از قلم: محمد فرقان رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی تیسری طاق رات ختم ہوکر جب صبح صادق کا پرنور اجالا کرہ ارض پر پھیل رہا تھا، چڑیوں کی خوشگوار چہچہاہٹ رب کائنات کی وحدانیت کا ثبوت دے رہی تھی، سورج اپنے آب وتاب کے ساتھ طلوع ہورہا تھا، اسی صبح کی اولین […]
رئیس المحدثین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری ؒ ایک عہد ساز شخصیت!
از قلم: محمد فرقان
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی تیسری طاق رات ختم ہوکر جب صبح صادق کا پرنور اجالا کرہ ارض پر پھیل رہا تھا، چڑیوں کی خوشگوار چہچہاہٹ رب کائنات کی وحدانیت کا ثبوت دے رہی تھی، سورج اپنے آب وتاب کے ساتھ طلوع ہورہا تھا، اسی صبح کی اولین ساعتوں میں علم و عرفان کا ایک عظیم آفتاب غروب ہورہا تھا، جسکے دوبارہ طلوع ہونے کی قطعی امید نہ تھی۔ یہ خبر عالم اسلام پر بجلی کی طرح گری اور جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل کر ہر کسی کو غم و افسوس میں مبتلا کرتے ہوئے لاکھوں افراد کے آنکھوں کو نم کر گئیں کہ عالم اسلام کی عظیم المرتبت عہد ساز شخصیت، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین، رئیس المحدثین، قدوۃ المفسرین، امام المتکلمین، فخر المحققین، سند الکاملین، زبدۃ المجتھدین، قطب العارفین، شیخ المشائخ، استاذ الاساتذہ حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ طویل علالت کے بعد ۵۲/ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق 19/ مئی 2020ء بروز منگل کو اس دار فانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون، ان اللہ ما اخذ ولہ مااعطی وکل شء عندہ بأجل مسمی۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اسی دن شام پانچ بجے کے قریب مہاراشٹرا کی دارالحکومت ممبئی کے جوگیشوری کے اوشیواڑہ مسلم قبرستان میں حضرت علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا احمد صاحب پالن پوری مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور وہیں تدفین کی گئی۔ حضرت مفتی صاحب ؒ کا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے جو امت مسلمہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ موت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ موت نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ چاہے انسان ہو یا حیوان یا پھر چرند ہو یا پرند، سب جانداروں کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ نظام اس دنیا کے پیدا کرنے والے کا ہی بنایا ہوا ہے۔ اور اسی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ”کُلّ نَفْس ذَاءِقَۃ الْمَوْت“ (سورہ آل عمران، آیت:185) کہ ”ہرجاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔“اور مومن کیلئے موت ایک عظیم نعمت ہے جو مالک حقیقی سے جا ملنے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ انبیاء و رسل، صحابہ و تابعین اور اولیاء و صلحاء سب کو اس جہاں سے کوچ کرنا پڑا۔ اسی طرح حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری ؒ بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا آنکھ حیراں ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
رئیس المحدثین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری ؒ کی ولادت کالیٹرہ، ضلع بناس کانٹھا، پالن پور، شمالی گجرات میں جناب یوسف صاحب ؒ کے گھر ۰۶۳۱ھ مطابق 1940ء میں ہوئی۔آپ کے والدین نے آپ کا نام”احمد“ رکھا تھا، لیکن جب آپ نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا تو اپنے نام کے شروع میں ”سعید“ کا اضافہ کر دیا، اس طرح آپ کا پورا نام”سعید احمد“ ہوگیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن گجرات ہی میں ہوئی، آپ کی”بسم اللہ خوانی“ آپ کے والد ماجد نے کرائی اور ناظرہ و دینیات وغیرہ کی تعلیم آپ نے وطن کے مکتب میں حاصل کی، پھر آپ اپنے مامو مولانا عبدالرحمن صاحب شیرا قدس سرہ کے ہمراہ دارالعلوم چھاپی تشریف لے گئے اور وہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، دارالعلوم چھاپی میں آپ کا قیام چھ ماہ رہا۔ پھر آپ مصلح الامت حضرت مولانا نذیر احمد صاحب پالن پوری ؒ کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور وہاں حضرت مولانا مفتی محمد اکبر صاحب پالن پوری ؒ اور حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری ؒ سے عربی کی ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھیں۔ پالن پور میں شرح جامی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۷۷۳۱ھ مطابق 1957ء میں آپ نے مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا اور تین سال تک حضرت مولانا صدیق احمد صاحب جموی ؒ سے نحو اور منطق و فلسفہ کی بیشتر کتابیں پڑھیں۔
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ نے فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر فنون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۰۸۳۱ھ مطابق 1960ء میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ۲۸۳۱ھ مطابق 1962ء میں دورہئ حدیث شریف سے فارغ ہوئے اور سالانہ امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کیے۔آپ نے بخاری شریف فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادیؒ سے، مقدمہ مسلم شریف و مسلم شریف کتاب الایمان و ترمذی شریف جلد اول حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ سے، باقی مسلم شریف حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلند شہریؒ سے، ترمذی جلد ثانی مع کتاب العلل و شمائل اور ابوداؤد شریف حضرت علامہ فخرالحسن صاحب مرادآبادیؒ سے، نسائی شریف حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندیؒ سے، طحاوی شریف حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوریؒ سے، مشکوٰۃ شریف حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندیؒ سے، ان کے انتقال کے بعد جلد اول حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب دیوبندیؒ سے، اور جلد دوم حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمیؒ سے پڑھی، اس سال موطا مالک حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ اور موطا محمد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ کے پاس تھی۔ (مشاہیر محدثین و فقہائے کرام)
دورہئ حدیث سے فراغت کے بعد اگلے سال حضرت مفتی صاحب ؒ نے شعبہ افتاء میں داخلہ لیا اور حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری ؒ کی نگرانی میں کتب فتاوی کا مطالعہ اور فتوی نویسی کی تربیت حاصل کی۔ تکمیل افتاء کے بعد ۴۸۳۱ھ میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں علیا کے مدرس مقرر ہوئے، یہاں تقریباً دس سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ کی تجویز پر ۳۹۳۱ھ میں دارالعلوم دیوبند کے مسند درس وتدریس کے لئے آپ کا انتخاب عمل میں آیا۔ دارالعلوم میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ سالہا سال سے ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف کے اسباق پڑھاتے رہے اور ۹۲۴۱ھ مطابق 2008ء سے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب ؒ کی علالت کے بعد سے حضرت مفتی صاحبؒ تاحیات بخاری شریف کا درس بھی دیتے رہے۔
حضرت مفتی صاحب ؒ بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین، کتب بینی، اور محنت کے عادی تھے۔ انکا مزاج شروع ہی سے فقہی رہا ہے، یہی وجہ تھی کہ فقہی سیمیناروں میں آپ کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی اور آپ کے مقالات کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نیز آپ کی فقہی مہارت اور رائے قائم کرنے میں حد درجہ حزم و احتیاط ہی کی وجہ سے دارالافتاء دارالعلوم کے خصوصی بنچ میں آپ کا نام نمایاں طور پر شامل تھا۔ اس کے علاوہ جس طرح حضرت والا کا انداز خطابت نہایت مؤثر، درس نہایت مقبول اور عام فہم ہوتا تھا، اسی طرح آپ کی تمام تصانیف نہایت آسان، عام فہم اور مقبول عام و خاص ہیں، آپ کی تقریریں نہایت مبسوط، اور علمی نکات سے پُر، اور تحریریں نہایت مرتب، واضح اور جامع ہوتی تھیں، اسی لئے آپ کی کئی تصانیف دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ کے نصاب درس میں داخل ہیں۔ آپکی تصانیف کو عالم اسلام میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ کی شرح ”رحمۃ اللہ الواسعہ“ حضرت ؒ کے تصنیفی کمالات کا شاہکار ہے، اس کے علاوہ انہوں نے متعدد درسی کتابوں کی تسہیل اور شرح کی خدمت بھی انجام دی اور ساتھ ہی ”ہدایت القرآن“کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی۔ (”سوانح مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ“، تحریر: مولانا مفتی امین پالن پوری مدظلہ)
حضرت مفتی صاحب ؒ نے تصوف و سلوک کے میدان میں بھی عظیم مقام پایا تھا۔ آپ طالب علمی کے زمانہ سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ سے بیعت تھے، اور دیگر بزرگان دین خاص طور پر حضرت مولانا عبد القادر صاحب رائے پوری ؒ سے بھی فیض یافتہ ہوتے رہے۔ اور اخیر میں حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری ؒ سے تعلق قائم کیا، جنہوں نے آپکو اجازت بیعت و ارشاد سے نوازا تھا۔ اس طرح حضرت مفتی صاحب ؒ کو ہر میدان میں یکساں عبور حاصل تھا۔
راقم الحروف کو عالم اسلام کی جن عظیم المرتبت شخصیات کو قریب سے دیکھنے، سننے اور ملاقات کا حسین موقع ملا ان میں رئیس المحدثین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ کی ذات گرامی بطور خاص شامل ہے۔ ماضی قریب کے سالوں میں جب بھی حضرت والا کا شہر گلستان بنگلور آمد مسعود ہوتا راقم بلا ناغہ انکی مجالس میں شریک رہتا۔ آپکی شخصیت تواضع و انکساری، خوش مزاجی و سادگی، تقویٰ و پرہیز گاری، شستہ و شگفتہ اخلاق کی حامل تھی۔ آپ کا ذوق لطیف، طبیعت سادہ اور نفیس، مزاج میں استقلال اور اعتدال، فطرت میں سلامت روی، اور ذہن رسا کے مالک، زود نویس اور خوش نویس، حق و باطل، اور صواب و خطاء کے درمیان امتیاز کرنے کی وافر صلاحیت، اور حقائق و معارف کے ادراک میں یکتائے زمانہ تھے۔ آپ دبستان علم و تحقیق کی معزز و مؤثر شخصیت، صاحب فہم و بصیرت، فضل و عمل اور خلوص و صداقت کے پیکر، فکر نانوتوی دیوبندیت کے پاسبان، دارالعلوم دیوبند کے مایہئ ناز شیخ الحدیث و صدر المدرسین اور رکن شوریٰ، مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ناظم اعلیٰ، ہزاروں اداروں کے سرپرست، لاکھوں علماء کے استاذ اور اکابرین امت کے علوم کے عظیم شارح تھے۔
زندگی کے آخری لمحات میں حضرت مفتی صاحب ؒ طویل عرصہ تک بیمار رہے۔ بغرض علاج ممبئی میں مقیم تھے کچھ افاقہ ہوا تو رمضان المبارک میں بعد نماز تراویح درس قرآن دیا کرتے تھے لیکن اچانک طبیعت پھر سے خراب ہوگئی۔ جسکے علاج کیلئے آپکو ممبئی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ جہاں علم و عمل کے اس روشن ستارے نے ۵۲/ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق 19/ مئی 2020ء بروز منگل بوقت چاشت اپنی آخری سانس لیتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپکے انتقال کو دنیا بھر کے علماء و مشائخین نے عالم اسلام کیلئے ایک عظیم خسارہ قرار دیا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ ہر ایک غم و افسوس میں مبتلا تھا اور ہر کوئی تعزیت کا مستحق تھا۔ انکے انتقال سے آقائے دوعالم جناب محمد الرسول اللہﷺ کا یہ فرمان ”موت العالِم موت العالَم“ کہ ”ایک عالم دین کی موت پورے عالم کی موت ہے“ کا ہر کسی نے عملی مشاہدہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت مفتی صاحب ؒ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انکی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیلین میں جگہ نصیب فرمائے، ہم تمام کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو انکا نعمل بدل عطاء فرمائے۔ آمین عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقیں نہیں ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
31 مئی 2020 (ادارہ فکروخبر بھٹکل )
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں