حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا دن؟

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ،   ترتیب:   عبدالعزیز

    
     عاشورہ کی وجہ تسمیہ علمائے کرام نے مختلف طور پر بیان کی ہیں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لئے اس کو عاشورہ کہا گیا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اللہ نے جو بزرگیاں (ایام کے لحاظ سے) اس امت کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دسویں عزت(کادن) ہے۔ اس لئے اس دن کو عاشورہ کہا جاتا ہے۔
    (1)۔ شعبان ہے۔ اس کی فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی دوسرے انبیاء پر رسول اللہ ؐ کی فضیلت۔(2)ماہ رمضان ہے۔ اس کی فضیلت باقی مہینوں پرایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت مخلوق پر۔(3)شب قدر ہے۔ یہ بارہ مہینوں سے بہتر ہے۔(4) عیدالفطر کا دن ہے۔ یہ (روزہ کی جزا) ملنے کا دن ہے۔(5)ذی الحجہ کے دس دن ہیں یہ اللہ کی یاد کے دن ہیں۔(6) عرفہ کا دن ہے۔ اس سال روزہ رکھنے سے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔(7)قربانی کا دن ہے۔(8) جمعہ کا دن ہے ”یہ سید الایام“ ہے۔(9)عاشورہ کا دن ہے اس دن روزہ رکھنے سے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے(10)    (حضرت شیخ قادر جیلانی ؒ نے رجب کے مہینے کی بھی فضیلت بیان کی ہے)
    مذکورہ ایام کا ہر وقت ایک خاص عزت ہے جو اس امت کو اللہ نے عطا فرمائی ہے تا کہ اس کے گناہوں کااتارا اور خطاؤں سے طہارت ہوجائے۔
    بعض علماء نے عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ اللہ نے اس روز دس پیغمبروں پر دس عنایتیں فرمائی تھیں!
    1۔ اس روز حضرت آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی۔    2۔ حضرت ادریس ؑ کو اونچے مرتبہ کے مقام پر اٹھا لیا گیا۔3۔ حضرت نوحؑ کی کشتی اس روز زمین پر ٹھہری۔4۔ اس روز حضرت ابراہیمؑ پیدا ہوئے اور اسی روز اللہ نے آپ کو خلیل بنایا اور اسی روز نمرود کی آگ سے بچا لیا۔5۔ اس روز حضرت داؤدؑ کی توبہ قبول فرمائی اور اسی روز حضرت سلیمان ؑ کو واپسی ملی۔    6۔ اسی روز حضرت ایوبؑ کا دکھ دور ہوا۔7۔ اسی روز حضرت موسیٰؑ کو سمندر میں ڈوبنے سے بچایا اور فرعون کو غرق کیا۔8۔ اسی روز حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی دی۔9۔ اسی روز حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔10۔ اسی روز رسول اللہ ﷺ کی پیدا ئش ہوئی۔
     عاشورہ کا دن محرم کی کس تاریخ کو ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اکثر علماء کا قول جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہتے ہیں۔ بعض نے گیارہویں تاریخ کو عاشورہ کہا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے جو قول مروی ہے اس میں نویں تاریخ کے عاشورہ ہونے کا ذکر ہے۔ حکیم ابن اعرض نے حضرت ابن عباسؓ سے دریافت کیا کہ عاشورہ کا روزہ کس دن رکھا جائے، فرمایا کہ محرم کا چاند دکھ جائے تو گنتی رکھو، نویں تاریخ کی صبح کو روزہ رکھو۔ حکیم نے کہا کہ کیا رسول اللہؐ بھی اسی تاریخ کو روزہ رکھتے تھے؟ فرمایا: ہاں۔ دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول آیا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا تھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ یہود و نصاریٰ اس دن کو بڑا جانتے ہیں۔ فرمایا آئندہ سال ہوگا تو انشاء اللہ ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ لیکن آئندہ سال آنے سے پہلے ہی حضور /ﷺ کی وفات ہو گئی۔ حضرت ابن عباس کے دوسرے الفاظ بھی اسی طرح ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا تھا کہ اگر اگلے سال میں زندہ رہا تو انشاء اللہ تعالیٰ نویں تاریخ کو روزہ رکھوں گا۔ حضور ﷺ نے بنظر احتیاط فرمایا تھا کہ کہیں عاشورہ کا روزہ فوت نہ ہوجائے۔
روزہ عاشورہ کے بعض فضائل:         حضرت امام حسینؓ کی اسی دن شہادت ہوئی۔ حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اتفاقاً حسینؓ بھی آپؐ کے پاس آگئے۔ میں نے در وازے سے نگاہ کی تو رسول اللہ کے سینہئ مبارک پر چڑھے کھیل رہے تھے۔ حضورؐ کے ہاتھ میں اس وقت مٹی کا ایک ٹکرا تھا اور آپ کے آنسو جاری تھے۔ جب حسینؓ نکل کر چلے گئے تو میں گئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ ؐ میرے ماں باپ قربان۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں مٹی تھی اور آپ رو رہے تھے۔ فرمایا جب وہ میرے سینہ پر کھیل رہا تھا اور میں خوش خوش تھا کہ جبریلؑ نے لا کر وہ مٹی دی جس پر حسین ؓ کو شہید کیا جائے گا اسی لئے میں رو دیا۔
     حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو سلیمان بن عبد المالک نے خواب میں دیکھا کہ آپ اس کو بشارت دے رہے تھے اور مہربانی فر ما رہے تھے۔ صبح ہوئی سلیمان نے حسن بصری سے تعبیر دریافت کی۔ حسن بصری نے فرمایا شاید رسول اللہ ؐ کے اہل سے تم نے کوئی اچھا سلوک کیا۔ سلیمان نے کہا: ہاں یزید بن معاویہ کے خزانے میں مجھ کو حضرت حسین ؓ کا سر ملا تھا۔ میں نے دابیہ کے پانچ کفن پہنا کر اپنے ساتھیوں کی جماعت کے ساتھ اس کی نماز پڑھ کر قبر میں دفن کر دیا۔ حسن بصری نے فرمایا اسی وجہ سے رسول اللہ ؐ تم سے راضی ہو گئے۔ اس پر سلیمان نے حسن بصری سے اچھا سلوک کیا اور آپ کو انعام دینے کا حکم دیا۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ اور حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں دیکھا۔ دونوں حضرات حضرت امام حسین ؓ کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ ابو نصر نے اپنے والد کی روایت اسناد سے مجو اللہ ابو اسامیہ سے بیان کیا کہ جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؓ کی شہادت کے دن آپ کی قبر پر ستّر ہزار فرشتے نازل ہوئے جو روز قیامت تک روتے رہیں گے۔
     بعض لوگ عاشورہ کا روزہ رکھنے والوں پر  اور اس دن کی تعظیم کی روایت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن روزہ رکھنا جائز نہیں کیونکہ اس دن حضرت حسین ؓ شہید کئے گئے تھے۔ آپ کی وفات کی وجہ سے اس روز ہمہ گیر دکھ ہونا چاہئے۔ مگر تم اس دن کو سرور اور خوشی کا دن مناتے ہو اور بال بچوں کے مصارف میں وسعت کرنے اور فقیروں، محتاجوں او ریتیموں کو خیرات دینے کا حکم دیتے ہو۔ جمہور اہل اسلام پر حضرت حسینؓ کا جوحق ہے، اس کا یہ تقاضہ نہیں۔ یہ قائل غلطی پر ہے اس کا مسلک برا اور فاسد اللہ نے اپنے نبی محمدؐ کے نواسہؓ کے شہادت کے لئے ایسے دن کا انتخاب فرمایا جو شرف و عظمت، جلالت قدر اور بزرگی میں دس دنوں سے بڑھ چڑھ کر تھا تا کہ ان کو شخصی بزرگی کے ساتھ مزید بزرگی اور رفعت عطا فرمائے اور شہید ہونے والے خلفائے  راشدین کے مراتب پر ان کو پہنچا دے۔ اگر آپ کی وفات کے دن کو مصیبت کا دن بنا لیا جائے تو پھر پیر کا دن تو اس کے لئے اور بھی اولیٰ ہے کیونکہ اس روز رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تھی اور بقول حضرت عائشہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بھی اسی روز وفات ہوئی ہے۔ جشام بن عروہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے فرمایا رسول اللہ ؐ کی وفات کس دن ہوئی تھی میں نے جواب دیا”پیر کے دن“۔فرمایا مجھ کو امید ہے کہ اسی دن میں بھی مروں گا۔ چنانچہ آپ کی وفات بھی اسی دن ہوئی۔
     رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر صدیقؓ کی وفات دوسروں کی وفات سے بڑی ہے۔ حالانکہ سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ پیر کا دن بزر گ ہے۔ اس میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ پیر کے روز اور جمعرات کے روز بندوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ پس عاشورہ کے دن کو بھی اس طرح مصیبت نہیں بنایا جاتا۔ اس کو یوم مسرت و فرحت بنانے سے یوم مصیبت بنا لینا اولیٰ نہیں ہے۔ کیونکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس روز اللہ نے انبیاء کو دشمنوں سے نجات دی اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور آسمان و زمین کی تخلیق کی اور بزرگی رکھنے والی چیزیں بنائیں اور آدمؑ وغیرہ کو پیدا کیا اور روزہ رکھنے والے کے لئے بڑے ثواب اور کثیر عطا اور گناہوں کا اتار اور برائیوں سے رہائی مقرر فرمائی۔ اس لئے عاشورہ بھی عیدین،جمعہ اور عرفہ جیسے متبرک دنوں کی طرح ہے، پھر اگر اس دن کو یوم مصیبت قرار دینا جائز ہوتا تو صحابہ اور تابعین ایسا کرتے۔ہمارے امام حسینؓ سے زیادہ قریب اور خصوصیت رکھتے تھے۔ حدیث میں اس روز اہل و عیال کے مصارف میں وسعت کرنے اور روزہ رکھنے کی ترغیب بھی ہوئی ہے۔۔ حضرت علیؓ اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا تھا جس نے عاشورہ میں رات بھر عبادت کی جب تک وہ چاہے اللہ اس کو زندگی دیتا ہے۔ ان تمام دلائل سے معترض کے اعتراض کی غلطی واضح ہو گئی۔ (واللہ اعلم)۔ (غنیہ الطالبین)

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

02ستمبر2019(فکروخبر)

«
»

رویش کمار کے ویڈیو، ناگپور کی ریلی اور گوتم گمبھیر کے ٹوئٹ کا سچ

قندیل اثاثہ ہے ، اثاثہ جو میں سمجھوں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے