اگر آپمساچیوسٹس کے کیمبرج میں سافٹ وےئرکنسل ٹینسی کی ایک فرم دماغی کے بانی اور ملازم ہوں تو آپ اختراعی ٹکنالوجی کا استعمال کر کے ان میں سے کچھ لوگوں کی صحت اور زندگی کا معیار بہتر بناتے ہیں۔یہ بات یاد رہے کہ امریکہ میں کسی شخص کی متوقع عمر غریب ممالک میں افراد کی متوقع عمر سے دوگنا زیادہ ہے۔ دماغی کے بانی اور چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر وکرم شیل کمارنے یہ بات ان لفظوں میں کہی ’’ہم ترقی پذیر ملکوں میں ہر زندگی کے مقابلے دو زندگیاں گزارتے ہیں۔ دماغی میں ہم لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی پہلی زندگی دوسروں کی خدمت کی نذر کریں گے۔‘
دماغ عربی زبان کا لفظ ہے۔ مغز،عقل اور تکبر اس کے مفاہیم ہیں۔معنی کے اعتبار سے دماغی کا مفہوم دماغ سے نسبت رکھنے والا،خود پسنداور نازک مزاج وغیرہ ہے۔ دماغی نام کی تنظیم جن ملکوں میں عوام کی خدمت کا کام کررہی ہے ان میں ہندوستان بھی شامل ہے جہاں اس فرم کا اختراعی ،کَوم کےئر سافٹ وےئر ایکری ڈیٹڈ سوشل ہیلتھ کارکن (آشا)پروگرام کے تحت بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ دماغی نے کَوم کےئرنامی سافٹ وےئر اوپن سورس پروگرام کے طور پر شروع کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دیگر تنظیمیں اس پروگرام تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کرسکتی ہیں اور اس کے ذریعہ سماجی طبی خدمت گاروں کو یہ آسانی حاصل ہوتی ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرکے گاؤں میں مریضوں کا علاج کرسکیں۔ یہ ایک تصور ہے جس کا نام ایم ہیلتھ رکھا گیا ہے۔
کَوم کےئرملٹی میڈیا کی مدد سے،جس کا استعمال گاؤں والوں کو مائل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، آشا کارکن مریضوں کے بارے میں اطلاعات جمع اور تلاش کرسکتے ہیں ، گزرتے وقت کے ساتھ انفرادی کیسوں کا انتظام کرسکتے ہیں اور آڈیو اور ویڈیو کلپ کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے مناسب طور طریقوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔زچہ کی صحت، ملیریا، ٹی بی، ایڈس اور نقص تغذیہ جیسی بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے کَوم کےئر کا استعمال مروج ہے اور اب اسے یونائیٹیڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ یعنی یو ایس ایڈ کی گرانٹ کے تحت پورے ہندوستان میں پھیلائے جانے کا منصوبہ ہے۔
سات لاکھ پچاس ہزارسے زائد آشا کارکنوں کو ہندوستان کے قومی دیہی صحت مشن کے تحت اس شعبے میں تربیت دی گئی ہے اوراس مشن پر معمور کیا گیاہے۔اور ہر گاؤں میں ایک آشا کارکن کو تعینات کرنے کامقصد بہت حد تک حاصل کرلیا گیا ہے لیکن بہرحال دشواریاں اب بھی برقرار ہیں جن کے حل کے لئے دماغی اورکَوم کےئر کو پیش قدمی کرنی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر کمار نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان کو مثالی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہندوستان میں دنیا کے بہترین صحت کارکنوں کا نیٹ ورک ہے جہاں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن منظور شدہ ہیں اور ہر گاؤں تک پہنچتے بھی ہیں۔ اس لئے پالیسی بالکل واضح ہے۔ اصل مسئلہ پالیسی پر عمل درآمد کا ہے کیونکہ صحت کے کارکنوں کو اتنی تربیت نہیں دی جاتی جتنی دی جانی چاہئے۔اس لئے ہوسکتا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ کرنا کیا ہے۔ اور اس شعبے میں نگرانی مشکل ہے۔ ’’دماغی میں ہم لوگ اس پہلو پر نظر رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس چیز کو بہتر بنانے میں ٹکنالوجی کا رول بہت اہم ہوگا۔‘
دماغی ۸۲ ملکوں میں رضاکار تنظیموں، صحت عامہ کی تنظیموں، تحقیقی اداروں اور حکومتوں سے مل کر کام کررہی ہے۔نو ریاستوں میں سرگرم ۵۱ پارٹنرکَوم کئیر استعمال کررہے ہیں۔یہ پرائیویٹ فرم ’بینی فٹ کارپوریشن ‘کے طور پر بنائی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سماجی مقاصد کے حصول کو منافع پر ترجیح دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ اس کا مشن انسانی صحت اور فلاح کو بہتر بنانے کے لئے عالمی، سرکاری اور غیر سرکاری خدمات میں اختراعی ٹکنالوجی کو مربوط کرنا ہے۔
ڈاکٹر کمار نے کہا ’’ ہم انتہائی شدید مسائل سے دوچار دنیا کے انتہائی غریب لوگوں میں سے کچھ کے لئے کام کررہے ہیں۔اس لئے (منافع پر مبنی) منڈی کا حصول ہمارے مسئلہ کا نہیں ہوگا۔ ہم اس کیلئے تیار نہیں کہ ان اہم اور دلچسپ چیزوں کو محض مالی فائدہ کے لئے ترک کر دیں جن کی سچ مچ ضرورت ہے۔میں سائیکل سے چلتا ہوں۔ ہم تمام لوگ چھوٹی تنخواہیں لیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر کمار نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ دماغی، ترقی پذیر دنیا میں زندگی بہتر بنانے کے کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گی لیکن ایم ہیلتھ حقیقی معنوں میں ایک عالمی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کے پاس مستقبل کے لئے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ہنرمند کارکن خاطرخواہ تعداد میں ہوں۔ اس لئے ہر ملک کو کام کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور مختلف رکاوٹوں سے دوچار ڈاکٹروں پر انحصار کرنے سے گریزکے راستے نکالنے ہوں گے۔
جواب دیں