حضرت مولانا محمد اقبال ملا ندوی ۔ چیف قاضی جماعت المسلمیں کی رحلت

تدبر، تفکر ، تفقہ ،زہد وتقشف کی نادر مثال ۔ایک سورج ، جس نے کئی چاند روشن کئے

  تحریر: عبد المتین منیری۔بھٹکل

آج مورخہ 23 ذی قعدہ 1441ھ  مطابق 15؍ جولائی 2020ء بوقت چاشت منگلور کے اسپتال میں حضرت مولانا  محمداقبال ملا ندوی صاحب چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل و صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل نے  زندگی کی آخری سانس لی، وہ گزشتہ 16 دنوں سے شدید بیماری کی وجہ سے وینٹیلیٹر پر تھے۔ انہیں سانس میں تکلیف محسوس ہورہی تھی، اس کے علاوہ بھی انہیں کئی ایک عوارض تھے جن کاخاطر خواہ علاج لاک ڈون کے تین مہینوں میں نہ ہوسکا تھا ، رحلت سے پیشتر کورونا رپورٹ نیگیٹو ثابت ہوئی تھی، جس سے علی الصبح امید ہوچلی تھی کہ آپ کا سایہ تادیر قوم پر باقی رہے گا۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ تقدیر میں جو لکھا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔
 مولانا نے   8 رمضان المبارک 1364ھ مطابق   ۔  17-اگست 1945ء اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تھی، اس لحاظ سے  آپ نے اس دنیا کی پچھتر بہاریں دیکھیں۔ آپ کے والد حسین ملا صاحب  تقسیم ہند سے قبل خاکسار تحریک سے وابستہ رہے تھے۔ اور مدراس جسے اب چنئی کہا جاتا ہے میں ذریعہ معاش اپنا ئے ہوئے تھے، انگریزوں کے زمانے میں جب خاکسار تحریک کا کریک ڈاؤن ہوا ، اور تاریخ آزادی کے بدترین ظلم و ستم کا نشانہ اسے بنایا گیا اور ویلور جیل میں عنایت  اللہ مشرقی سمیت کو تحریک کے بہت سے افراد کو قید وبند کیا گیا تو ان میں آپ بھی تھے، آپ کو بھی سخت ترین اذیتوں سے گذارا گیا ، اور آپ کی پیشانی کے  اوپری حصہ پر ایسی ضرب لگائی گئی جس کے بعد آپ کا نفسیاتی توازن بگڑ گیا، لہذا آپ کو والد کی سرپرستی نہ مل سکی، آپ کے  چچا ملا احمد اور ملاحسن صاحب سابق ناظم جامعہ نے آپ کا خیال رکھا۔
آپ نے کی تعلیم کا آغاز انجمن سکول سے ہو ا، جہاں ابھی آپ دسویں جماعت (میٹرک)  میں تھے تو 1962ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل تاسیس کا اعلان ہوا، اس وقت آپ نے بانیاں جامعہ میں سے ایک اور تاسیسی کمیٹی کے کنوینر جناب الحاج محی الدین منیری مرحوم کی تقریر سے متاثر ہوکر جامعہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا، اسکول ہیڈ ماسٹر جناب عثمان حسن جوباپو مرحوم اور سرپرستان وغیرہ کو آپ سے بڑی امیدیں تھیں، آپ کی تعلیمی صلاحیتوں کو دیکھ کر آپ کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن آپ نے کسی کی نہ مانی اور اپنے فیصلہ پر اٹل رہ کر   جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں عربی درجہ کے اولین طالب بننے کا شرف حاصل کیا۔
اولین معتمد جامعہ استاد  الاساتذہ حضرت مولانا عب الحمید ندوی رحمۃ اللہ نے آپ پر خصوصی توجہ دی جس کے نتیجہ میں آپ نے چار سال کے اندر عربی ششم تک کی استعداد حاصل کی اور 1966 میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں عربی ہفتم میں داخلہ لیا، اور جامعہ کی ضروت کو دیکھتے ہوئے ،  دو سال کے عرصہ میں سنہ 1967ء  کے اواخر میں عالمیت کی سند لے کر لوٹے، جب آئے تو ان کے مربی اور استاد مولانا عبد الحمید ندوی ؒ جامعہ سے جاچکے تھے۔ اور صورت حال یہ تھی کہ جامعہ میں   کوئی فارغ التحصیل مستقل بنیادوں پر تدریس کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے موجود نہیں تھا۔
مولانا نے 1977ء تک تقریبا نو سال تک بڑی تندہی اور جفاکشی سے تعلیم وتربیت کی ذمہ داری سنبھالی ، تدریس سے وابستگی کے سال بھر بعد نئے اساتذہ مہتممین وغیرہ نے ذمہ داریاں سنبھالیں، بعض لوگوں کی نظر میں تعلیمی  وتربیتی لحاظ سے  سے یہ جامعہ کا زرین ترین دور شمار ہوتا ہے۔
آپ نے 1977ء کے بعد ایک طویل عرصہ تک فاروقی مسجد کی امامت کےفرائض انجام دئے ، جہاں آپ نے محلے کے نوجوانوں کی اسلامی خطوط پر تربیت میں خصوصی توجہ دی، 1980ء میں جب آپ کا سعودی عرب سے ویزا آیا ہوا تھا، اس وقت الحاج محی الدین منیری مرحوم کی دعوت پر جامعۃ الصالحات بھٹکل میں خدمات کو ترجیح دی، اور کوئی 12 سال تک یہاں پر قوم کی لڑکیوں کو فقہ کا درس دیا، تجہیز وتکفین کی تربیت دی۔
1990 میں اولین بین الجماعتی کانفرنس کالیکٹ میں  تجاویز کے نفاذ کمیٹی کا کنوینر منتخب کیا گیا، جس دور میں آپ نے نہی المنکر کمیٹی کو فعال کرنے میں اہم کردا ر ادا کیا۔
میں حضرت مولانا محمد احمد خطیبی رحمۃ اللہ علیہ قاضی جماعت المسلمیں کے بعد آپ کو چیف قاضی منتخب کیا گیا ۔
۔2017ء میں بانی جامعہ جناب ڈاکٹر علی ملپا صاحب کی رحلت کے بعد آپ کو جامعہ کا صدر منتخب کیا گیا۔
آپ نے معاشرے میں ایک استاد مربی داعی اور فقیہ کی حیثیت سے بہت فعال کردار ادا کیا ، جہاں آپ نے 1972ء میں مجمع العلماء کے قیام میں حصہ لیا ، وہیں آپ نے بھٹکل میں پہلی غیرسودی قرضہ اسکیم کے لئے کوششیں کیں۔ حساب اور علم الہیئۃ سے آپ کی گہری دلچسپی رہی جس کے طفیل بھٹکل و اطراف کو اوقات الصلوۃ کی دائمی تقویم مل گئی  ، اللہ کی ذات سے امید ہے اس تقویم اور آپ کے دوسرے نیک کاموں کے طفیل آپ کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔
ایک مخلص ، مدبر ، فقیہ عالم با عمل ، اور زاہد بے بدل، کی اس دنیا سےدائمی رخصتی پر جہاں آنکھیں پرنم ہیں، تو وہیں ایک ایسے وقت میں جب کہ آپ کی رہنمائی کی ضرورت قوم کو پہلے سے زیادہ تھی ،اس جدائی پر ایک خلا سا محسوس ہوہا ہے ، موت العالم موت العالم کی حقیقت آج آشکارا ہورہی ہے، ایسی جامع الصفات شخصیات قوموں میں شاذو نادر پیدا ہوتی ہیں، لیکن جب وہ اپنا خلا چھوڑتی ہیں، تو انہیں پورا کرنے کو زمانے لگ جاتے ہیں۔ مولانا کی زندگی روشنی سے معمور تھی، آپ نے اپنے بعد ایک نسل چھوڑی ہے جو آپ کی جلائی  ہوئی شمعوں میں روشنی باقی رکھنے کی کوشش کررہی ہے ، لیکن آپ کی ذات تو ایک سورج کی مانند تھی۔ ایسا سورج اب کہاں سے لائیں ، جانے والا اپنے خالق کی بارگاہ میں جاچکا ہے، اور ہم پریشان ہیں کہ تعزیت کریں تو کس سے؟ ہم خود بھی تو تعزیت کے حقدار ہیں۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے