اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
سارے نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺکی عظمت وفضیلت پر بہت کچھ لکھا گیا اور بولا گیا ہے اور جب تک دنیا باقی ہے حضور اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کئے جاتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب جسے اللہ تعالیٰ نے ۲۳ سال کے عرصہ میں حضور اکرم ﷺ پر بذریعہ وحی نازل فرمائی ، سرکار دوعالم ﷺ کے محاسن وفضائل اور کمالات کا ایک حسین وجمیل گلدستہ بھی ہے، اور آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ واوصاف حسنہ کا ایک خوب صورت اور صاف شفاف آئینہ بھی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آپ ﷺ کا ذکر خیر موجود ہے، کہیں آپ کو اللہ کا رسول کہا گیا ہے، کہیں لوگوں کو خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بتلایا گیا ہے، کہیں کہا گیا ہے کہ اے محمد آپ کی رسالت پوری کائنات کے لئے ہے، کہیں کہا آپ آخری نبی ہیں۔ غرضیکہ قرآن کریم میں آپ ﷺ کے بے شمار اوصاف بیان کئے گئے ہیں مگر وَمَا اَرْسَنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن (سورۃ الانبیاء ۱۰۷) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا ایک امتیازی وصف بیان کیا ہے۔ اور وہ ہے کہ ہم نے آپ کو دنیا جہاں کے لوگوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔ یعنی آپ ﷺکی ذات سراپا رحمت ہے، نہ صرف اس زمانہ کے لئے جس میں آپ مبعوث ہوئے اور نہ صرف ان لوگوں کے لئے جن کے سامنے آپ مبعوث فرمائے گئے، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے آپ ﷺ کو نبی رحمت یعنی سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔
سیرت النبی کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے کفار مکہ کے ہاتھوں کیا کچھ تکلیفیں اور اذیتیں نہ سہیں، لیکن کبھی نہ کسی کے لئے بددعا فرمائی اور نہ کسی پر نزول عذاب کی تمنا کی بلکہ اگر آپ ﷺ کو عذاب کا اختیار بھی دیا گیا تب بھی از راہ رحمت وشفقت آپ ﷺ نے ہر تکلیف نظر انداز کی اور ظالموں سے درگزر کیا، حالانکہ ان کا جرم کچھ کم نہیں تھا کہ وہ اللہ کے پیارے رسول کو ایذا دینے کے گناہ میں مبتلا ہوئے تھے، ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہونا چاہئے تھا لیکن آپ ﷺ نے ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیا اور محض آپ کی صفت رحمت کے باعث وہ قہر خداوندی سے محفوظ رہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سراپارحمت ہے، آپ ﷺ کی یہ خصوصیت آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں بہ تمام وکمال موجود ہے۔ آپ ﷺ اپنی گھریلو زندگی میں ، گھر سے باہر کے معاملات میں، اپنوں اور غیروں کے ساتھ، بڑوں اور بچوں کے ساتھ، ایک ناصح مشفق اور ہمدرد غم گسار کی حیثیت سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو رحمت سے معمور دل عطا فرمایا تھا جو کمزوروں کے لئے تڑپ اٹھتا تھا، جو مسکینوں اور یتیموں کی حالت زار پر غم سے بھر جاتا تھا۔ سارے جہاں کا درد آپ ﷺکے دل میں سمٹ آیا تھا۔ یہاں تک کہ رحمت کا وصف آپ کی طبیعت ثانیہ بن گیا تھا، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا اپنا کیا پرایا، کیا مسلمان، کیاکافر سب آپ ﷺکے رحم وکرم سے بہروہ رہا کرتے تھے۔
آپ ﷺ کی بچوں پر شفقت: بچوں پر آپ ﷺ کی شفقت کا نظارہ قابل دید تھا، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کوئی بچہ آپ کو کھیلتا کودتا نظر آتا تو آپ خوشی میں اس کو لپٹا لیا کرتے تھے، اس کو بوسے دیتے، اس کے ساتھ ہنسی مزاق کرتے، ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کررہے تھے کہ ایک دیہاتی کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور کہنے لگا کہ کیا آپ اپنے بچوں کو پیار بھی کرتے ہو،ہم تو نہیں کرتے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت کا جذبہ ختم کردیا ہے؟ ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ سجدہ میں تشریف لے جاتے تو امامہ کو زمین پر بٹھادیتے اور کھڑے ہوتے تو انہیں گود میں اٹھالیتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپﷺ نے نماز مختصر کردی تاکہ بچے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔
آپ ﷺ نے خواتین کو معاشرہ میں عزت دی: عورتیں فطرتاً کمزور ہوتی ہیں ، آپ ﷺ نے باربار صحابۂ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، اُن کی دل جوئی کریں، ان کی طرف سے پیش آنی والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : خبردار! عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس لئے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں ۔ایک مرتبہ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے کسی لڑکی کی صحیح سرپرستی کی اور اس کی اچھی تربیت کی تو یہ لڑکی قیامت کے دن اس کے لئے دوزخ کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔ آپ ﷺ نے خود اپنے طرز عمل سے صحابۂ کرام کے سامنے خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی اعلی مثالیں قائم کیں۔حضور اکرم ﷺ نے بیواؤں سے نکاح کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بیواؤں کو تنہا نہ چھوڑو بلکہ انہیں بھی اپنے معاشرہ میں عزت بخشو۔
آپ ﷺ نے خادموں اور نوکروں کا خیال رکھا:آپ ﷺ کو خادموں اور نوکروں کا بھی بڑا خیال تھا چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ خادم تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنادیا ہے، اگر کسی کا بھائی اُس کا ما تحت بن جائے تو اُسے اپنے کھانے میں سے کچھ کھلائے، اس کو ایسا لباس پہنائے جیسا وہ خود پہنتا ہے، اس کی طاقت وہمت سے زیادہ کام نہ لے، اگر کبھی کوئی سخت کام لے تو اُس کے ساتھ تعاون بھی کرے۔ اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر تمہارا خادم یعنی نوکر چاکر تمہارے لئے کھانا بناکر لائے تو اُسے اپنے ساتھ بٹھاکر کھلاؤ یا اُس کھانے میں سے اُسے کچھ دیدو، اس لئے کہ آگ کی تپش اور دھویں کی تکلیف تو اُس نے برداشت کی ہے۔
آپ ﷺ کی یتیموں سے بڑی ہمدردی تھی:یتیموں کے لئے بھی آپ ﷺکے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اس لئے آپ صحابۂ کرام کو یتیموں کی کفالت کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ، آپ نے قربت بیان کرنے کے لئے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جنت میں ہوگا۔
آپ ﷺ کا جانوروں پر رحم:آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہ تھا بلکہ بے زبان جانور بھی آپ ﷺ کی رحمت سے مستفید ہوتے تھے۔ احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ کسی انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے ، وہاں ایک اونٹ موجود تھا، آپ ﷺ کو دیکھ کر اونٹ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپ ﷺ یہ منظر دیکھ کر اس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے، اس کے بدن پر ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ پرسکون ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے دریافت کیا : اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے عرض کیا یارسول اللہ! میرا ہے۔ آپ ﷺنے اُن سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس نے تمہیں اس جانور کا مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے زیادہ کام لیتے ہو۔ ایک مرتبہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اگر تم ذبح کرو تو اچھے طریقے پر ذبح کرو، ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری تیز کرلیا کرو تاکہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔
آپ ﷺ کا بے جان چیزوں پر رحم:بے زبان چیزیں بھی آپ ﷺ کے دائرہ رحمت میں شامل تھیں، سیرت کی کتابوں میں ایک حیرت انگیز واقعہ موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بے زبان چیزوں سے بھی آپ ﷺ کا کتنا تعلق تھا۔ مسجد نبوی میں جب آپ ﷺ خطبہ دیتے دیتے تھک جاتے تو ایک ستون سے ٹیک لگالیا کرتے تھے۔ بعد میں آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کردیا گیا۔ آپ ﷺ اُس پر تشریف رکھنے لگے۔ ظاہر ہے کہ وہ ستون آپ کے جسم اطہر کے لمس سے محروم ہوگیا۔ اُس بے زبان ستون کو اِس واقعہ سے اِس قدر صدمہ پہونچا کہ وہ تڑپ اٹھا یہاں تک کہ اُس کے رونے کی آواز آپ ﷺ نے بھی سنی اور صحابۂ کرام کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپ ﷺ منبر سے اترکر ستون کے پاس تشریف لے گئے، اور اُس پر دست شفقت رکھ کر اُسکو پر سکون کیا۔ آپ ﷺ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اسے گلے نہ لگاتا تو یہ ستون قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔
آپ ﷺ کا عفو وکرم: مکی دور میں قریش مکہ نے آپ ﷺ کو کتنا ستایا، آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ پر کتنے مظالم ڈھائے گئے یہاںتک کہ آپ کو اپنا وطن عزیز بھی چھوڑنا پڑا۔ اس سے بڑھ کر تکلیف دہ واقعہ انسان کے کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے ظلم وستم سے عاجز آکر اپنا گھربار سب کچھ چھوڑکر دیار غیر میں جاکر فروکش ہوجائے۔ اس کے باوجود جب چند سال بعد آپ ﷺ فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عجز وانکساری سے آپ ﷺکی گردن مبارک جھکی ہوئی تھی اور آپ ﷺکی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے : تم پر آج کوئی گرفت نہیں ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ اُس دن چاہتے تو اپنے تمام دشمنوں سے گن گن کر بدلہ لے سکتے تھے، مگر آپ ﷺنے انتقام پر عفو وکرم کو ترجیح دی اور فرمایا: آج رحمت کا دن ہے۔
یہ ایسا عظیم موضوع ہے کہ رحمۃ للعالمین کے رحم وکرم اور شفقت پر پر دن رات بھی لکھا جائے تو اس موضوع کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی بیوی، بچے، گھر کے افراد اور گھر کے باہر لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرنے والا بنائے جو رحمۃ للعالمین نے اپنے قول وعمل سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے پیش فرمائے، آمین۔
جواب دیں