حضرت عائشہ صدیقہ کی کم عمری میں شادی کا مسئلہ

  ڈاکٹر زاہد شاہ 

مذکورہ مسئلہ پر بہت کچھ لکھا گیا یے ہم نے بھی کم عمری میں شادی اور چار سے زائد شادیوں وغیرہ پر اعتراضات، شبھات کے حوالے سےایک مقالہ لکھا ہے۔۔۔۔۔ہمارے نزدیک صدیقہ عائشہؓ کی عمر شادی کی وقت 16سال سے زیادہ تھی، ۔۔۔۔لیکن نو سال والی روایت بھی نہ اتنی کمزور ہے، نہ اس پر وہ اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو دشمنان اسلام یا روافض یا متجددین نے اٹھائے ہیں، یہ تو نو سال یے، جو بلوغت کی عمر ہے لیکن اگر شادی ایک سال میں بھی ہوتی تو درست ہوتی، رسول اللہ کی یہ شادی اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکم پر ہوئی تھی، رسول اللہ کا عمل عام انسانی اعمال پر قیاس کرنا کونسی عقلمندی ہے؟

  دوسری بات یہ ہے. کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تمام امہات المؤمنین عمر رسیدہ اور اکثر بیوہ ہوکر عقد میں آئی تھیں، اس لیے ایسی بچی،یا کم عمر خاتون کی ضرورت تھی جس کی تربیت رسول اللہ خود کرے تاکہ وہ باقی لوگوں اور خواتین کو دین سیکھائے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر یہ نکاح کیا۔یاد رکھنا چاہئے رسول اللہ کو شادی کی ضرورت نہیں تھی،ضرورت امت کی تھی ،یہی وجہ ہے کہ دین کے اکثر مسائل خاص کر ڈومیسٹک اور پوشیدہ مسائل حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے سکیھے گئے….. ۔۔۔اسفندیار ربانی صاحب پشاور یونیورسٹی اور دیگر ساتھیوں کے حکم پر معترضین کا جواب حاضر خدمت ہے۔۔۔۔۔مذکورہ اعتراضات کا علماء نے یوں جواب دیا ہے۔۔۔۔
(1)پہلی دلیل اور اس کا جواب: قرآن کی جو آیات پیش کی ہیں، ان میں کہیں یہ نہیں کہ شادی کی عمر یہ ہونی چاہئے اور یہ بات خود مخالفین کو بھی تسلیم ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: "قرآن کریم میں کہیں براہِ راست تو یہ بیان نہیں ہوا کہ نکاح کی عمر کیا ہوتی ہے" بھائی اگر براہ راست بیان نہیں ہوا تو پھر آپ کا استدلال تو ظنی و استشہادی نکلا پھر اسے صریح روایات کے خلاف کس طرح مانا جا سکتا ہے؟ نیز جو آیات پیش کی گئی ہیں، ان میں صرف عرف کی بات کی گئی ہے کہ عام طور پر جو شادی کی عمر سمجھی جاتی ہے، ان میں سے کسی آیت میں ہرگز یہ نہیں کہ اگر اس سے چھوٹی عمر میں شادی ہو جائے تو وہ مانی نہیں جائے گی یا ہو گی ہی نہیں بلکہ الٹا اس کے خلاف قرآن سے ثابت ہے۔
چنانچہ قرآن میں لکھا ہے:
"اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔" (سورۃ الطلاق: 4)
مشہور تابعی قتادہ نے "جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو" کی تشریح میں کہا: "وہ باکرہ دوشیزائیں جو ابھی حیض کی عمر کو نہ پہنچیں۔" (تفسیر دُرِ منثور مترجم، ج6 ص614،)
امام المفسرین ابن کثیر نے اس آیت کی شرح میں صاف لکھا: "اسی طرح وہ نابالغ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں کپڑے (حیض) آئیں، ان کی عدت بھی تین ماہ رکھی۔" (تفسیر ابن کثیر مترجم، ج5 ص358، )
مشہور اور قدیم ترین مفسر امام ابن جریر الطبری نے جنہیں حیض نہ آیا ہو، سے مراد چھوٹی بچیاں ہی لیا ہے۔ دیکھئے تفسیر طبری (92/28، تفسیر سورۃ الطلاق آیت 4)
مفتی محمد شفیع (سابق مفتی اعظم پاکستان) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اور اس طرح جن عورتوں کو (اب تک بوجہ کم عمری کے) حیض نہیں آیا (ان کی عدت بھی تین مہینے ہے)۔" (معارف القرآن جلد ہشتم ص474) عبارت میں بریکٹ والے الفاظ خود مفتی صاحب کے ہیں۔
اس تفصیل سے تو بالکل واضح ہے کہ قرآن میں تو نکاح ہی نہیں بلکہ رخصتی و ہمبستری کے لئے بھی بچی کی بلوغت ہرگز کوئی شرط نہیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ عدت صرف اسی پر ہو سکتی ہے جس کا نکاح ہونے کے بعد ہمبستری بھی کی جا چکی ہو۔ دیکھئے سورۃ الاحزاب (آیت: 49) کہ جس کی رُو سے جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو اس پر تو سرے سے کوئی عدت ہی نہیں۔
(2)دوسری دلیل: قریشِ مکہ اور منافقینِ مدینہ دونوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اندھے ہورہے تھے ، وہ اس واقعے کے خلاف آسمان سر پر اٹھالیتے ۔
جواب: بھائی پہلے یہ بتاؤ کہ کفار و منافقین خود جس عمل کو تسلیم کرتے ہوں اس پر شور کیوں مچاتے؟ دوسرا کیا کفار کا کسی چیز کو ماننا خود دلیل ہوتا ہے؟ کفار تو اپنی بچیاں بھی زندہ درگور کرتے تھے یعنی اگر آپ بچیاں زندہ درگور کرتے تو بھی وہ شور نہ مچاتے کیونکہ یہ عمل وہاں پایا ہی جاتا تھا۔ مخالفین پہلے ثابت کریں کہ چھوٹی عمر کا نکاح کفار و مشرکین کے نزدیک حرام و ناجائز تھا، پھر یہ استدلال کریں۔ اس کے مقابلے میں ثابت ہے کہ عرب میں یہ عام بات تھی اور اس دور میں اور نکاح بھی ایسے ہوتے رہے ہیں اور بعد میں صحابہ و تابعین کے ہاں یہ عمل ملتا ہے:
چنانچہ حضرت زبیر نے اپنی بیٹی کی شادی اسی وقت کروا دی تھی جب وہ پیدا ہوئی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث 17627)
ہشام کے اپنے بھائی کی شادی حضرت معصب کی نا بالغ بیٹی سے ہوئی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث 17628)
یہ جن لوگوں کو کافروں اور منافقوں کے شورنہ ڈالنے کی فکر ہے ان سے بھی تو یہ سوال ہے کہ آپ کی نظر میں تو یہ روایات سراسر جھوٹی ہیں تو جب ہمارے یہ محدثین اور راوی یہ سب بہتان باندھ رہے تھے کتابوں میں بار بار لکھ رہے تھے، بیان کر رہے تھے تو اگر مسلمانوں کے ہاں یہ سب جرم ہوتا تو وہ شور نہ مچاتے؟ کافروں اور منافقوں کے شور نہ مچانے سے تو آپ استدلال لے رہے تو یہ نظر نہیں آ رہا کہ مسلمانوں نے ان روایات کو قبول کیا ہے، بار بار بیان کیا ہے، اگر پھر یہ جرم تھا تو ہر دور کے مسلمانوں نے شور کیوں نہ مچایا؟
(3)تیسری دلیل: ہشام بن عروہ پر اعتراض کہ یہ روایات اس کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا اور وہ بھی عمر کے آخری حصہ میں جب ان کی یاداشت متاثر ہو چکی تھی۔
الجواب: یہ بات تو اکثر ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے ان دوستوں کا علم سے کوئی لینا دینا ہی نہیں بلکہ انہیں تو بس اپنے من مانے مئوقف کا پروپیگینڈہ کرنا ہے، چاہے اس کے لئے دیگر تمام حقائق کا انکار کرنا پڑے اور چاہے تو جھوٹ بولنا پڑے۔ اپنے خلاف آنے والے کثیر اور مستند دلائل کا بھی بغیر دلیل انکار کرنا ہے اور جو اپنے حق میں آ جائے تو ضعیف و مردود روایات سے استدلال کرتے ہوئے بھی شرمانا نہیں۔
عرض یہ ہے کہ 6 یا 7 سال کی عمر میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی والی روایات تواتر کے ساتھ خود حضرت عائشہ سے ثابت ہیں۔ یہ روایات حضرت عائشہ سے بخاری و مسلم میں ان کے بھانجے عروہ بن زبیر کے علاوہ اسود بن یزید (صحیح مسلم: حدیث 3482)، یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب (مسند ابی یعلیٰ: حدیث 4673)، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف (سنن نسائی: حدیث 3381) اور عبداللہ بن صفوان (مستدرک حاکم: حدیث 6730) جیسے جید تابعین سے بھی مروی ہیں۔ چار معتبر گواہوں کے بعد تو قرآنی اصول کے مطابق تو حدود کا نفاذ واجب ہو جاتا ہے تو عروہ بن زبیر کے علاوہ چار تابعین کی گواہیوں کے باوجود یہاں حضرت عائشہ کی ان روایات کا انکار محض ڈھٹائی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں درج ذیل تابعین سے خود بھی اسی مفہوم کے اقوال بھی ثابت ہیں: 
1۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف (مسند احمد: 211/6، حدیث 25769) 
2۔ یحیٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب (مسند ابی یعلیٰ: حدیث 4673) 
3۔ ابن ابی ملیکہ (المعجم الکبیر للطبرانی: 26/23، حدیث 62) 
4۔ عروہ بن زبیر (صحیح بخاری: حدیث 3896) 
5۔ زہری (طبقات ابن سعد: 61/8) 
اسی طرح تبع تابعین میں سے بھی یہ روایات صرف ہشام بن عروہ سے ہی نہیں بلکہ دیگر سے بھی ثابت ہیں۔ چنانچہ 
1۔ حضرت عائشہ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کی روایت کو ہشام بن عروہ نے نہیں بلکہ محمد بن ابراہیم نے بیان کر رکھا ہے۔ (سنن نسائی: حدیث 3381) 
2۔ حضرت عائشہ سے اسود کی روایت کو بھی ہشام بن عروہ نے نہیں بلکہ ابراہیم نے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم: حدیث 3482) 
3۔ اسی طرح حضرت عائشہ سے عروہ بن زبیر کی روایت ہشام بن عروہ کے علاوہ زہری سے بھی مروی ہے۔ (صحیح مسلم: حدیث 3481) 
مشہور مئورخ اور محدث امام ابن کثیر نے تو اس مسئلہ پر اجماع نقل کر رکھا ہے۔ دیکھئے البدایہ و النہایہ (129/3) 
گویا حضرت عائشہ سے 6 سال کی عمر میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی کی جو بات تواتر کے ساتھ مسلمان مانتے آئے ہیں، بیچارے اکیلے ہشام پر اس کا مدعا نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ یہ کہنا درست مانا جا سکتا ہے کہ سب کے سب راویوں کو اتنی شدید غلطی لگی کہ 16 کو چھ بنا دیا اور 19 کو نو۔ ایسا کہنا صرف خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دینا ہی کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔(ڈاکٹر زاھد شاہ)

«
»

عید قرباں کے احکام و مسائل پر ایک دلچسپ مکالمہ

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے