حضرت انسان کوجانئے پہچانئے۔یہ کیا ہیں اورکیسے ہیں؟

 ابونصر فاروق

    اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی تو اس میں سب سے اونچا مقام انسان کو دیا۔اسے خلیفہ یعنی پورے عالم کا سردار بنا دیا۔کائنات کی ساری مخلوق اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہے تاکہ جس کام اور مقصد کو پورا کرنے کے لئے یہ زمین پر بھیجا گیا ہے اُسے پورا کرنے میں پوری کائنات اس کی مدد کرے اور ہر طرح کا تعاون کرے۔اسے عزت والا اور بلند مرتبہ بنایا۔لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ درجن خرابیاں، کمزوریاں اور عیب اس کی ذات کو لگا دیے۔شاید اسی چیز کو دیکھ کر فرشتوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ زمین پر خون خرابہ کرے گا او ر فساد برپا کرے گا۔لیکن فرشتوں نے اپنی کم علمی کی وجہ سے تصویر کا صرف ایک پہلو دیکھا تھا، دوسرا پہلو نہیں دیکھا تھا۔اللہ نے کہا میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ہو۔یعنی ان تمام خرابیوں کے باوجود انسانوں میں ایسے ایسے متقی، پرہیز گار، محسن، صالح اور باکمال لوگ پیدا ہوں گے جن کو دیکھ کرساری کائنات حیران رہ جائے گی، کہ اختیار اورآزادی ہونے کے بعد بھی یہ بندہ اللہ کا کیسا سچا اورپکافرماں بردار ہے۔اپنے نفس کو کس طرح اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہے،کہ شیطان ہزار کوشش کے بعد بھی اس کو بہکانے میں ناکام اورنامراد ہے۔اور یہی بات ہے جو کے بارے میں شیطان نے کہا تھا کہ تیرے بندوں پر میرا بس نہیں چلے گا، اوراللہ نے بھی کہا تھاکہ میرے بندوں پر تیرا بس نہیں چلے گا۔
    جس طرح انسان لوہے کو دیکھتا ہے کہ جب وہ فیکٹری سے نکل کر آتا ہے تو کیسا چمکتا رہتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس پر زنگ لگنا شروع ہوتا ہے اور وہ غلیظ بن جاتا ہے۔جب اُس سے کوئی سامان بنایا جاتا ہے تو اُس پر پرائمرلگایا جاتا ہے توکہ دوبارہ زنگ اُس پر نہ لگ سکے اورپھر پینٹ کر کے حسین بنا دیا جاتا ہے۔اسی طرح قرآن کہتا ہے کہ:یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اورنامراد ہو گیا وہ جس نے اس کودبادیا۔(الشمس:۹/۰۱)
    عرب میں تزکیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چاول پکانے سے پہلے اُس کو چنا جاتا ہے اور اُس میں سے کنکر پتھر الگ کیا جاتا ہے۔اسی طرح کسان جب اناج کا پودا لگاتا ہے تو اس کے ساتھ پیدا ہونے والے گھانس پھونس کو چن چن کر الگ کرتا ہے تاکہ اناج کے پودے کو زمین کی پوری غذا مل سکے۔چنانچہ جو انسان اپنی کمزوریوں اور خرابیوں کو جانتا ہے اور اُن سے چھٹکارا پانے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے وہی مجاہد کہلاتا ہے اوراللہ کی نظر میں محبوب بنتا ہے۔نیچے قرآن میں بیان کی گئی ان تمام خرابیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جن سے نجات پانے کی کوشش ہی اصل عبادت ہے۔    
(01)     کمزورہے……اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے،کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (النساء:۸۲)کمزور پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان جسمانی اعتبار سے حیوانوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔مگر اس کے عقل نام کی ایک ایسی دولت ہے جس سے حیوان محروم ہے۔ اور اسی نعمت کی بدولت انسان اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور حیوان کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ دوسرے بات یہ کہ ایک طاقت جسم کی ہوتی ہے اور دوسری طاقت ارادے کی ہوتی ہے۔انسان پیدائشی طور پر ارادے کا کمزور ہے، لیکن مناسب تعلیم اورتربیت سے وہ اس کمزور پر قابو پا لیتا ہے اور پھر اُس کا طاقت وراردہ پہاڑ کو کاٹ کر اُس میں راستہ بنا لیتا ہے۔
(02)    حد سے گزرنے والا……انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے۔مگر جب ہم اُس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے گویااُس نے کبھی اپنے برے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہیں تھا۔اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لئے اُن کے کرتوت خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔(یونس:۲۱)
    حد سے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طاقت، صلاحیت اور کام کرنے کی لیاقت ایک محدود دائرے کے اندر ہے۔وہ اُس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے۔انسان کے حالات اور ماحول اگر اُس کا ساتھ نہ دیں تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے۔حالات اور ماحول کو بنانے اوربگاڑنے والا اللہ ہے۔انسان کو اس معاملے میں ہمیشہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے دعا اور فریاد کرتے رہنا چاہئے۔لیکن انسان جب شیطان کے چکر میں پڑتا ہے تو خدا کو بھول جاتا ہے اورسمجھتا ہے کہ وہ حالات کے رخ کو بھی موڑ دے گا۔یہی اُس کا حد سے گزر جانا ہے۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ

مقصد کے تعین کے بغیر اجتماعیت اور اجتماعیت کے بغیر کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے