ہندی ہفت روزہ پانچ جنیہ کی زہرافشانی

کوئی شخص اخبارکی ورق گردانی کرے یا نہ کرے، اس پر جس کی نظرپڑتی ہے وہ پہلی اسٹوری پر نظرضرورڈال لیتا ہے۔قارئین کی نظرمیں یہ اس شمارے کی اہم ترین تحریرہوتی ہے۔زیر تبصرہ مضمون مسٹرونے کرشن چترویدی نے لکھا ہے جو اپنا قلمی نام ’طفیل‘ لکھتے ہیں اورہندی جریدہ ’لفظ‘کے ایڈیٹرہیں۔
مضمون کا محوریہ مفروضہ ہے کہ مدارس میں طلباء کو اورمسلم علماء ودانشورعوام کو ’ہندستانی روایات سے نفرت سکھاتے ہیں۔ اور یہ کہ’ ’ اخلاق نے اسی طرح کی غلط تعلیمات سے متاثرہوکر گؤ کشی کا ارتکاب کیا۔‘‘ مضمون نگار نے ان ادیبوں پر سخت تنقید کی ہے جنہوں نے ملک میں تشدد کی موجودہ فضااوراس پر مسٹر مودی کی خاموشی اوران کے وزیروں کے اشتعال انگیزی پر بطور احتجاج اپنے اعزازات لوٹادئے ہیں۔( اب تک ان کی تعداد چالیس سے تجاوز کرچکی ہے) اورلکھا ہے: ’’آپ کو وہ گؤ کشی نہیں دکھائی دی جو اخلاق نے کی؟‘‘
جھوٹ اورافتراکے اس پلندے میں مضمون نگار نے ان باضمیرادیبوں کے خلاف جو زہرافشانی کی ہے، اس سے ان کے خلاف وارداتوں کے لئے شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ اہل قلم گؤکشی (کے مفروضے) پر خاموش کیوں ہیں ؟ جب کہ’’ویدوں کا آدیش ہے کہ گؤہتیا کرنے والے پاپی کی جان لے لو۔ ہم میں سے بہتوں کے لئے تو یہ موت اورزندگی کا سوال ہے۔‘‘
چترویدی جی مزید لکھتے ہیں:’’گؤ کشی ایک ایسی سنگین کام ہے کہ ہزاروں سال سے ہمارے پرکھوں نے گائے کو مارنے والوں کے مقابلہ پر اپنی جانوں کو داؤں پر لگائے رکھا۔‘‘ انہوں نے نہایت عیاری سے کام لیتے ہوئے گؤکشی کے افسانے کوحقیقت قراردے دیااورکہہ دیا اخلاق کا ہلاک کیا جانا ’’گؤ کشی ‘‘ کے گناہ کا ’’ردعمل ‘‘ تھا ۔عیاری اس وجہ سے گؤ کشی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہی ایک افواہ ہے جس کو سنگھی اوربھاجپائی بار بار دوہرا ہے ہیں تاکہ عوام اس افواہ کو سچ جان لیں۔ 
وہ لکھتے ہیں،’’ آپ لوگ یہ نہیں دیکھ پائے کہ ایسی سوچ کے سماج میں رہنے والا اخلاق ایسے بھیانک نتیجہ دینے والے پاپ کے لئے اتسک کیسے ہوگیا؟‘‘ اور یہ کہ ’’اگر تم اسی فیصد اکثریت کے جذبات کا احترام نہیں کرتے تو اس طرح کا ’’ردعمل‘‘ کس طرح رک سکتا ہے۔‘‘ یہ وہی دلیل ہے جومودی جی نے گجرات میں مسلم کشی کے حق میں دی تھی۔
اخلاق کے خون ناحق کو جائز قرار دیتے ہوئے آرایس ایس کے ترجمان اخبارمیں مضمون نگار نے لکھا ہے: ’’ہندستانی معاشرہ گائے کشی کے خاطی کو ہلاک کردینے والوں کو اس نظریہ سے نہیں دیکھتا جس نظریہ سے چاپلوسی اورمنھ بھرائی کے یہ وکیل (ادیب )دیکھتے ہیں۔ بلکہ ہمارا سماج ان افراد کا گن گان کرتا ہے، ان کو یاد رکھتا ہے جو گؤکشی کے خلاف جدوجہد میں ’شہید‘ ہوئے۔‘‘زرا غورکیجئے کس طرح اخلاق کے قاتلوں کااور اس طرح کے دوسرے واقعات کے قاتلوں کا گن گان کیا جارہا ہے؟مضمون نگار کا یہ دعوا بھی باطل ہے کہ ملک کی اسی فیصد آبادی گوشت خوری سے متنفرہے۔ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد گوشت کھاتی ہے ۔ کئی علاقوں کے ہندو باشندے گائے کے گوشت سے بھی گریزنہیں کرتے۔
مسٹرطفیل لکھتے ہیں، ہندستانی مسلمان بھی تواصلا ہندو ہی تھے، جن کا مذہب تبدیل کرادیا گیا۔ اخلاق کے پرکھے بھی اسی طرح گؤ رکشک تھے جیسے گؤ ہتیاروں کو دنڈت کرنے والے لاتعداد بہادر ہیں۔ ‘ ‘’’ان نومسلموں میں اتنی نفرت کہاں سے آگئی کہ وہ گؤرکشک سے گؤ ہتیارے بن گئے۔ ‘ اس کے لئے انہوں نے ’مدارس اورمسلم علماء ودانشوروں پر الزام دھرا ہے۔
غلط بیانیوں اورزہرافشانیوں سے پراس مضمون کی اشاعت کے بعد اخباروں اوردیگر میڈیا میں اس قدر سخت ردعمل ہوا کہ آر ایس ایس بھی بوکھلا گئی ۔ اس شمارے کو ویب سائٹ سے ہٹادیا گیا ۔سنگھ کے پرچارپرمکھ من موہن ویدیہ نے یہ کہہ کر پلا جھاڑ لیا کہ پانچ جنہ آرایس ایس کا ترجمان نہیں۔ اخبار کے ایڈیٹر ہتیش شرما نے کہہ دیا کہ یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، سنگھ تشدد کی تائید نہیں کرتا۔ یہ لچردلیل ہے۔کوئی ہفت روزہ جریدہ، کبھی کسی ایسے مضمون کو اپنی کوراسٹوری نہیں بناتا جواس کے نظریہ کی ترجمانی نہ کرتا ہو۔ مسٹرویدیہ کا یہ دعوا بھی عبث ہے کہ پانچ جنیہ آرایس ایس کا ترجمان نہیں۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری سنہ1948ء میں مکرسنکرانتی کے دن مسٹراٹل بہاری باجپئی کی زیرادارت شائع ہو ا۔ وہ اس وقت آرایس ایس کے پرچارک تھے۔ آرایس ایس کے نظریہ ساز دین دیال اپادھیائے اور کے ار ملکانی سمیت اس کو جتنے بھی ایڈیٹر ہوئے ،سب آرایس ایس کے پرچارک یا سیوم سیوک رہے ہیں۔ اس کا اشاعتی دفتر دہلی کے جھنڈیوالان میں آرایس ایس کے صدردفتر میں ہے۔یہ جس اشاعتی ادارہ کے تحت شائع ہوتا ہے وہ آرایس ایس کا قائم کردہ اوراس کے ہی زیرکنٹرول ہے۔ اس کے ایڈیٹر وں کوآرایس ایس کی اعلاترین مشاورتی کونسل’ ’اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا‘‘ اور مخصوص مشاورتی کونسل ’’وچار سموہ‘‘ میں پابندی سے مدعو کیا جاتا ہے۔اسی کے ایڈیٹر تنظیم کے اعلاترین منصب دار ’سنگھ پرمکھ‘ کے ساتھ ’انٹرویو ‘کے لئے طلب کئے جاتے ہیں۔ مسٹر بھاگوت کا وہ انٹرویو جس میں انہوں ریزرویشن پر نظرثانی کی بات کہی تھی انگریزی ترجمان آرگنائزراور ہندی ترجمان پانچ جنیہ کے ایڈیٹروں نے مشترکہ طور پر لیا تھا۔ انڈین ایکسپریس نے 20اکتوبرکی اشاعت میں مسٹرویدیہ کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ آرگنائزر کی ویب سائٹ pravakta.com پر اس کی تاریخ کے ساتھ یہ درج ہے کہ یہ دونوں جرائد سنگھ کے ترجمان ہیں۔ اسی ویب سائٹ پرپانچ جنیہ کے سابق مدیر اورسنگھ کے پرچارک دیوندر سروپ کا سنہ2012ء کا ایک انٹرویو ہے جس میں انہوں نے انگریزی اورہندی ترجمانوں کی مختصرتاریخ بتائی ہے اورصاف طور پر کہا ہے کہ یہ آرایس ایس کے ترجمان ہیں۔
ان حقائق کو اب اس پس منظر میں دیکھئے جس میں وزیراعظم کی ہدایت پر پارٹی صدر امت شاہ نے ہریانہ کے وزیراعلا موہن لال کھٹراورپارٹی کے دیگرلیڈروں کو صدردفترطلب کرکے گؤ کشی کے معاملے پر افتراقی بیایات دینے سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے پارٹی کی ریاستی سرکاروں سے بھی کہا ہے کہ جب گؤ کشی روکنے کے لئے قانون موجود ہیں تو اس پرعوامی بحثوں کو روکا جائے۔ لیکن کہیں کسی رپورٹ سے ، کسی خبرسے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ روک ٹوک اس لئے کی جارہی ہے کہ ان کی نظرمیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے اوربے قصوروں کو مارنے کوٹنے اورہلاک کرنے کا بڑھتاہوارجحان قابل مذمت ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے ان واقعات سے بہاراسمبلی الیکشن میں این ڈی اے کے امکانات معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری کی مودی صاحب کی آرزوؤں پر پانی پھرگیا ہے، ہم ایوارڈ واپس کرنے والی ہستیوں کے خلاف ارن جیٹلی کے بیان کو بھی نہایت قابل اعتراض اورتشدد پسند عناصر کی حوصلہ افزائی سمجھتے ہیں، جن سے مودی جی کو ناخوش بتایا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی خاموشی بھی بڑی معنٰی خیز ہے۔صدرجمہوریہ اس صورتحال پر گزشتہ دو ہفتوں میں تین بار تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔منگل کے روز ارن جیٹلی کا ایک اوربیان آیا وہ بھی محض خانہ پوری ہے۔ 
دراصل گؤ کشی کا تو بہانا ہے جس کی حوصلہ افزائی سارے سنگھی کررہے ہیں۔ اصل معاملہ اعتدال پسندوں کی آواز کو دبانا اورہندتووا کے نظریہ کو ابھارنا ہے۔ اسی کے تحت دوسرامقصد اقلیتوں اوراکثریت کے درمیان نفرت کی دیواروں کو بلندکرنا ہے۔جموں میں ایک ٹرک کو نذرآتش کیا جانا اوراس میں ایک شخص کی موت اس کا ثبوت ہے۔ یہ واردات کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اس جذبہ کا اظہار ہے جس کو جموں ریجن میں بھاجپا نے پروان چڑھایا ہے۔ 
جو لوگ کسی بھی وجہ سے بھاجپا کی تائید وحمایت کرتے ہیں ان کو غورکرناچاہئے کہ ہندستان کا نظام آئین اورقانون کے تحت چلنا چاہئے یاچند ویدک تعلیمات کے مطابق؟ ہم ویدوں کا احترام کرتے ہیں کہ ان میں آسمانی کتابوں کی تعلیمات کے اجزاء موجود ہیں۔ان میں بہت سی قابل قدر اخلاقی تعلیمات بھی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ان میں مختلف ذہن کے افراد کی تحریروں کی اس قدرآمیزش ہوگئی ہے کہ یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ کیا اصل ہے اورکیا اضافہ۔ مسٹرچترویدی نے گؤ کشی کے معاملے میں اس کی ایک رائے کا حوالہ دے کر اخلاق کے قتل ناحق کو جائز قراردیا ہے۔ کل کو اگرکوئی شخص کسی ہریجن کے کانوں میں اس لئے سیسہ پگھلا ڈال دے کہ اس نے کوئی اشلوک سن لیا تھا ، تو کیا اس حیوانیت کا جواز بھی ویدوں سے پیش نہیں کیاجاسکتا؟کسی اچھوت کے لئے وید کا سن لینا یا چھولینا ممنوع ہے۔ اب اگرکسی ہریجن کے گھر سے وید برآمد ہوگیا، یا کسی دلت نے اپنے گھر میں گائتری منتر کا فریم لگالیا، تو چترویدی جی اس کی سزا کا کیاحکم دیں گے؟ قدیم ویدک تہذیب میں چھوت چھات اورذات برادری کی اونچ نیچ اورہرمعاملہ میں برہمن کی بالادستی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔برہمن کواگرکوئی شودر برابھلا کہہ دے تو اس کی زبان کاٹ دی جائیگی۔اس کو املاک رکھنے کا حق نہیں۔ برہمن کو یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ شودر کا مال چھین لے۔ اوربھی ایسی باتیں ہیں جن کا بیان گوارا نہیں۔ اگرمسٹرچترویدی کے نظر میں ویدوں کے احکام موجودہ معاشرے میں قابل عمل ہیں تو کیا وہ ایک مرتبہ پھر برہمنوں کے بالادستی چاہتے ہیں؟ مسٹرموہن بھاگوت کا یہ کہنا کہ ریزرویشن پر پھر سے غورکیا جائے یا ان فاسد تعلیمات کا ہی اثرہے جن کے تحت اچھوتوں کو علم سے دوررکھا جاتا تھا؟ 
مولانا رابع ندوی کی نصیحت
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لائق صداحترام صدرمولانا سیدرابع حسنی ندوی نے ایک مخصوص نظریہ حیات پورے ملک پر تھوپے جانے کی کوششوں کے خطرات سے آگاہ کرایا ہے اورباہم مروت کی پرخلوص تلقین کی ہے۔ مولانا محترم نے جن قابل تقلید جذبات اوراحساسات کا اظہارفرمایا ہے ان کو مختلف زبانوں میں پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ اس جھوٹ پروپگنڈے کا ازالہ ہوسکے کہ مدارس اورہمارے علماء اہل وطن سے منافرت کی تلقین کرتے ہیں۔ اس جھوٹے پروپگنڈے کا اثر یہ ہوا ہے کہ میں ہمارے بزرگ علماء، صلحا اورصوفیاء نے زاید از ہزارسال پیار،محبت، خدمت خلق کی جو سوغات دی، قول اورفعل کی یکسانیت سے جو پیغام دیا، اپنی سادگی پسندی سے جو وقار حاصل کیا ،اس کو بھلایا جارہا ہے۔ اوروں کی تو بات ہی کیا کریں مروت اور اختلاف کو برداشت کرنے ، دوسرے کی رائے کا احترم کرنے کاامتیاز تو خود ہمارے اپنے کرداروں سے مٹتا جا رہا ہے۔ جو صوفیاء اورمشائخ کی نمائندگی کا دم بھرتے اوران کے نام پر تنظیمیں کھڑی کئے ہوئے ہیں وہ خود اپنے دینی بھائیوں کے خلاف عوام کے ذہنوں میں زہرگھولتے پھرتے ہیں۔حضرت مولانا کی زیرسرپرستی پرسنل لاء بورڈ بھی بعض معاملات کو اسطرح اٹھارہا ہے جس سے فرقہ ورانہ محاذ آرائی کی بوآتی ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے لئے بس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں۔ اتحاد کا نعرہ لگانا فضول اورغیر حقیقی ہے۔ صرف باہم مروت اور رائے ومسلک کے احترام کی طرف بلائیں۔ ہماری زندگی میں یہ کوششیں بارآور ہوں یا نہ ہوں، اللہ کے روبرو سرخروئی تو حاصل ہوہی جائیگی۔
مولانا نظام الدین مرحوم
مولانا نظام الدین ایک معروف بزرگ ہستی تھے ۔مرحوم قدیم دورکی یادگار تھے۔ ان کے انتقال پر ہم ان کے تمام متعلقین ، متوسلین اورعقیدت مندوں کو تعزیت پیش کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی حسنات کو شرف قبولیت بخشے اوربشری کمزوری سے جو سئیات سرزد ہوگئی ہوں ان سے درگزرفرمائے۔ اورملت ان مسائل سے محفوظ رہے جو عام طورسے کسی بڑے آدمی کی وفات کے بعد خودغرضوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پیداہوجاتی ہیں ۔ آمین۔
اردویونیورسٹی کے نئے وی سی
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز صاحب، جنہوں نے دہلی کے ڈاکٹرذاکرحسین کالج کو بام عروج تک پہنچایا، مولانا آزاد یونیورسٹی ، حیدرآباد کے وی سی مقرر ہوئے ہیں۔ اس خبر سے ان کے قدرشناسوں میں بڑی خوشی ہے۔ ڈاکٹرصاحب سائنس کے ممتازپروفیسر ہیں۔ اردومیں ان کا رسالہ ’سائنس‘ بیحد مفید اور مقبول ہے۔ وہ علوم قرآنیہ کے دلدادہ ہیں اوراس نظریہ کے حامل ہیں کہ سائنس کا مطالعہ قرآن کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ان کی ذات سے یونیورسٹی کو بہت فائدہ پہنچے گا اوراس کے اساسی مقصد کی تکمیل میں مددملے گی۔ آل انڈیا ایجوکیشنل موومنت اوراردوڈولپمنٹ آرگنائزیشن نے مشترکہ طورپر اس تقرری کا خیرمقدم کیا ہے ادر مبارکباد پیش کی ہے۔ 

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے