روز انکے آبائی ضلع اٹک کے گاؤں شادی خان میں شجاع خانزادہ ڈیرے پر خودکش حملے کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا ان کے علاوہ 16افرادبشمول سیکیوریٹی پر مامور ڈی ایس پی حضرو شوکت شاہ بھی ہلاک ہوگئے۔پنجاب پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا کے مطابق وزیر داخلہ اپنے ڈیرے پر ایک عزیز کی وفات پر تعزیت کیلئے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات کررہے تھے کہ اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خودکش حملہ آور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔اس حملے میں چھت گرنے کی وجہ سے صوبائی وزیر داخلہ سمیت درجنوں افراد ملبے تلے دب گئے اور ان میں بعض ہلاک اور بعض زخمی ہوگئے جنہیں مشینری استعمال کرتے ہوئے نکالا گیا۔ شجاع خانزادہ کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ وہ حق گو اور سیدھے سادھے اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک تھے۔ وہ 2014میں صوبہ پنجاب کی وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف فعال کردار ادا کیا۔ لاہور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد شجاع خانزادہ نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبہ پنجاب میں دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ صوبائی وزیر داخلہ اس موقف پر یقین رکھتے تھے کہ جب تک معاشرے سے نفرت کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک امن و امان پر قابو پانا مشکل ہے۔شجاع خانزادہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جس طرح فعال تھے اس کی وجہ سے انہیں دھمکیاں بھی مل رہی تھی اور وہ ان دھمکیوں کو نظر انداز کرتے رہے، تفصیلات کے مطابق ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران انہیں دہشت گردوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ پاکستان سے اتنا جلدی دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے تو دوسری جانب لوٹ مار، قتل و غارت گیری، فائرنگ، بم دھماکے وغیرہ سے محفوظ نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے اپنے تعزیتی بیان میں اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہادر پاکستانی قوم اور شجاع خانزادہ جیسے ہیروز کی قربانیاں بزدل دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنادیں گی اور ان کے آخری ٹھکانے تک ان کا پیچھا کرکے ان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ تعزیتی پیغام میں پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ شجاع خانزادہ کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور اس سے پاکستان کا دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور اس عفریت کے خاتمے کا عزم مزید مضبوط ہوگا۔جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی یہ بزدلانہ حرکتیں قوم کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ پر دہشت گردانہ کارروائی بعد شاید ہوسکتا ہے کہ پھر ایک مرتبہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستانی فوج اور دیگر سیکیوریٹی ایجنسیاں دہشت گردوں کے اڈوں پر سخت کارروائی کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس میں کئی عام شہریوں کی ہلاکت ہوجائے لیکن اصل دہشت گردانہ کارروائیوں کی انجام دہی کے لئے احکامات جاری کرنے والے سرغنے پناہ گاہوں میں کسی گزند کے بغیر آرام سے زندگی گزارتے رہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت اگر واقعی پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے پاکستانی اٹلی جنس کو مزید کارکرد بناتے ہوئے دہشت گردوں کے اصل پناہ گاہوں کو تلاش کرنا ہوگا اور فوج صحیح سمیت کارروائی کے لئے راہیں فراہم کرنی ہونگی ورنہ فوجی کارروائی میں بے قصور افراد ، دہشت گردی کے نام پر مارے جائیں گے۔خبروں کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ حملے سے قبل اپنے آبائی علاقے میں کالعدم تنظیموں کے متحرک ہونے کے بارے میں بھی انسداد دہشت گردی کے محکمے کو آگاہ کیا تھا جس کے بعد محکمے کے ذمہ داروں نے اس علاقے میں کارروائی کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا شروع کیا تھا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اور فوج کی جانب سے گذشتہ سال سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے سخت کارروائیاں کیں جارہی ہیں اس کے باوجود پاکستان آج بھی دہشت گردی کے نشانہ پر ہے اور عام آدمی کا سکون سے زندگی گزارنا پاکستان میں مشکل نظر آتا ہے کیونکہ جب ایک صوبائی وزیر داخلہ جسے دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں اس کے باوجود ان کی سیکیوریٹی کا انتظام ناقص ہو تو پھر عام عوام کے لئے کس طرح سیکیوریٹی فراہم کی جاسکتی ہے۔؟ شدت پسند تنظیمیں جس طرح اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرتے جارہے ہیں انکے خلاف حکومت اور فوج کی کارروائیاں میں بھی وسعت پیدا ہورہی ہے یہ صرف پاکستان اور افغانستان کا ہی حال نہیں بلکہ عراق، شام ، لیبیا، ترکی، یمن وغیرہ میں بھی ہے۔ گذشتہ جمعرات کو عراق کے دارالحکومت بغداد کی اشیاء خوردونوش کی معروف مارکیٹ جمیلہ میں زور دار دھماکے کے نتیجے میں60سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے زخمیوں میں بعض کی حالت نازک بتائی گئی اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کاخدشہ ظاہر کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق بارود سے بھرا ہوا ٹرک عراقی دارالحکومت کی مصروف ترین مارکیٹ جمیلہ میں کو علی الصبح زور دار دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ پولیس کے مطابق جمعرات کے روز اس مارکیٹ میں بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے جہاں ملک کے دیگر صوبوں کے شہری خریداری کیلئے آتے ہیں دھماکے کے فوری بعد مقامی افراد نے زخمیوں کو طبی امداد کیلئے ایمبولینسوں اور دیگر نجی گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال منتقل کیاگیا۔عراق میں چند برس قبل القاعدہ ایک مذاحمتی گروپ کی حیثیت رکھتا تھا تاہم گذشتہ ایک سال سے دولت اسلامیہ (داعش) کی مسلح کارروائیوں کا آغاز ہوا اور داعش اس وقت عراق کے کئی سرحدی علاقوں ، قصبوں اور شہروں میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے قبضہ کرتی جارہی ہے۔ شام اور عراق کے بعد اب داعش کی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوکر لیبیاء تک پہنچ گیا ہے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق داعش لیبیا کے شہر سرت پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے اسے لیبیاکا مرکز بنانے کی تیاری میں ہے۔ ترکی میں بھی داعش کی سرگرمیاں جاری ہے جبکہ سعودی عرب، کویت میں داعش نے مساجد پر خودکش دھماکے کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس طرح عالم اسلام کے کئی ممالک میں داعش کی دہشت گردانہ کارروائیاں میڈیا کے ذریعہ بتائی جارہی ہے ۔ داعش کس کے اشارے پر یہ کارروائیاں انجام دے رہی ہے یہ ایک راز ہے اگر داعش واقعی مسلم جہادی تنظیم ہوتی تو اس قسم کے دہشت گردانہ کارروائیاں کسی صورت انجام نہیں دے سکتی کیونکہ اسلام نے امن و سلامتی کے دامن کو تھامے رکھنے کا درس دیا ہے ۔
* شام کے حالات کو گذشتہ چار سال سے لگاتار خراب ہوتے جارہے ہیں حانہ جنگی کی وجہ میں کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد بشمول معصوم بچے و خواتین ہلاک ہوچکے ہیں۔ گذشتہ دنوں شامی فوج کی جانب سے دارالحکومت دمشق کے نزدیک قصبے پر فضائی حملے میں 110افراد ہلاک اور300سے زائد زخمی ہوگئے اور اس کارروائی کو شام میں شروع ہوئی خانہ جنگی کے بعد سب سے بڑی فضائی کارروائی بتایا جارہا ہے ۔ شامی حزب اختلاف کی حامی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شامی طیاروں نے بازار پر دو بار بمباری کی۔شامی حزب اختلاف کے کارکنوں اور مقامی رہائشیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی فوج کے طیاروں نے دمشق سے 15 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع قصبے دوما کے ایک بازار پر بمباری کی۔آبزرویٹری کے مطابق شامی طیاروں نے پہلے حملے میں بازار پر کم از کم 10 بم گرائے اور جب امدادی کارکن اور لوگ ملبے میں دبے افراد کی مدد کے لیے وہاں پہنچے تو طیاروں نے دوسری بار علاقے پر بمباری کی۔فضائیہ کے جنگی طیاروں نے دوما اور اس کے نزدیک واقع قصبے ہراسطہ میں باغی تنظیم اسلام آرمی کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔مذکورہ باغی تنظیم کا شمار دارالحکومت دمشق کے نزدیک سرگرم سب سے موثر اور منظم باغی گروہوں میں ہوتا ہے جس کے جنگجووں نے ہفتے کو ہراسطہ میں سرکاری تنصیبات پر حملے بھی کیے تھے۔ شامی فوج کے حملے منظم باغی گروپ کو ختم کرنا ہی ہے تو انٹلی جنس کے ذریعہ اصل مقام تک پہنچے بجائے اس کے جہاں پر عوام روزمرہ ضروریاتِ زندگی کے سامان حاصل کرنے آتے ہیں ان پر حملے کرکے خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ عوام حکومت کے خلاف کسی بھی کارروائی میں حصہ نہ لیں۔ ایک طرف شدت پسند تنظیموں کے نشانہ پر ہیں تو دوسری جانب فوج کی اس ظالمانہ کارروائیوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی قائدین و ممالک شامی حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان کسی قسم کی مصالحت کرانے سے قاصر ہیں ۔
* مصر کے حالات اور۰۰۰
مصر نے دہشت گردی کے خلاف نئے قانون کی منظوری دے دی ہے ، نئے قانون کو میڈیا پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے دہشت گردی کے خلاف نئے قانون کی منظوری صدر عبدالفتح السیسی نے دی۔نئے قانون کے تحت کسی بھی دہشت گرد حملے کی غلط رپورٹنگ کرنے والوں پر بھاری جرمانے کے علاوہ انہیں ملازمت سے برطرف بھی کیا جاسکے گا۔نئے قانون کے تحت، غلط رپورٹنگ پر کم از کم دو لاکھ پاؤنڈ اور زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ پاؤنڈ تک جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ دوسری جانب، ناقدین نے اس نئے قانون کو میڈیا پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ مصر میں موجودہ صدر و سابقہ فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی نے عوامی منتخہ حکومت کے صدر محمد مرسی کو فوجی بغاوت کے ذریعہ برخواست کردیا تھا اور انہیں آج بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ محمد مرسی کی تائید میں اخوان المسلمین نے احتجاج کیا جس کے خلاف مصری فوج اور سیکیوریٹی ایجنسیوں نے سخت کارروائی کرتے ہوئے ہزاروں اخوانیوں کو ہلاک اور زخمی کیا اور بچنے والوں میں بیشتر کو جیلوں میں قید کردیا۔ موجودہ حکومت مصر میں کسی قسم کی عوامی مداخلت کے خلاف ہے یہی وجہ بتائی جارہی ہے نئے قانون کے ذریعہ عوام کے ساتھ ساتھ میڈیا پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکومت اور سیکیوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے جو ظلم و بربریت کی جائے گی اس کی رپورٹ منظر عام پر آئے تو اسے غلط قرار دیا جاسکتا ہے اور اسکے خلاف یعنی میڈیا نمائندے یا ادارے کے خلاف سخت کارروائی کی جائیں گی۔ اس طرح کہیں پر شدت پسندوں کی ظلم و بربریت تو کہیں پر حکمرانوں کے جبرو استبداد کا شکار عام عوام ہورہے ہیں۔
ترکی میں حکومت سازی میں رکاوٹیں
ترکی میں صدر رجب طیب اردغان کی جماعت اے کے پی اور اپوزیشن پارٹی سی ایچ پی کے درمیان جاری مذاکرات ناکام ہو گئے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق پارلیمانی انتخابات کے دو ماہ بعد حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا ۔صدراردغان کی جماعت حکومت سازی کے لیے انتہائی دائیں بازو کی جماعت ایم ایچ پی کے ساتھ بھی مذاکرات کر سکتی ہے لیکن وہ ابھی تک اس سے انکار کرتی آئی ہے۔ اگر حکومتی جماعت کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی سے اتحاد کرنے میں ناکام ہوتی ہے توترکی میں پھر عام انتخابات کا اعلان کرنا پڑسکتا ہے ۔ ترکی کے حالات بھی دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں گذشتہ چند برسوں سے ترکی کی معیشت ترقی کررہی تھی لیکن ترکی میں بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد معیشت پر اثر پڑنے لگا ہے اور ترکی کو آنے والے سیاح اپنا رخ بدل رہے ہیں ۔اب ترکی بھی امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ داعش اور دیگر دہشت گردانہ جماعتوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے ۔ کیا دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے خطرناک فضائی کارروائیوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے اگر ہے تو اسے کون اور کیسے آگے بڑھا سکتا ہے
جواب دیں